نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

راجن پور کی خبریں

راجن پور سے نامہ نگاروں اور نمائندگان کے مراسلوں پر مبنی خبریں،تبصرے اور تجزیے۔

متبادل وسائل ترقی کے ضامن

تحریر: ملک خلیل الرحمٰن واسنی حاجی پورشریف

مملکت خدادا پاکستان، اسلامی جمہوریہ پاکستان کو قائم ہوئے 75سال سے زائد گزرنے کو ہیں مگر ہم بدقسمتی سے وہی دقیانوسی خیالات اور دور جدید کی جدید ترین ٹیکنالوجی سے محروم اور وسائل کے غلط تقسیم کے سبب آج بھی بنیادی ترقی سے کوسوں دور

جہاں دیگر ممالک جو ہم سے بعد میں قیام پذیر ہوئے وہاں جدید ترین ترقی اور ٹیکنالوجی کے سبب اور متبادل وسائل کے استعمال سے ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں شامل ہورہے ہیں اور ہم بدقسمت زرعی ملک ہونے کے باوجود آٹے دودھ کی لائنوں میں

لگ کر پیسے دینے کے باوجود ذلیل و خوار دکھائی دیتے ہیں اور ہمارے اعلی ایوان جہاں بظاہر ہماری بہتری کے لیئے قانون سازیاں اور پالیسیاں مرتب ہوتی ہیں ہم ان سے ایک فیصد بھی کما حقہ فائدہ نہ اٹھا سکے حالانکہ 70فیصد آبادی زراعت اور اس سے

منسلک شعبہ جات سے وابستہ ہے مگر اس کے باوجود زرعی اجناس ،سبزیوں،پھلوں، دودھ دہی کے حصول کے لیئے پریشان اور من مانی قیمتوں کے باوجود حصول مشکل جبکہ اسکے برعکس حکومتی درجنوں ادارے ترقی و فلاح و بہبود کے نام پر

ہر سال کروڑوں، اربوں روپے تنخواہوں اور اخراجات کی مد میں فائلوں اور کاغذی کاروائیوں اور کارگزاریوں میں تو خرچ کردیتے ہیں مگر جن کے لیئے یہ سب کچھ ہو رہا ہوتا ہے وہ اس سے محروم رہ جاتے ہیں

جس کی تازہ ترین مثال پنجاب کا آخری پسماندہ ترین ضلع،ضلع راجن پور جہاں کی 70فیصد سے زائد آبادی محکمہ زراعت سے وابستہ ہے

جہاں زیر زمین پانی انتہائی کڑوا اور مضر صحت ہے جہاں نہروں میں پانی دو دو ہفتوں تک سینکڑوں کسانوں،کاشتکاروں،زمینداروں کے احتجاج،دھرنوں اور انہار کے دفاتر کے گھیراؤ کے بعد میسر آتا ہے

جہاں قیمتی وقت اور توانائیاں ضائع کردی جاتی ہیں اگر وہی پر متبادل وسائل کے استعمال پر توجہ دی جائے تو اسی طرح ملک بھر میں صورتحال سے نبرد آزما ہونے سے اجتماعی ترقی اور بہتری لائی جاسکتی ہے

قدرت نے ملک پاکستان کے اس عظیم خطے کو تمام تر وسائل سے قدرتی طور پر مالا مال فرمایا ہے ہم زمین اور پانی کے تجزیاتی نمونے سے زیر زمین بورنگ کے زریعے سولر انرجی کی جدید ٹیکنالوجی سے مستفید ہوکر ایک مرتبہ کی قلیل سرمایہ کاری کے

بعد مفت میں پانی کا حصول ممکن بنا سکتے ہیں اور مختلف سماجی،فلاحی،رفاہی اداروں اور این جی اوز اور حکومتی اشتراک سے زیر زمین واٹر اسٹوریج ٹینک بناکر پانی کی کمی دور کرسکتے ہیں

اور نہروں پر پن بجلی کے چھوٹے چھوٹے منصوبے اور پراجیکٹس لانچ کرکے سستی ترین اور ماحول دوست بجلی پیدا کرسکتے ہیں وہیں اپنی فصلات کو خشک سالی اور انسانوں و جانداروں کو پانی کی کمی کے خطرے سے محفوظ رکھ سکتے ہیں

،اور ایک ہی سیزن میں مختلف زرعی اجناس کی فصلیں کاشت کرکے ملک و قوم کی معاشی ترقی ،زرعی اجناس ،سبزیوں اور پھلوں کی کمی کو دور کرسکتے ہیں اور کنڑول ریٹ پر وافر مقدار میں ملک کے طول وعرض میں فراہمی ممکن بناسکتے ہیں،سینکڑوں کلومیٹر پر محیط اپنی بڑی بڑی نہروں،برانچز،ڈسٹریوں،ندی ، نالوں کے اطراف انکے پشتوں کی مضبوطی کیساتھ ساتھ ان کے کناروں پر پھل دار درخت اگا کر

جہاں ماحول کی خوبصورتی میں بے انتہا اضافہ ہوسکتا ہے وہیں وافر مقدار میں اور سستے ترین پھل بھی مہیاء کرسکتے ہیں جس سے زرائع آمدن میں اضافہ ، غذائی قلت اور گرتی معاشی صورتحال میں بھی بہتری لائی جاسکتی ہے ،اسی طرح ایندھن کے کمی کے باعث اپنے درختوں اور جنگلات کا خاتمہ کیئے جارہے ہیں

اگر دیہاتی علاقوں میں گوبر گیس پلانٹ کی ٹیکنالوجی متعارف کرائی جائے اور سستے پلانٹ کی تنصیب کو ممکن بنایا جائے تو ایندھن کیساتھ بجلی اور سستی و قدرتی کھاد کا حصول بھی ممکن ہوسکتا ہے

چھوٹی چھوٹی حلقہ بندیاں کرکے دور جدید کی جدید ترین سہولیات گھر کی دہلیز پر میسر کرکے ہم ایک بہترین اور معاشی طور پر مستحکم

،محب وطن اور جفاکش قوم بننے اور بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ووٹ کی پرچی سے تھانے کے پرچے تک

تحریر: ملک خلیل الرحمن واسنی حاجی پورشریف

ضمنی الیکشن این اے 193کا سیاسی معرکہ اپنے عروج پر ہے اور 26فروری 2023 بروز اتوار پولنگ کا دن ہے درجن بھر کے قریب امیدوار ہیں

اور لاکھوں کی تعداد میں ووٹر ہیں اور 25سے 30فیصد پولنگ متوقع ہے کیونکہ لوگ مہنگائی و غربت کے سبب شدید بدحالی ،مشکلات و ذہنی کرب و تکلیف میں مبتلا ہیں،جبکہ اس انتخابی عمل میں جماعت اسلامی کیطرف سے

بائیکاٹ اور ملک کی نامور تینوں سیاسی پارٹیوں اور دیگر مذہبی جماعتوں کے اور آزاد امیدوار قابل ذکر ہیں اور لوگوں کے ذہن میں ہے کہ یا تو پی ٹی آئی جیتی گے یا ن لیگ ہارے گی

لیکن عوام کو اس خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیئے چاہے ن لیگ جیتے یا پی ٹی آئی ہارے بہر حال جیت صرف لغاری خاندان کی ہوگی کیونکہ یہاں سیاسی پارٹی کو کبھی اہمیت نہیں دی گئی بلکہ ہر دور میں شخصیت پرستی کو عروج بخشا گیا

اور یہاں کے صرف چند خاندان ہی ہر پارٹی کا ہر دور میں حصہ رہ کر منتخب ہوتے رہے ہاں البتہ سابق پی پی 247کی سیٹ پرکامیاب اسوقت کے الیکشن میں جام پور شہر سے

شاید سابق وزیراعلی پنجاب اور موجودہ وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف بھی ہار گئے تھے لیکن ضلع راجن پور کی بدقسمتی کہیں یا یہاں کے سیاسی دائو پیچ تھانے کی سیاست ہر دور میں یہاں کےالیکٹ ایبلز سیاسی عوامی نمائندوں کا طرہ امتیاز رہا ہے اور اسی کے بل بوتے پر وہ ہر الیکشن جیتتے رہے ہیں

اور بنیادی روزمرہ زندگی کے بنیادی سہولیات کی فراہمی کی بجائے من پسند ڈی سی، ڈی پی او، اسسٹنٹ کمشنرز،پولیٹیکل اسسٹنٹ،ڈی ایس پیز اور تھانوں ،پولیس چوکیوں کے انچارجز کی تعیناتی تبادلے ترجیحات رہے ہیں

جس کی واضح مثال گزشتہ 2022کے عین سیلاب اور آفت کے وقت انتظامی اکھاڑ پچھاڑ سامنے ہے اب بھی کئی نامور لوگوں کو ایف آئی آرز کا نشانہ بنایا گیا سیاسی تبادلے کروائے اور رکوائے گئے

اور پھر وہی نالی سولنگ کے جھوٹے وعدے دعوے لارے جھانسے اور شرافت کی سیاست شاید کھڈے لائن اس میں لغاری خاندان کے امیدوار جو برسوں سے باپ دادا کے دور سے ہر اقتدار بااختیار حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود اپنی آبائی گھر میں

بنیادی روزمرہ زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی میں آج تک ناکام رہے ؟کیا وہ اب جام پور کی تقدیر بدل پائیں گے ؟ جو صدر مملکت، وفاقی و صوبائی وزیر مشیر،نامعلوم کتنے بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے ہر بار قومی و صوبائی اسمبلی و رکن سینیٹ رہے جام پور کو ضلع تک نہ بنوا سکے؟ صوبائی وزیر آبپاشی، صوبائی وزیر خزانہ رہنے کے

باوجود صرف داجل کینال تک سالانہ نہ کراسکے؟ ہر سال آنیوالی سیلابی آفت و قیامت سے محفوظ رکھنے کے لیئے مرنج /مڑنج ڈیم کی تعمیر تک نہ کراسکے اور نہ ہی ان اعلی ایوانوں میں اس حوالے سے کوئی مثبت اور قابل تعریف کردار ادا کرسکے

جو کہ قابل ذکر ہو ، حالانکہ مخصوص نشت پر محترمہ شازیہ عابد ایڈووکیٹ ممبر پنجاب اسمبلی خاتون ہونے کے باوجود پنجاب اسمبلی کے ہر سیشن میں ضلع راجن پور تحصیل جام پور کی محرومیوں اور استحصال کی آواز بلند کرتی رہیں

اور بارہا اس دختر جام پور کو پنجاب اسمبلی کے ایوان میں آبدیدہ ہوتے دیکھا جو ان مردوں سے کہیں بہتر ثابت قدم دیکھائی دیں اور ہر فورم پر ہر سیشن میں اپنے علاقے اور عوام کے حقوق کے لیئے آواز بلند کرنا اپنا فرض سمجھا اسی طرح ایک اور امیدوار بھی اس میدان میں شامل ہیں انکا تعلق بھی ملک کی بہت بڑی سیاسی پارٹی سے ہے

سابق بیوروکریٹ پہلی مرتبہ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں اس میدان میں عملی طور پر داخل ہوئے ہیں انکو بھی ہر فورم پر اور ہر دور میں ضلع بھر کی اجتماعی ترقی اور اجتماعی فلاح و بہبود کے لیئے ہر وقت تیار اور مستعد دیکھا گیا

لیکن کیونکہ وہ شرافت کی سیاست کا استعارہ ہیں اور انتقامی سیاست کو اہمیت نہیں دیتے تھانہ کچہری کی سیاست سے دور ہیں اور 2022کی سیلابی آفت میں حکومتی مشینری کو علاقے کی عوام کی خدمت کے لیئے حتی الوسع اور حتی المقدور متوجہ کرتے

اور ریلیف فراہمی میں صف اول میں دیکھائی دیئے چاہے جام پور ضلع کی بات ہو یا یہاں کی اجتماعی تعمیرو ترقی فلاح و بہبود ، یونیورسٹی کا قیام ، روزگار کی فراہمی،خواتین پر علاقائی و سماجی ظلم و ستم ، سماجی و معاشرتی مظالم جرائم و برائیوں کے

خاتمے کے لیئے انکا کردار قابل رشک رہا ہے اگر یہاں کی عوام نے اس مرتبہ اپنے حق کے حصول اور ضمیر و دل کی آواز پر لبیک کہا

تو سردار اختر حسن گورچانی کی جیت یقینی ہے کیونکہ جام پور کے ہر ترقی پسند انسان کی ہر دور میں خواہش رہی ہے کہ یہاں کی قومی و صوبائی اسمبلیوں کی سیٹ پر مقامی نمائندہ ہی الیکشن میں کھڑا ہو

، تو اس خواہش کی تکمیل میں سردار اختر حسن گورچانی اس معیار پر پورے اترتے ہیں اور ویسے بھی ضلع بھر میں سکولوں کی اپ گریڈیشن ہو یا گرلز سکولز کا قیام ہو ،صحت کا شعبہ ہو یا لاء اینڈ آرڈر کی بہتری ہو،روزگار کی فراہمی کے وسائل ہو

،اجتماعی ترقی فلاح و بہبود ہو کسانوں کے مسائل ہو یا مرنج /مڑنج ڈیم کی تعمیر اس کے لیئے متعلقہ حکام سے گذارشات ہوں اس حوالے سے انکی خدمات لائق تحسین ہیں اور اگر یہ وجود قومی اسمبلی کے فورم پر منتخب ہوگیا

تو مزید شاید یہاں کی محرومیوں اور استحصال کے خاتمے میں بہتر طور پر قولی و فعلی کردار سے شاید ضلع راجن پور کی قسمت بدلنے میں وہ کردار ادا کرسکیں جو ان 75سالوں میں یہاں کے ممبران صوبائی و قومی اسمبلی اور رکن سینٹ نہ کر سکے

، اب یہ بھاری ذمہ داری یہاں کے حلقہ این اے 193 کے ووٹروں پر ہے کہ وہ اب اپنے ووٹ کی قیمتی اور مقدس امانت کو دیانت کے طور پر استعمال کریں گے اور غلامانہ ذہنیت ، غلامانہ سوچ کو مزید پروان چڑھانے کے لیئے ایک مرتبہ پھر اپنے

غلام ہونے کا ایک مرتبہ پھر ثبوت دیں گے۔ یا غلامانہ سوچ اور غلامانہ ذہنیت کو مات دیتے ہوئے اپنے حقوق کے بہتر تحفظ اور حصول کے لیئے اپنے ضمیر کے

مطابق فیصلہ کرتے ہوئے بیلٹ پر مہر لگاتے وقت جہاں وہ اپنی مرضی سے
مہر لگانے پر آزاد و خود مختیار ہونگے اور نہ کوئی

گودا،خان،سردار،وڈیرہ،جاگیردار،سرمایہ دار انہیں نہ تو اسوقت دیکھ رہا ہوگا نہ ڈرا دھمکا سکے گا۔

بہر حال فیصلہ اب یہاں کی عوام کا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ ٹیکنالوجی کی اس ترقی یافتہ دور میں بھی جیت تھانے کے پرچے کی سیاست کی ہوگی

یا ووٹ کی پرچی کی طاقت کی؟ جس کی اہمیت و طاقت کا شاید ابھی تک ہمیں اندازہ نہیں ہے ؟ کہ ووٹ لینے کے ووٹ یہی خان سردار گودے ہماری کس طرح منتیں

،سماجتیں،اور مرعوب کرتے ہیں؟ اور ہمارے ووٹ کی پرچی کی طاقت سے اعلی ایوانوں کے ممبر منتخب ہو کر یہاں کا برسوں تک رخ تک بھی نہیں کرتے؟

About The Author