نذیر ڈھوکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تقریبا 5 سال گزرنے کے بعد لاھور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے قتل کے حوالے سے مقدمہ کی سماعت ہوئی ،سماعت کے دوران ایسا محسوس ہوا جیسے عام معمولی مقدمہ کی سماعت ہو ملزمان پیش نہیں ہوئے ان تمام ملزمان کو ٹرائل کورٹ بری کر چکی تھی ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف صدر آصف علی زرداری نے عدالت عالیہ میں اپیل کی جمعرات کے روز عدالت نےاس کی سماعت کی۔
مقدمہ کے بڑے ملزم جنرل ر پرویز مشرف ہیں جو اب اس دنیا میں نہیں رہا ممکن ہے کہ عدالت ان کا نام خارج کردے مگر ان کا نام رہتی دنیا تک محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے قاتلوں میں شمار ہوگا ۔ کوئی بات نہیں پرویز مشرف کو جس بھی انداز سے دفن کیا گیا مگر وہ تاریخ کے کوڑے دان میں سڑتا ہی رہے گا۔
مقتول محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی اس دنیا سے رخصتی عظیم الشان ہوئی وہ دنیا کی سیاسی تاریخ میں غیر متنازعہ راہنما کے رتبے کے ساتھ دھرتی ماں کے آغوش میں چلی گئیں آج کسی بھی جگہ جب محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا ذکر ہوتا ہے تو ماحول سوگوار بن جاتا ہے شہید بی بی صاحبہ آج بھی دنیا کی مقبول ترین سیاسی لیڈر ہیں دنیا بھر ان کے نام سے منسوب شاہراہیں اور پارک ہیں۔
اگر ہمارے ملک کا عدالتی نظام محترمہ بینظیر بھٹو شہید سے انصاف نہیں کرتا تو محترمہ شہید کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے کیونکہ ہماری عدالتوں نے ان کے ساتھ کبھی انصاف کیا ہی نہیں تھا۔
کوئی کیسے بھول سکتا ہے کہ ہماری عدلیہ گزشتہ 42 سال سے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کے قتل کے جرم میں تاریخ کے کٹہرے میں کھڑی ہے اور وہ اپنے چہرے سے خون کے نشانات مٹانے کے لیئے تیار نظر نہیں آتی ، سوال یہ ہے کہ ہماری عدلیہ کب تک اپنے پیشرووں کے جرائم کا بوجھ اٹھاتی رہیں گی ؟ سوال یہ ہے کہ موجودہ پاکستان کو تعمیر کرنے اور 1973 کے آئین کے خالق کے عدالتی قتل کے حوالے سے صدر آصف علی زرداری کے بھیجے ہوئے ریفرنس پر عدالت اعظمی 10 سال گزرنے کے باوجود ابھی تک اپنی رائے دینے سے انکاری ہے تو حد ادب میں رہ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے ۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے قتل کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ میں صدر آصف علی زرداری کی اپیل کی سماعت کی جو پانچ سال کے بعد ہوئی میں سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں موجود تھا سارے ملزمان غیر حاضر تھے ، ہاں مجھے آج شدت سے محسوس ہوا کہ انصاف کے لیئے ڈومیسائل ضروری ہے ،عدالت ایک گھنٹے میں آئی جی پنجاب اور ڈی آئی جی پولیس کو ملزمان سمیت پیش ہونے کا حکم صادر کر سکتی تھی مگر ایسا کچھ نہیں ہوا ، دنیا کی بڑی لیڈر کا قتل ہوتا ہے ،قتل کے بعد مقتل گاہ کو دھو کر ثبوت مٹائے جاتے ہیں اور پھر مجرموں کو بری کیا جاتا ہے ، یہ انصاف کی آبرو ریزی نہیں تو اسے آخر کیا کہا جائے ، سقراط نے یوں تو نہیں کہا تھا کہ تاریخ کی بڑی ناانصافی عدالت کی دہلیز پر ہوئی ہے ، اگر منصفوں کو تھوڑا سا وقت ملے تو ایک بار گڑھی خدا بخش بھٹو کے قبرستان میں جاکر دیکھ لیں کہ جن کے ساتھ نا انصافی ہوئی ان کا مزار آج بھی خلق خدا کیلئے صاحب مراد ہے خلق خدا کی کل بھی ان سے امیدیں وابستہ تھیں آج بھی ہیں ۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے عقیدت مند نہ ان کا جنم دن بھولتے ہیں نہ یوم شہادت مگر ان کے قاتلوں کو یاد کرنے والا کوئی نہیں یہ بھی ایسے ہے جیسے مر گیا مردود نہ ختم نہ درود کوئی مانے یا نہ مانیں یہ قدرت کا انصاف ہے ۔ رہی بات آج کے زمانے کے منصفوں کی تو انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے۔
۔
۔یہ بھی پڑھیں:
لیڈر جنم لیتے ہیں ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
شاعر اور انقلابی کا جنم۔۔۔ نذیر ڈھوکی
نیب یا اغوا برائے تاوان کا گینگ ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
ڈر گئے، ہل گئے، رُل گئے، جعلی کپتان ۔۔۔نذیر ڈھوکی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ