نومبر 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سو سال پہلے…۔۔۔||رؤف کلاسرا

میں یہ ڈسکشن سن کر حیران ہورہا ہوں کہ یہ سب گفتگو 1920ء کی دہائی میں امریکہ میں ہورہی تھی کہ وہاں آج سے سو سال قبل کے طاقتور لوگ اس طرح حکومت کی طاقت استعمال کر کے اپنے مفادات کا تحفظ کر کے ارب پتی بن رہے تھے جیسے آج کل پاکستان میں چند کاروباری خاندان سیاست اور پارلیمنٹ پر قبضہ کرکے ارب پتی بن بیٹھے ہیں۔

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج کل ایک ڈرامہ سیزن دیکھ رہا ہوں جس کا نام 1923 ہے۔ اسے Yellowstone اور 1883 سیزن کا تسلسل بھی کہا جا سکتا ہے۔
مجھے ویسٹرن کائو بوائے فلمیں پسند ہیں۔ گائوں میں نیا نیا ٹی وی آیا تو ویک اینڈ پر فلموں کا انتظار رہتا تھا۔ میں اور میرا نوجوان مرحوم کزن عطا محمد ان فلموں کے بڑے شوقین تھے۔ ہم دونوں کو تیز انگریزی لہجہ سمجھ نہ آتا لیکن ہم ایکشن یا اداکاروں کے تاثر سے ہی فلم کو انجوائے کرتے۔ کبھی کبھار عطا محمد فلم کے انتہائی سنسنی خیز سین پر مجھ سے پوچھ لیتا کہ کیا کہہ رہے ہیں۔ میں اندازے لگا کر ایک ماہر کی طرح تبصرہ کر دیتا اور پھر کہتا :یار فلم کا موڈ خراب نہ کرو۔ وہ بے چارہ پھر چپ کرکے فلم میں گم ہو جاتا۔ ہم دونوں کو سرپٹ دوڑتے گھوڑوں پر سوار سمارٹ لڑاکا نوجوان‘ خوبصورت لکڑی سے کسی پہاڑی کے دامن میں بنے گھر اور بازار اپیل کرتے یا پھر سرخ پہاڑ اور ان کے درمیان سفید دھواں اڑاتی سیٹی بجاتی ٹرین ہمیں اپنی طرف کھینچتی۔ شیرف‘ ڈاکو اور حسینائیں۔ اور پھر ہمارے گائوں کی تاریک خاموش راتوں میں ان کے تیر دوڑتے گھوڑوں کے سموں کی آوازیں عجیب سماں پیدا کر دیتیں۔
ہم سب کزن ایک ہی حویلی میں رہتے تھے لہٰذا جب رات گئے باقی سو رہے ہوتے تھے تو ہم دونوں ٹی وی کے آگے فلم دیکھ رہے ہوتے۔ ہمارا پورا ہفتہ دعا میں گزرتا کہ ویسٹرن فلم ہو اور اگر کوئی اور فلم نکل آتی تو کچھ دیر بعد ہم دونوں اونگھنے لگ جاتے اور اکثر وہیں نیند آجاتی۔ آج بھی وہ رومانس باقی ہے اور میری پہلی ترجیح وہی ویسٹرن کائو بوائے فلمیں ہوتی ہیں۔ میرا بس چلے تو پورا ہفتہ ایک فلم روز دیکھوں۔ یہ شوق میں ویک اینڈ پر پورا کرتا ہوں۔
کبھی صرف ایک ٹی وی چینل تھا اور ہفتہ انتظار کرنے کے بعد فلم دیکھنے کا موقع ملتا تھا لیکن حیرانی ہوتی ہے کہ ان برسوں میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ اب تو سینکڑوں چینلز ہیں اور ہزاروں فلمیں۔ جب چاہیں دیکھ لیں۔ بعض دفعہ تو محسوس ہوتا ہے کہ اتنی فلموں کے میسر ہونے سے وہ سب تھرِل لائف سے نکل گیا ہے جو کبھی گائوں میں پورا ہفتہ محسوس ہوتا تھا کہ اس ویک اینڈ پر کون سی فلم دکھائی جائے گی۔
مجھے گائوں والے گھر پر دیکھی ایک فلم یاد تھی۔ اس کا نام تھا Red Sun حالانکہ کئی فلمیں دیکھیں لیکن نام صرف اسی کا یاد رہا اور اسے کبھی نہ بھلا سکا۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ ایک گھڑ سوار پہاڑوں میں نکل جاتا ہے۔ وہ گھڑ سوار اور پہاڑوں کے درمیان اس کا سفر میری یادوں میں کہیں چپک کر رہ گیا۔ کچھ عرصہ ہوا میں نے وہ فلم یوٹیوب پرتلاش کرنا شروع کی۔ اس نام سے کئی فلمیں بنی تھیں۔ خیر کئی دنوں کی محنت کے بعد وہ فلم مل گئی۔ اسے بڑی چاہت سے ٹی وی پر لگایا۔ جتنی دیر وہ فلم چلتی رہی مجھے لگا میں برسوں پہلے کے اپنے گائوں کے گھر میں ہوں۔ سب کزنز رات کو گہری نیند سو رہے ہیںصرف میں اور عطا محمد جاگ کر انتظار کررہے ہیں کہ رات کے دس‘ گیارہ بجیں اور فلم شروع ہو۔ایک بات اچھی تھی کہ سب اتنی گہری نیند سوتے کہ کسی کو ٹی وی کی آواز سنائی نہ دیتی۔ اگرچہ گائوں کی رات کی گہری خاموشی میں ٹی وی کی آواز دور تک سنی جاتی‘ چاہے ہم آواز کتنی ہی کم کیوں نہ رکھتے۔شاید ٹی وی کی آواز ان سب گھر والوں کے لیے میوزک کا کام دیتی اور وہ اتنے عادی ہوچکے تھے کہ اس آوازپر ہی انہیں نیند آتی تھی۔ بڑے عرصے بعد پتہ چلاکہ اگر آپ کو رات کو سونے کا مسئلہ ہے تو آپ یوٹیوب پر جا کر کئی قسم کے میوزک لگا کر سو سکتے ہیں جس سے آپ کو جلدی نیند آجاتی ہے۔ اس میں برستی بارش‘ پانی کے قطرے۔ دریا یا چشمے کا بہتا پانی جیسی سافٹ آوازیں موجود ہیں جو آپ کے ذہن کو ریلکس کر کے سلا دیتی ہیں۔ شاید اس دور میں ٹی وی کی آواز بھی ہمارے گائوں میں ایک سافٹ میوزک کا کام دے رہی تھی۔
خیر اس نئے سیزن‘ 1923 کے ایک سین میں اداکار ہیرسن فورڈ ڈنر ٹیبل پرایک طویل ڈائیلاگ بولتا ہے جس نے میری ایسی کونسلنگ کی کہ میں اگر پوری کتاب بھی پڑھتا تو بھی وہ بات نہ سمجھا پاتا جو اس پلے کے رائٹر ٹیلر شیرڈن نے سمجھا دی۔ہیرسن فورڈ کا بھتیجا اخبار پڑھ رہا ہوتا ہے تو وہ چونک کر اونچی آواز میں پڑھتا ہے کہ مائننگ انڈسٹری کے ایک اہم بندے کو سرکاری مائننگ ادارے کا چیف ایگزیکٹو لگا دیا گیا ہے۔ وہ نوجوان حیران ہوتا ہے کہ جس ادارے اور اتھارٹی نے ان مائننگ کے بڑے بڑے سیٹھوں کو ریگولیٹ کرنا ہے‘ ان کے کام پر نظر رکھنی ہے کہ وہ غلط کام نہ کریں یا وہ عوام اور ریاست کو لوٹ نہ سکیں‘ حکومت نے انہیں مائنرز میں سے ایک کو اٹھا کر اس ادارے کا سربراہ لگا دیا ۔وہ کریکٹر حیران ہو کر پوچھتا ہے کہ یہ کیاہورہا ہے‘ کیا بکواس ہے‘ یہ سب کیسے ہوسکتا ہے؟اس پرہیرسن فورڈ نے بڑی سنجیدگی سے اپنے اس بھتیجے کو ایک پتے کی بات سمجھائی۔ برخوردار سائنسدانوں نے ایک جدید ریسرچ کی ہے جو دنیا بھر کے ان ملکوں میں کی گئی جہاں ٹرائبل سسٹم اب بھی چلتا ہے۔ اپنی اس سٹڈی سے وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جو قبائل چھوٹے ہیں یا جن کی آبادی زیادہ نہیں ہے وہ بڑے سکون اور آرام سے رہتے ہیں۔ وہاں کوئی حکومت بھی نہیں ہے۔وہاں کوئی کسی کا حکمران نہیں ہے۔وہ سب ایک بڑے خاندان کی طرح رہتے ہیں۔ لیکن جونہی وہاں کی آبادی پانچ سو سے زیادہ ہونے لگے اور وہاں کوئی مضبوط حکومت نہ ہو تو انہیں بہت مسائل پیش آنے لگتے ہیں۔ پھر ان میں جو لوگ طاقتور ہوتے ہیں وہ دیگر لوگوں کے وسائل اور زندگیوں پر قبضہ کر لیں گے۔ وہ ان کے وسائل کی چوریاں کریں گے‘ ڈاکے ماریں گے۔ وہ بڑی آسانی سے عورتوں کو ریپ کریں گے۔ دوسروں کے وسائل اور محنت پر خود کو ارب پتی بنا لیں گے۔حکومت کا تصور دراصل لوگوں کو کنٹرول کرنا ہے لیکن پھر بھی بہت سے ایسے لوگ کنٹرول نہیں ہوتے۔ ہم انسان ایسے ہی ہیں۔ کچھ عرصہ بعد یہی طاقتور لوگ جو دوسروں کے وسائل اور زندگیوں پر قبضہ کر کے امیر بن جاتے ہیں‘ پینترا بدل کر دوسروں کو کنٹرول اور خود کو امیر کرنے کا کام حکومت کے ذریعے کرتے ہیں۔اب وہ قانون اور حکومت کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں۔میری بات یاد رکھنا یہی لوگ ایک دن قانون بنوائیں گے کہ ہم نے کیا کہنا ہے اور کیا سوچنا ہے۔ ایک دن یہی لوگ مل کر ایسا قانون بنائیں گے جس میں ہمیں ان سے اختلاف کرنے کا حق نہیں ہوگا۔ اپنی سوچ رکھنے کے حق کو غیرقانونی قرار دیا جائے گا۔ یہ لوگ سب کچھ حکومت کے زور پر کرائیں گے‘ اگر ہم نے انہیں یہ سب کرنے دیا۔ہیرسن فورڈ کا بھتیجا کہتا ہے: آپ نے بھی تو یہی کچھ کیا ہے کہ آپ کیٹل فارم چلاتے ہیں۔ رینچ ہے آپ کے پاس اور آپ اس کمیشن کے سربراہ بنے ہوئے ہیں جو یہ سب معاملات دیکھتا ہے۔آپ بھی اپنے مفادات حکومت اور قانون کے نام پر پورے کررہے ہیں اور وہ مائننگ والا سیٹھ بھی اب ریگولیٹری ادارے کا سربراہ بن کر اپنے کاروبار کا تحفظ کررہا ہے۔
میں یہ ڈسکشن سن کر حیران ہورہا ہوں کہ یہ سب گفتگو 1920ء کی دہائی میں امریکہ میں ہورہی تھی کہ وہاں آج سے سو سال قبل کے طاقتور لوگ اس طرح حکومت کی طاقت استعمال کر کے اپنے مفادات کا تحفظ کر کے ارب پتی بن رہے تھے جیسے آج کل پاکستان میں چند کاروباری خاندان سیاست اور پارلیمنٹ پر قبضہ کرکے ارب پتی بن بیٹھے ہیں۔ مافیاز حکومت چلاتے ہیں‘ یہ حکمرانوں کو کنٹرول کرتے ہیں‘ خود ہی جج اور جیوری بنے ہوئے ہیں۔ جو کچھ سو سال پہلے‘ 1923ء میں امریکہ میں ہورہا تھا‘ وہی آج 2023ء میں پاکستان میں ہمارا ارب پتی سیٹھ کررہا ہے۔صرف وقت بدلتا ہے‘ انسانی نفسیات اور جبلت نہیں بدلتی۔

یہ بھی پڑھیے:

ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا

رؤف کلاسرا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author