یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاضل اصوات کو اردو میں سے تو کیا پنجابی اور دیگر زبانوں میں سے بھی نہیں نکالا جا سکتا۔ یہ شاید رومن حروفِ تہجی اختیار کرنے پر بھی ممکن نہ ہو، کیونکہ قاتل کو کاتل لکھ بھی دیا تو کتیل اور مکتل کا مفہوم کند ہو جائے گا۔ اب تو مشرقی پنجاب والوں نے بھی ک اور ق میں فرق کرنا شروع کر دیا ہے۔
آپ یہ دیکھیں کہ گیت نگار اور گلوکار نے پوری الف بے کو کس خوب صورتی سے نبھایا ہے، حتیٰ کہ لفظ ’ژ‘ بھی نہیں چھوڑا۔
ایسے اسباق کی وجہ سے ہی پاکستان میں شرحِ خواندگی مصنوعی طور پر زیادہ دکھائی جاتی ہے۔ اصل شرح شاید کہیں کم ہے۔ اور اگر کتاب نہ پڑھنے والوں کو بھی ناخواندہ شمار کیا جائے شرح کہیں گھٹ جائے گی۔ کیونکہ بقول مارک ٹوین: کتاب نہ پڑھنے والے کو کتاب نہ پڑھ سکنے والے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر