مئی 13, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ریڈیو سے وابستہ یادیں۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ روز 13فروری ریڈیو کا عالمی دن منایا گیا ، اس موقع پر جھوک سرائیکی میں ریڈیو لسنر مذاکرہ میں پروفیسر ڈاکٹر مقبول حسن گیلانی نے ریڈیو کی اہمیت اور خدمات کے حوالے سے اپنے پیغامات میں کہا کہ امن اور حالت جنگ میں ریڈیو پاکستان کی خدمات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ریڈیو ابلاغ عامہ کا بہترین اور موثر ذریعہ ہے۔ الیکٹرانک و سوشل میڈیا کی تیزی سے ترقی کے باوجود ریڈیو کی اہمیت کم نہیں ہوئی اور یہی اصل حقیقت ہے کہ میں خود اس وقت سے اپنے گائوں دھریجہ نگر میں ریڈیو سنتا رہا ہوں جب بجلی کی سہولت نہیں تھی۔ 1965ء کی جنگ کے حوالے سے کچھ یادیں تازہ کرنا چاہتا ہوں مگر اس سے پہلے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ خان پور سے آپ رحیم یارخان کی طرف جائیں تو8 کلومیٹر کے فاصلے پر میرا گائوں دھریجہ نگر واقع ہے۔ دھریجہ نگر قدیم دینی مدرسے کے حوالے سے علم کا گہوارا مگر 1980ء کے عشرے تک بستی میں نہ سڑک نہ سولنگ اور نہ ہی کوئی سکول تھا ۔ سیدھا سادہ دیہاتی ماحول تھا۔شروع میں ہماری بستی میں سخت دینی ماحول تھا، میرے نانا مولانا یار محمد دھریجہ جو درگاہ دین پور شریف کے بانی حضرت مولانا خلیفہ غلام محمد دین پوری کے مرید ، مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے ساتھی اور مولانا عبداللہ درخواستیؒ کے ہم مکتب تھے بستی میں کسی کو ریڈیو نہ سننے دیتے۔ سرائیکی شاعر اشرف دھریجہ کے والد خان محمد عرف ماما خان محمد دھریجہ نے اپنی دکان پر کالے رنگ کی باڈی والا فلپس کمپنی کا ایک ریڈیو رکھا ہوا تھا جو چوری چوری چلایا جاتا اور ہاں! یہ بھی بتاتا چلوں کہ ریڈیو آن کرنے سے پہلے ایک نوجوان کی ڈیوٹی لگائی جاتی کہ خیال رکھنا کہیں مولوی صاحب ادھر نہ آ جائیں۔ ماما خان محمد دھریجہ کی دوکان پر نوجوانوں کے ساتھ ہم چھوٹے بچے بھی ریڈیو پر چوری چوری گانے سنتے۔ ایک دن ریڈیو پر کہا گیا کہ جنگ شروع ہے، صدر ایوب خان آج قوم سے خطاب کریں گے ، اس دن ماما خان محمد کی دوکان پر پوری بستی جمع تھی اور میرے نانا حضور جو ریڈیو کو حرام قرار دیتے اور ریڈیو نہ چلانے دیتے ، ریڈیو پر خطاب سننے کیلئے سب سے پہلے آئے بیٹھے تھے۔ ایوب خان نے مختصر خطاب میں دشمن سے ہر محاذ پر جنگ کرنے کا اعلان کر دیا ، اس وقت بستی کے تمام افراد نے نعرہ تکبیر اللہ اکبر، پاکستان زندہ باد، پاک فوج زندہ باد کے نعرے بلند کئے ۔ بی بی سی بھی سنا جاتا اور میرے نانا حضور کی طرف سے ریڈیو سننے پر پابندی ہٹنے کے بعد ریڈیو پاکستان سے سارا دن وطن کے گیت سنے جاتے ، بہت جوش و خروش کا مظاہرہ ہوتا، وطن کے گیت لوگ گنگناتے نظر آتے، نور جہاں کے پنجابی گیت ’’اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے ‘‘ کو بہت پسند کیا جاتا۔یہ حقیقت ہے کہ ریڈیو ابلاغ کا موثر ذریعہ ہے ، جس کی آواز لہروں کے ذریعے پہاڑوں ، صحراؤں اور دریاؤں اور سمندر میں بھی سنائی دیتی ہے ۔ بر صغیر میں ریڈیو کا آغاز 1921ء میں ہوا ، ہمارے ملک میں پہلا ریڈیو اسٹیشن پشاور میں ہے کہ 1930 ء کے اوائل میں لندن میں گول میز کانفرنس ہوئی ، صوبہ سرحد کی نمائندگی کرنے والوں میں سردار عبدالقیوم خان بھی شامل تھے ۔ وہاں ریڈیو کے موجد مارکونی بھی آئے ہوئے تھے ، سردار عبدالقیوم خان نے ان کو درخواست کی کہ وہ ہمارے صوبے کیلئے ریڈیو کا تحفہ دیں ، چنانچہ انہوں نے درخواست قبول کر لی اور پشاور میں ریڈیو اسٹیشن قائم ہو گیا ۔ دہلی میں 1936ء میں ریڈیو کا قیام عمل میں آیا ۔ قیام پاکستان کے موقع پر کراچی میں پہلا ریڈیو اسٹیشن فوجی بیرک میں قائم کیا گیا ، 6جولائی 1951ء کو کراچی کا ریڈیو اسٹیشن اپنے بلڈنگ میں منتقل ہوا ، حیدر آباد ریڈیو اسٹیشن 17 اگست 1955ء میں قائم ہوا۔ ریڈیو اپنے منفرد تفریحی، معلوماتی، خبروں اور تبصروں کے پروگراموں کے لیے آج بھی بہت مقبول ہے۔ دنیا میں جدید ٹیکنالوجی جس میں ٹیلیویژن، ڈش انٹینا، موبائیل فون،انٹرنیٹ اور ریڈیو کی مختلف ایپس آنے کے بعد ان کو فریکیونسی ریڈیو کی بقا ء کے لیے ایک خطرہ تصور کیا جانے لگا تھا اور یہ گمان کیا جا رہا تھا کہ شاید اب ریڈیو ماضی کا ایک حصہ بن جائے گا اور اس کے سننے والے جو بہت متحرک ہیں وہ بھی تیزی سے بدلتی اس صورت حال میں مایوسی کا شکار تھے۔ تمام تر جدید ٹیکنالوجی کے آنے کے بعد ریڈیو سننے کے آلات میں ضرور تبدیلی آئی ریڈیو نے اپنی شکل تبدیل کرتے ہوئے نئے ٹیکنالوجی کے دور میں خود کو تبدیل کیا لیکن اپنا نام تبدیل نہیں ہونے دیا۔ پہلے ٹرانسسٹر پر ریڈیو سنا جاتا تھا پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس کی شکل تبدیل ہوتی چلی گئی میڈیم وویو، شارٹ وویو اور پھر ایف ایم نشریات کا آغاز ہوا۔ ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے پروگرام آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں نقش ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ریڈیو سننے والے سامعین کے ریڈیو سامعین کلب اور ریڈیو سامعین تنظیمیں قائم ہیں جو مقامی طور پر ان نشریاتی اداروں کو مل بیٹھ کر سنتے ہیں اور ریڈیو کے حوالے سے مختلف تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں۔ کئی ریڈیو سامعین ان نشریاتی اداروں کی فریکیونسی پر آواز کے معیار کے حوالے سے ان نشریاتی اداروں کو آگاہ کرتے ہیں جو ان اداروں کی نشریات کی آواز کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں، ایسے سامعین کو ڈی ایکسر کہا جاتا ہے اور ایسے سامعین کی جانب سے نشریاتی اداروں کو روانہ کی جانے والی رپورٹ کو ریسیپشن رپورٹ کہا جاتاہے، کئی بین الاقوامی نشریاتی اداروں نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں اپنی نشریات کی بہتری اور اس کے معیار کو جانچنے کے لیئے ریڈیو سامعین کو ٹیکنیکل مانیٹر مقرر کیا ہوا ہے جنہیں باقاعدہ نشریاتی اداروں کی جانب سے معاوضہ بھی دیا جاتا ہے جب کہ پروگراموں کی سامعین میں مقبولیت اور رائے اور ان میں بہتری کی تجاویز کے حصول کے لئے پروگرام مانیٹر بھی مقرر کیے جاتے ہیں۔ ریڈیو ٹیلنٹ پیدا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے مگرافسوس کہ زبوں حالی کا شکار ہے ، حکومت فوری توجہ اور فنڈ کا منتظر بھی ۔

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: