رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاسی موسم بوریت سے لبریز ہے ۔ وہی گھسی پٹی باتیں کہ معیشت پہلے والوں نے تباہ کی‘ ہم جمہوریت کو مضبوط کررہے ہیں‘ سب کچھ آئین اور قانون کے مطابق ہورہا ہے اور سیاسی مخالفین کے خلاف پرچے پہ پرچہ سیاسی استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ باتیں اب سننے کو جی نہیں چاہتا۔ مگر برقی اور ہوائی لہریں ہمارے کان تو کجا‘ سیسہ پلائی ہوئی دیواروں میں سے بھی گزر جاتی ہیں ۔ ترس آتا ہے کہ ہمارے حکمران گھرانوں نے جو تقریریں لکھنے اور فنِ خطابت کے افلاطون پال رکھے ہیں‘ ان کے پاس صرف یہی بوسیدہ فقرے رہ گئے ہیں ۔ ہم تو اخباروں اور رسالوں کو گزشتہ ساٹھ برسوں سے پڑھتے چلے آرہے ہیں ‘ا ور تقریریں جو ہم سیاسی جلسوں میں سنا کرتے تھے ‘ ازبر یاد ہیں ۔ سب اپنی اپنی بولی بول کر اُڑ گئے ۔ کچھ بھی تو سیاست کے اکھاڑے میں نہیں بدلا۔ صرف نامور سیاسی گھرانوں کے پہلوان ہی میدان میں اتارے جاتے ہیں ۔ پرانے اخبارات اور رسالوں کو کسی اور نوع کی تحقیق کے لیے کھنگالتے ہیں تو بالکل یہی فقرے جو عصرِ حاضر کے سیاسی جغادریوں نے رٹ رکھے ہیں ‘ پڑھنے کو ملتے ہیں ۔ گزشتہ گیارہ ماہ سے تو قطب شمالی کی جمی برف کا سماں ہے۔ کہتے ہیں کچھ کرلو‘ انتخابات نہ کرانے کاکوئی ارادہ ہے اور نہ ہی کرانے ہیں ۔ ہم نے تو آئین میں نوے دن کا پڑھ رکھا ہے ‘ اور ہماری سیاسی تاریخ بھی نوے دن کی بات کی گواہیوں سے بھری پڑی ہے ۔ لاہور کی عدالت عالیہ کا فیصلہ بھی آچکا لیکن حکمران ٹولے پر شفقت اور مہربانی کے ہاتھوں کی کرامت کا اثر کہ ٹس سے مس نہیں ہورہے ۔
ہم کھلے ‘ نرم اور گرم موسموں کے لوگ ہیں۔ یہاں کی سردیاں بھی گلابی قسم کی ہوتی ہیں ۔ جنوبی پنجاب کی سردیوں میں مجھے یاد نہیں کہ بچپن میں کوئی سوئیٹر نما چیز پہنی جاتی تھی ۔ چند ہفتے ایسے ضرور آتے تھے کہ گھر میں لکڑی سے آگ جلتی ۔گرم چائے کھلا‘ صاف موسم‘ کچھ ہلکے بادل‘ معتدل آب و ہوااور نسیمِ سحر کے جھونکے کس کو پسند نہیں۔ سیاسی موسموں میں ایسی بوریت ہم نے صرف آمریت یا پاکستان کی خاندانی جمہوریت میں دیکھی ہے۔ یہ قطب شمالی کی طویل‘ سیاہ اور خوفناک رات کی طرح ہمارے اوپر عشروں سے طاری ہے۔ ہم سب برفانی‘ طوفانی ہواؤں کی زد میں ہیں۔ یہاں بہار کا گزر کیسا؟ آئین ‘ قانون ‘ اچھی سیاسی روایات اگر کچھ باقی رہ گئی تھیں اور جمہوریت جسے ہم کچھ جانتے ‘ پہچانتے تھے ‘ منجمد ہوکر رہ گئی ہیں۔ قطب شمالی کی زندگی کے بارے میں اگر آپ نے کوئی دستاویزی فلم دیکھی ہو تو پتا چلے گا کہ ایسے سفاک ماحول میں صرف طاقتور ہی زندہ رہ سکتے ہیں۔ کمزور اس کی خوراک بنتے ہیں۔ کیا کریں کہ دل دکھتا ہے کہ ایسے حالات ہنستے بستے انسانوں‘ معاشروں کی ترجمانی نہیں کرتے ۔
قدرت کا نظام سمجھنا ہو تو دوطرح سے ممکن ہے ۔ ایک تاریخ کا وسیع مطالعہ کہ سلطنتیں‘ بادشاہتیں اور ملک کیسے بنتے اور بگڑتے رہے‘ اور ظالموں کا انجام کیا ہوا ۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ فطرت کے قریب رہ کر اس کی رعنائیوں ‘ بدلتے موسموں اور پھولوں اور پھلوں سے لدے درختوں اور عام جھاڑیوں سے لے کر سمندروں کے اندر کی مخلوق اور دریائوں کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو اس کی ترتیب ‘ توازن اور نظم وضبط اور رازِ زندگی کو سمجھ جائیں گے ۔ فطرت میں کوئی طوفان اٹھے اور توازن بگڑ جائے تو آہستہ آہستہ اپنی اصل صورت میں دوبارہ قائم ہو جاتے ہیں۔ موسم خزاں آتا ہے‘ پتے اپنی زندگی کا چکر مکمل کرکے رنگ بدلتے ہیں‘ درخت اپنا وزن ہلکا کرنے کے لیے ان کے ریشوں اور رگوں میں خوراک اور پانی کی رسائی بند کردیتا ہے ۔ تازگی اور توانائی کے لیے ضروری ہے کہ سردیوں میں بوجھ ہلکا کرکے اپنی جڑیں زمین کے اندر گہری لے جائے ‘ مختلف سمتوں میں پھیلائے ‘ اپنے اندر زیادہ طاقت پیدا کرکے موسم بہار میں نئے پتوں کو اپنی ٹہنیوں پر نئے پیراہن کی طرح زیبِ تن کرکے اپنے حسن و جمال کا مظاہرہ کرے ۔ تازگی کا یہ عمل جاری رہتا ہے ۔ فطرت کا یہی اصول ہے ۔ کہیں کہیں کوئی پتے خشک ہونے کے باوجود بھی لٹکے رہتے ہیں ۔ انہیں کیا معلوم کہ ابدیت توصرف فطرت کو ہی حاصل ہے ۔ پتوں کو آخر جھڑنا ہے۔ شاید ابھی وہ زمین میں جانے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔ مشاہدہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ درختوں کے نیچے پڑے ہوئے تہہ درتہہ پتے انہی کی خوراک بنتے ہیں۔ ماہرین تو اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کوئی کیمیاوی کھاد طاقت میں سڑے ہوئے پتوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
جو بات درخت‘ پتوں ‘ توازن اور تازگی کے حوالے سے آپ کے گوش گزار کی‘ اس پر غور وفکر درکار ہے۔اپنے ہاں کے سیاسی معاشروں اور دنیا کے دیگر ممالک کا تقابلی جائزہ لیں تو جس جمود کا ہم شکار ہیں ‘ اس کی وجوہات کھل کر سامنے آجائیں گی۔ آخر ایسے حالات سے طاقتور لوگ فیضیاب ہوتے ہیں تو قانون‘ آئین اور جمہوریت کے ساتھ یہ کھیل کھیلا جاتا ہے۔ ہم ہیں تو درویش‘ ایک طرف رہ کر نظارہ کرنے والے ‘ مگر بہت کچھ معلوم ہے۔ سب کردار وں کو جانتے ہیں ‘ کہ کس کو کہاں اور کس کام سے بٹھایا گیا ہے۔ اس سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ ویسے تو کون سی راز کی باتیں ہیں۔
ہم جو بھی جان سکے ‘ سمجھ سکے ‘ یا علوم سیاست کے دامن سے کشید کر سکے ‘ وہ صرف ایک ہی لفظ ہے: جمہوریت۔ دورِ جدید کا کوئی معاشرہ افکارِ نو ‘ جدت اور احیا کی بہارمیں اپنا مقدر نہیں بنا سکتا جب تک فطرت میں درختوں کی طرح تازگی کے عمل سے ہر معینہ مدت کے بعد نہیں گزرتا۔ ہماری جمہوریت وہ نہیں جسے ہم جانتے‘ پہچانتے ہیں۔ یہ اس کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ جہاں گھرانوں اور سیاسی جماعتوں میں تمیز مٹ جائے‘ ریاستی اداروں کی جی حضوری‘ اہم عہدوں پر بٹھا کر بادشاہت کی جائے اور پارلیمان چند ہاتھوں میں کھیل تماشا بن جائے تو یہ کون سی جمہوریت ہوئی۔ جمہوریت قائم ہوتی ہے تو نئے پتوں کی طرح نئے لوگ آجاتے ہیں۔ ہماری سوچوں پر پہرے داریاں نہ ہوتیں ‘ آزادیاں سب کو ملتیں اور قانون اور انصاف سب کے لیے برابر ہوتے۔ اس بے نور جمہوریت میں یہ کچھ ہوسکتا ہے جو ہورہا ہے ۔ آئین میں سے روح تو کب کی پرواز کرچکی۔ ایسے حالات کہ ملک تباہی کے دہانے پر ہے جبکہ حکمرانوں کے پاس حکومت کرنے کا جواز مطلق نہیں ‘ مگر دھونس اور دھاندلی میں یہ آمروں کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ کپتان نے عشروں کا جمود توڑ دیا تھا۔ نئے لوگ ‘ زیادہ نہیں تو بھی معقول تعداد میں سامنے آگئے تھے۔ نئے شعور کی شمعیں روشن ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ مستقبل کے امکانات کے بند دروازے کھلنے لگے تھے۔ ایک طویل ‘ تاریک سیاسی رات کے ٹمٹماتے دیے کی لَو آخری سانسوں پر تھی ‘لیکن امید ِبہار پر یقین بڑھنے لگا تھا۔پاکستان کی تاریخ میں نئی قیادت عوامی جذبے سے ابھر کر آئی تھی۔ خطرہ سب کو تھا۔ ان کو بھی جنہوں نے سایوں میں رہ کر کٹھ پتلی تماشا لگانے میں مہارت حاصل کررکھی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ وہ میدان سے بھاگا نہیں۔ اس نے بہت کر کے دکھا دیا۔ اب تو فیصلہ ہو کر رہے گا۔ سیاہ رات مسلط رہے گی یا نورِسحر سے یہ سرزمین منور ہوگی۔ اس موسم بہار میں بہار سے امید رکھنا فطری بات ہے ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر