یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان ایک بلوما کی زد میں ہے جس کے ’دخول‘ کا راستہ پاکستان کا باپ کھلا کرتا رہا ہے۔ یہ بلوما مغرب کی سرحد سے آتا رہتا ہے۔ اب تو بلوما نے اپنے مقامی کارندے بھی پیدا کر لیے ہیں، یہاں تک کہ خود ’باپ‘ کے لیے پریشانی کا باعث بن گئے۔
آسٹریلیا سے اوپر Trobriand جزائر واقع ہیں۔ مالینوفسکی 1916ء کے قریب وہاں گیا اور موت و حیات کے حوالے سے اُن کے مختلف تصورات کے متعلق بتایا۔ ان کا خیال ہے کہ عورتیں جب سمندر میں نہاتی ہیں تو ایک بھوت بلوما اُن کے اندر داخل ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ حاملہ ہوتی ہیں۔ وہ جنسی مباشرت کو بس بلوما کے دخول کا راستہ کھلنے کا ذریعہ ہی سمجھتے تھے۔ اس کا مقصد باپ کا کردار تسلیم نہ کرنا تھا، کیونکہ وہاں کا معاشرہ مدرسری تھا، یعنی حسب نسب ماں کی طرف سے چلتا۔
اِن جزیرہ باسیوں کا ایک عجیب اعتقاد تھا کہ مردوں کے ساتھ کھلے تعلقات رکھنے والی لڑکی میں بلوما زیادہ آسانی سے اور جلدی داخل ہو گا؛ چنانچہ حمل کے خلاف احتیاطی تدابیر کرنے میں لڑکیاں مردوں کے ساتھ تعلقات چھوڑنے کی بجائے اونچے مدوجذر کے دوران نہانے سے گریز کو ترجیح دیتی تھیں۔
وہ بلوما کی اصل وجہ سے ناآشنا تھے یا اپنے سماجی دستور میں کوئی گڑبڑ پیدا کرنے کی وجہ سے اُسے جاننا نہیں چاہتے تھے۔ ہم نے بھی اپنا بہت کچھ سمیٹ لیا ہے، مگر بلوما آنے کے خلاف کوئی تدبیر نہ کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ بلکہ ہم نے تو بلوما کو بلانے کے لیے گیت لکھے، شاعروں کے ذریعے اُسے مزید توانا بنایا، اُسے اپنی عقل بھینٹ کر کے ہمارے اندر ہی سمائے رہنے پر مائل کیا۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر