حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران خان کی مبینہ امریکی سازش امریکی وزارت خارجہ کے ایک افسر سے ہوتی ہوئی دبئی میں حسین حقانی کی ملاقات اور کچھ رقم کی ادائیگی پر رکی رہی پھر پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی تک پہنچی مگر فرارِ جاں ابھی دستیاب نہیں۔
اب فرمایا ہے کہ سازش ’’امپورٹ نہیں بلکہ ایکسپورٹ‘‘ ہوئی ہے۔ جنرل باجوہ مجھے یہ تاثر دیتے رہے کہ امریکہ میرا مخالف ہے۔ مجھے ہٹانے کا ’’نسخہ‘‘ معاف کیجئے گا منصوبہ یہاں سے امریکہ گیا۔ جیل بھرو تحریک کے بارے میں کہا ہے کہ انتظار کرو 90روز کے بعد نگران حکومتیں غیرآئینی ہوجائیں گی پھر جیل بھرو تحریک کا اعلان کروں گا۔
گزشتہ روز کے ویڈیو لنک خطاب اور غیرملکی صحافی کو دیئے گئے انٹرویو میں انہوں نے بہت کچھ کہا۔ اس بہت کچھ میں سے زیادہ کچھ وہی ہے جو روز کہتے ہیں۔ یہ بھی کہا کہ ہمارے پاس سب سے زیادہ قوت ہے ہم چاہیں تو سڑکوں پر نکل آئیں توڑپھوڑ کریں، انتشار پھیلائیں ہم کرسکتے ہیں لیکن یہ ملک برداشت نہیں کرپائے گا اس لئے اس راستے پر چلنے سے گریز کررہے ہیں۔
فقیر راحموں کے بقول ’’خان صاحب اس ملک کے ساتھ جو کچھ کرسکتے تھے اس سے زیادہ ان کے بس میں نہیں‘‘۔
عمران خان نے ایک بار پھر کہا کہ میری حکومت میں جنرل باجوہ سپر کنگ بنا ہوا تھا غلط فیصلوں کا بوجھ مجھ پر ڈال دیا جاتا تھا۔
کیا اچھا نہ ہوتا کہ وہ اس وقت نواز شریف کے جیل کے کمرے سے اے سی اتارنے اور خاقان عباسی کو جیل میں ڈالنے کے ساتھ زرداری میری بندوق کی نشست پر ہے والی بڑھکیں مارنے کا شوق پورا کرنے کی بجائے مستعفی ہوکر عوام میں چلے جاتے اس طور انہیں آج یہ کہنے کی ضرورت پیش نہ آتی کہ ’’جنرل باجوہ سپر کنگ اور میں پنجنگ بیگ تھا‘‘۔
باجوہ جمہوریت پسند جنرل ہے۔ یہ اس لئے اس کے مخالف ہیں کہ وہ میری پالیسیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ فوج اور میری حکومت ایک پیج پر ہیں۔ مخالف گھبرائے ہوئے ہیں کہ اگر یہ ایک پیج پر رہے تو ان کی واپسی کا راستہ ہمیشہ کے لئے بند ہوجائے گا۔ یہ اور اس جیسے سینکڑوں بیان، درجنوں تقریریں اور انٹرویو ریکارڈ پر ہیں۔
اسی طرح یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ انہوں نے غیرملکی ٹی وی چینل پر بیٹھ کر کہا کہ القاعدہ اور بعض دوسرے گروپوں کو ہمارے یہاں تربیت دی گئی۔ اس سے قبل وہ کہا کرتے تھے جرنیلوں کو ایسا کاٹھ کا الو پسند ہے (کاٹھ کا الو میں لکھ رہا ہوں انہوں نے کچھ اور کہا تھا) جس کی ڈوریاں وہ ہلاتے رہیں مگر میں ایسا آدمی نہیں ہوں لیکن ’’باجوہ سپر کنگ اور میں پنجنگ بیگ‘‘ تھا۔ اس کا آسان ترجمہ وہ خود ہی کردیتے تو اچھا تھا۔ ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔
خان صاحب اپنی خوشی کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ بننے پر آمادہ ہوئے اسی اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر انہوں نے 126دن کا دھرنا دیا تھا اسٹیبلشمنٹ کے اندر امریکہ اور چین نواز دھڑوں کی کشمکش میں انہوں نے دھرنے کی صورت میں اپنا وزن امریکی کیمپ کے پلڑے میں ڈالا یہی گزرے کل کی حقیقت ہے۔
اب دس ماہ سے وہ مبینہ امریکی سازش کے بیانیہ کا چنا چور گرم بیچ رہے تھے۔ یکایک کل فرمانے لگے سازش امپورٹ نہیں ایکسپورٹ ہوئی ہے۔ ان کے محبین اس پر بھی داد کے ڈونگرے برساتے ہوئے کہہ رہے ہیں دیکھا ’’کہتے تھے خان کو سیاست نہیں آتی کیسے دیوار سے لگایا سب کو‘‘۔
اپنے ہی بیانات سے پلٹ جانا یا انہیں روندتے رہنا اگر یہی سیاست ہے تو لگے رہیں منا بھائی۔ ایک دن یقیناً وہ تسلیم کریں گے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے لانچنگ پیڈ سے چلایا گیا میزائل تھے۔ سچ ویسے یہی ہے وہ آج نہیں تو کل مان ہی لیں گے۔
تجربوں کی شوقین اسٹیبلشمنٹ کا ہر تجربہ الٹ کر اس کے گلے ہی پڑا یہی اس ملک کی تاریخ ہے۔ جو اسٹیبلشمنٹ اپنے محفوظ اثاثوں کے ہاتھوں اسی ہزار کے قریب ہم وطن مرواکر بھی سبق سیکھنے پر امادہ نہ ہو اس کے لئے کیا کہا اور لکھا جائے۔
انہوں نے کل سوال کیا ایجنسیوں کو کیوں معلوم نہیں ہوا کہ دہشت گرد منظم ہورہے ہیں؟ اس کا سادہ جواب خود ان کے دو ہفتے قبل کے ایک خطاب اور انٹرویو میں ہے جس میں وہ کہتے دیکھائی دیئے ’’ہم نے افغانستان میں موجود جنگجوئوں کی باعزت آبادکاری کا منصوبہ بنالیا تھا پھر پتہ نہیں کیا ہوا باجوہ پیچھے ہٹ گئے‘‘۔
جنگجوئوں کی باعزت آبادکاری، یہ باعزت آبادکاری کیا ہوتی ہے ؟ جنہوں نے ہزاروں پیاروں کے جنازے اٹھائے ان کے پڑوس میں قاتلوں کو آباد کرنے سے وہ کیا حاصل کرنا چاہتے تھے؟
جنگجو ان کے سگے ہوں گے مقتولین کے ورثا کے لئے وہ قاتل ہی رہیں گے۔ انہیں اعتراف کرنا چاہیے کہ انہوں نے اور ان کی حکومت نے جنگجوئوں کی منظم ہونے میں معاونت کی اور کھل کر کی یہاں تک کہ اس منصوبے میں ان کے طفیلی صدر مملکت عارف علوی بھی شامل رہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس معاملے میں بھی انہوں نے اپنی عادت کے مطابق الٹی زقند بھری پہلے کہا میری حکومت جنگجوئوں کی باعزت آبادکاری کا پروگرام بناچکی تھی۔ دو دن بعد کہا ’’یہ منصوبہ مرے پاس باجوہ اور فیض لائے تھے‘‘۔
بہت احترام کے ساتھ ان کی خدمت میں عرض کیا جانا چاہیے کہ رجیم چینج کا اصل منصوبہ 2011ء میں بنا اور اس پر مرحلہ وار عمل ہوتا رہا بالآخر 2018ء میں یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچا اور وہ اس ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ کیسے بنے یہ سبھی جانتے ہیں اور خود وہ بھی۔
کیا خان صاحب اس بات کی تردید کرسکتے ہیں کہ جب انہیں بطور وزیراعظم ایک آڈیو ٹیپ سنائی گئی جس میں وہ کچھ شخصیات کو نام لے کر گالیاں دے رہے تھے تو ٹیپ سن کر انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا "یار اس باجوے کو بتادو گفتگو کا یہ انداز میری عادت ہے؟”
چلیں کسی دن بطور وزیراعظم ایوان وزیراعظم میں گزارے ان آخری چند گھنٹوں کی رام کہانی سے پردہ اٹھادیں جس کے دوران فواد چوہدری نے بھاگتے ہوئے ان کے کمرے کے باتھ روم میں پناہ لے لی تھی اور پھر باتھ روم کا دروازہ توڑ کر فواد چوہدری کو برآمد کیا گیا۔ فواد باتھ روم سے وزارت دفاع کے کس جوائنٹ سیکرٹری سے بات کررہے تھے؟
یقین مانیئے میں فواد کے ساتھ ہوئے حُسن سلوک اور خان صاحب کے چند الفاظ کے جواب میں اپنائے گئے ردعمل دونوں کو درست نہیں سمجھتا تب (یعنی ان دنوں بھی) ان سطور میں عرض کیا تھا کہ ’’یہ ریت پریت درست نہیں‘‘۔ لیکن آدمی اپنا ہی بویا ہوا کاٹتا ہے۔
میں نے تو 2018ء کے انتخابات سے قبل ہی صاف سیدھے لفظوں میں عرض کردیا تھا کہ جو لوگ ایک بے لگام لشکر سے ہر شخص کے کپڑے اتروارہے ہیں اور ہر شخص کو گالی دے دلا رہے ہیں ایک دن خود انہیں ایسے ہی حالات سے دوچار ہونا پڑے گا تب وہ بہت روئیں گے۔
یہ بہت عجیب بات ہے کہ جب تحریک انصاف کو یاد دلایا جائے کہ عمران خان کے دور میں ہونے والی کرپشن بھی ایک حقیقت ہے تو وہ کہتے ہیں نہیں ’’پہلے والے چور تھے خان ان کے اہل خانہ اور دوستوں پر صرف الزامات ہیں‘‘۔ الزامات پر ہی تو آپ نے سیاست کی اور خاک اڑائی اب یہ دوسروں کو بھی کرنے دیجئے۔ اس کے باوجود کہ عمران خان خود اعتراف کرچکے ہیں کہ ’’میں شریفوں اور زرداریوں کی کرپشن بارے نہیں جانتا تھا مجھے تو ایجنسیوں نے ان کی کرپشن کی فائلیں دیکھائیں‘‘۔
اب جو ان کے بارے میں کہانیوں آڈیو ویڈیو کی صورت میں سامنے آرہا ہے پھر وہ کیسے غلط ہوگا۔ مخالفین انہیں درست مان رہے ہیں۔
خان صاحب کو یاد تو ہوگا کہ وہ اقتدار میں آن سے قبل کیسے کیسے خواب بیچتے تھے۔ اقتدار میں آئے تو رخصتی تک یہی تاثر گج وج کر دیتے رہے کہ طاقت کا منبع میں ہوں ساری پالیسیاں میری ہیں باجوہ سمیت ہر شخص میری پالیسیوں پر عمل کررہا ہے لیکن اب وہ ہر بات کی ذمہ داری باجوہ اور اسٹیبلشمنٹ پر ڈال کر ’’سادہ کنیا‘‘ بن بیٹھے ہیں۔
دس ماہ وہ سازش امپورٹ ہوئی فرماتے رہے اب کہہ رہے ہیں نہیں سازش امپورٹ نہیں ہوئی بلکہ ایکسپورٹ ہوئی۔
اصل منصوبہ ساز باجوہ ہے۔ چلیں یہ بھی لگے ہاتھوں بتادیں کہ کشمیر پر بھارت کے اقدام کے لئے امریکہ کو دی گئی رضامندی تنہا باجوہ صاحب کی تھی یا آپ بھی اس کا حصہ تھے؟
بہرحال حقیقت یہی ہے کہ وہ ان دنوں خود کو لانے والوں کے کپڑے میڈیا کے توسط سے اتار رہے ہیں۔ سادہ لفظوں میں یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کا ایک اور تجربہ اسٹیبلشمنٹ کے گلے پڑا ہوا ہے اور اس بار اسٹیبلشمنٹ کی تربیت یافتہ نسل بھی مخالف ہے۔ افسوس کہ ایسا لگتا ہے کہ سبق سیکھنے کی اب بھی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ