اپریل 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

زچگی کی دوسری سٹیج۔ دھوکا ہوا!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

پھر سنو، ہاتھ ڈال کر تو کھینچا نہیں جا سکتا سو اس مقصد کے لیے اوزار استعمال کیے جاتے ہیں لیکن ان کا استعمال بھی تجربہ کار ہاتھوں میں ہی ہو سکتا ہے ورنہ ڈاکٹر کی نا تجربہ کاری زچہ کو موت کی طرف دھکیل دیتی ہے۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وارڈ راؤنڈ جاری تھا۔ ایک وارڈ سے دوسرے وارڈ میں جونہی داخل ہوئے، فائنل ائر کی طالبہ بھاگی آئی۔ چہرے پہ بوکھلاہٹ نمایاں۔
میم، بیڈ نمبر پانچ کی مریضہ بہت ناراض ہے، برا بھلا کہہ رہی ہے سب ڈاکٹروں کو۔
کیوں؟ ہم نے پوچھا۔
کہہ رہی ہے اس سے دھوکا ہوا ہے، وہ اٹک اٹک کر بولی۔
ہائیں۔ کیا ہوا؟ ہم ہک دک رہ گئے۔

جی وہ کہہ رہی ہے کہ ڈاکٹروں نے دھوکا کیا اس کے ساتھ۔
کیا مطلب؟ ہم بھونچکا رہ گئے
جی، یہی کہہ رہی ہے بار بار۔
چلو تم ہسٹری لو اس سے تفصیلاً، راؤنڈ سے فارغ ہو کر اسی پہ کلاس ہو گی، ہم نے کہا۔

کلاس روم میں داخل ہوئے تو سب لڑکیاں لڑکے ہنس رہے تھے۔
ہمیں بھی بتاؤ کچھ؟
جی، ہم نے اس مریضہ کی کیس ہسٹری کا تھیم سوچا ہے، ایک شوخ و شنگ بولی۔
وہ کیا؟
زچہ اور ڈاکٹروں کا دھوکا۔
چلو سناؤ پھر، ہم بھی جانیں۔ ہم نے مسکرا کر کہا۔

مریضہ کا پہلا حمل، دوسرے مہینے سے ہسپتال آنا شروع کیا۔ ہر مہینے باقاعدگی سے چیک کروایا۔ کہیں کچھ بھی غلط نہیں تھا۔ ڈاکٹر تسلی دیتے رہے۔ نو ماہ گزرے۔ تاریخ کے قریب پہنچ کر درد زہ شروع ہوئے۔ وقت ضائع نہیں کیا، فوراً ہسپتال پہنچے۔ سب کو بہت تشویش تھی لیکن ڈاکٹر نے تسلی دی کہ سب ٹھیک ہے۔ درد برداشت کی آٹھ گھنٹے تک، آخر بچے دانی کا منہ پورا کھل گیا۔ پھر نرس نے بتایا کہ زور لگاؤ۔ ہر درد کے ساتھ پورا زور لگایا، ہلکان ہو گئی۔ تین گھنٹے گزر گئے۔ ڈاکٹر نے کہا کہ بچے کو اوزار لگا کر نکالنا پڑے گا۔ اوزار لگا کر کھینچا، ایک بار، دو بار۔ کچھ بھی نہیں ہوا اور آخرکار آپریشن تھیٹر لے جا کر سیزیرین کر دیا۔

نو مہینے نارمل ڈلیوری کا آسرا دیتی رہیں سب ڈاکٹرز۔ درد کے دوران سب اچھا کا گیت گاتی رہیں، کچھ نہیں بتایا۔ اتنی تکلیف دیکھی اور آخر میں پھر وہی کہ پیٹ کٹوایا اور بچہ نکلا۔

یہ دھوکا ہے سرا سر دھوکا۔ آخر ڈاکٹر کیوں نو ماہ تسلی دیتے رہتے ہیں کہ سب نارمل۔
مریضہ کی زبانی یہ حکایت سن کر ہمیں ہنسی آ گئی۔ ہم نے سوچا کہ چل کر مریضہ سے سٹوڈنٹس کے سامنے بات کرتے ہیں۔

گئے اور جا کر کسی ملزم کی طرح اس کے سامنے کھڑے ہو کر پوچھا، ہمیں بتاؤ گی کہ کیا ہوا؟
وہ تو بھری بیٹھی تھی پھر سے شروع ہو گئی۔ ہم نے اطمینان سے رام لیلا دوبارہ سے سنی، ساتھ میں سر ہلا کر ہاں ہاں بھی کرتے رہے۔

جب وہ سب کہہ چکی تو ہم نے پوچھا، کیا ہم تم سے کچھ سوال کر سکتے ہیں؟
کریں۔ اکھڑ لہجے میں جواب۔

فرض کرو کہ تمہیں کسی ایسے شہر جانا ہے جہاں پہلے تم کبھی نہیں گئیں، کیا سفر شروع کرنے سے پہلے تم جان سکتی ہو کہ راستے میں کیا کچھ ہو سکتا ہے؟
نہیں۔ لیکن میں راستے کی ساری معلومات لے کر سفر شروع کروں گی، وہ چمک کر بولی۔

بالکل ٹھیک۔ تم نے سفر شروع کر دیا، تم ٹھیک ٹھاک چلی جا رہی تھیں۔ سب کچھ ٹھیک تھا، لیکن یک دم تم نے دیکھا کہ سڑک پہ ایک بہت بڑا پتھر پڑا ہے اور تمہاری کار اسے ہٹائے بنا آگے نہیں جا سکتی، کیا کرو گی تم؟
پتھر کو ہٹانے کی کوئی ترکیب لگاؤں گی، مدد مانگوں گی۔

بالکل درست۔ فرض کرو پتھر ہٹ گیا، تم پھر سے چل پڑیں۔ سفر ختم ہونے سے پہلے شہر میں داخلے کا جو پل تھا، وہ ٹوٹا ہوا ملا۔ اب بتاؤ؟
کوئی متبادل راستہ۔ وہ سوچ کر بولی۔
کیا سفر کرنے سے پہلے تمہیں ان مشکلات کا علم تھا؟
نہیں۔ لیکن۔ ۔ ۔

جب مشکلات ہوئیں تو تمہیں دوسرا حل نکالنا پڑا۔ اگر نہ نکالتیں تو کیا ہوتا؟
ظاہر ہے سفر ختم نہیں ہوتا۔ آہستہ آواز ۔ ۔ ۔

تو میری بچی۔ یہی کچھ تو ہوتا ہے حمل کے سفر میں۔ کوئی ڈاکٹر پہلے سے یہ نہیں بتا سکتا کہ کیا مشکل پیش آئے گی؟ جب کوئی دشواری راستے کو مشکل بنا دے تو اس کا حل نکالا جاتا ہے تاکہ دونوں مسافروں کے لیے سفر بخیر ہو۔

حمل کے دوران جب سب کچھ ٹھیک چلتا رہے تو سب اچھا ہی ہوتا ہے۔ پہلے سے کسی مشکل کی نشان دہی نہیں کی جا سکتی جب تک نشانی نظر نہ آئے۔

درد زہ جب شروع ہوں تو کوئی ڈاکٹر نرس یا دائی نہیں بتا سکتی کہ اختتام نارمل پہ ہو گا کہ سیزیرین پہ یا اوزار۔ صورت حال پل پل بدلتی ہے جیسے جہاز اُڑنے کے بعد کریش ہو گا یا نہیں کوئی نہیں کہہ سکتا۔ راستے کا موسم خراب ہو گا کہ نہیں؟ پرواز کتنی بار ناہموار ہو گی؟ ہو گی بھی کہ نہیں؟ کیا پائلٹ پہلے سے پیش گوئی کر سکتا ہے؟

جب بچے دانی کا پورا منہ کھل جائے یعنی دس سینٹی میٹر تب زچگی کی دوسری سٹیج شروع ہوتی ہے جس میں بچہ ویجائنا میں سفر کرتے ہوئے دنیا میں وارد ہوتا ہے۔ اس سٹیج کا دورانیہ دو سے تین گھنٹے تک ہوتا ہے اور اسی میں زچہ کو زور لگانے کا کہا جاتا ہے۔

اب اگر صورت حال یہ ہو کہ زچہ پورا زور لگا رہی ہو، درد بھی اچھے ہوں اور زمیں جنبد نہ گل محمد جنبد کو پیروی کرتے ہوئے بچہ اپنی جگہ سے کھسکے ہی نہیں تو اس وقت سوال اٹھتا ہے اب کیا کیا جائے؟

تم بتاؤ، کیا کر سکتی ہے اس وقت ڈاکٹر؟ کیسے نکالے بچے کو حفاظت سے باہر؟
جی پتہ نہیں۔ وہ مری مری آواز میں بولی۔

پھر سنو، ہاتھ ڈال کر تو کھینچا نہیں جا سکتا سو اس مقصد کے لیے اوزار استعمال کیے جاتے ہیں لیکن ان کا استعمال بھی تجربہ کار ہاتھوں میں ہی ہو سکتا ہے ورنہ ڈاکٹر کی نا تجربہ کاری زچہ کو موت کی طرف دھکیل دیتی ہے۔

اب اگلا مرحلہ اس سے بھی مشکل کہ ڈاکٹر اوزار لگائے، نیچے کی طرف کھینچے اور بچہ پھر بھی پیدا نہ ہو۔ اب کیا کریں؟ کیسے نکالیں اسے باہر؟ یا چھوڑ دیں وہیں ویجائنا میں؟

نہیں ڈاکٹر وہ تو بہت اذیت ناک لمحات ہوتے ہیں۔ اس کی آنکھ نم ہو چکی تھی۔
سو زچہ اور بچہ کی بہتری اسی میں ہوتی ہے کہ سیزیرین کر کے دور سے آنے والے مسافر کو بحفاظت منزل تک پہنچایا جائے۔

وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
ڈاکٹر، بہت بہت شکریہ، مجھے معاف کر دیجیے۔ مجھے اتنی باتوں کا پتہ نہیں تھا۔

کوئی بات نہیں بیٹا۔ زیادہ تر لوگ نہیں جانتے۔ خود بھی نہیں پڑھتے اور ڈاکٹر بھی نہیں بتاتے۔ کیا کیا جائے؟ تالی دونوں ہاتھوں سے بج رہی ہے، ہم مسکرائے۔

ہمارے سٹوڈنٹس چاکلیٹس کھانے میں مصروف تھے جو مریضہ نے انہیں دی تھیں۔
ہم بھی چائے پینا چاہتے ہیں، اتنی لمبی تقریر کے بعد ۔ چلو چلو کیفے چلو۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: