دسمبر 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جنرل پرویز مشرف ۔۔۔۔۔||رؤف کلاسرا

یہ پرسرار کہانی مجھے کسی اور نے نہیں بلکہ لیفٹنٹ جنرل علی قلی خان نے ہی راولپنڈی کی ڈھلتی اداس شام میں سنائی تھی جسے سن کر میں جہاں ششدر رہ گیا تھا وہیں پہلی دفعہ پتہ چلاتھا کہ چیف بننے کے لیے کس لیول پر اندر خانے کیا کیا کھیل کھیلے جاتے ہیں۔۔

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب بارہ اکتوبر کو جنرل مشرف نے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹا تو مجھے ملتان سے اسلام آباد آئے ابھی ایک سال سے کچھ اوپر ہی ہوا تھا۔
میں ابھی اسلام آباد ڈان کے بیورو آفس ماحول میں ایڈجسٹ ہونے کی کوششوں میں لگا ہوا تھا جہاں اس دور کے بڑے نام موجود تھے۔ ضیاء الدین ہمارے بیوروچیف تھے۔ ناصر ملک، احتشام الحق، احمد حسن علوی، رفاقت علی، انصار عباسی، فراز ہاشمی، محمد یسین، محمد الیاس، حسن اختر جیسے سینر صحافی بھی موجود تھے۔ شام کو بزرگ صحافی ایچ برکی صاحب آجاتے جو اپنے دور کے بڑے صحافی اور بھٹو صاحب کے قریب سمجھے جاتے تھے۔ ہم سب لوگ ان سے ڈرتے اور عزت کرتے تھے کہ وہ کسی کو بھی جھاڑ دیتے۔ ان کا ایسا احترام تھا کہ ضیاء الدین صاحب تک ان سے ڈانٹ کھانے بعد ہنستے ہوئے وہاں سے اٹھ جاتے۔ ایک دفعہ مجھے بھی زور سے ڈانٹا جب میں نے اپنی میز پر رکھے کمپیوٹر پر خبر لکھتے ہوئے اچانک ساتھ والی میز پر بیٹھے علوی صاحب سے کوئی جملہ پوچھ لیا۔ مجھے دھیان نہ رہا کہ وہ ان سے بات کررہے تھے۔ مجھے کہا یہ تم ملتانیوں کو تمیز نہیں ہے۔ میں شرمندہ سا ہو گیا۔
خیر جس شام مشرف کا فوجی مارشل لاء لگا اس رات بس میں وہاڑی کا سفر کررہا تھا۔ میرے بیٹے کی اگلے دن پیدائش ہونی تھی۔ اگرچہ شام کو ہی گڑبڑ شروع ہوگئی تھی جب مشرف کو برطرف کر کے جنرل ضیاء الدین بٹ کو چیف لگایا گیا تو فوج نے نواز شریف کا حکم ماننے سے انکار کر دیا۔
پنڈی سے وہاڑی جانے والی بس کا وقت دس بجے کے قریب تھا۔اس وقت موبائل فونز میرے پاس نہیں تھا جب کہ سوشل میڈیا کا ابھی رواج نہیں تھا۔یوں کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا ملک میں کیا چل رہا تھا۔ بس میں اکثر لوگوں کو مارشل لاء کا تو پتہ چل گیا تھا لیکن یہ پتہ نہیں تھا کہ جنرل مشرف کہاں تھے اور نواز شریف کا کیا بنا تھا؟
راستے میں رات گئے بس ایک ڈھابے پر رکی تاکہ مسافر کچھ کھا پی لیں۔ میں بس سے اتر کر ٹی وی کی طرف گیا جو ہوٹل میں رکھا تھا۔ پی ٹی وی پر اس وقت جنرل مشرف کی پہلی تقریر سے پہلے قومی ترانہ نشر ہو رہا تھا۔ یوں وہیں کھڑے کھڑے جنرل مشرف کی تقریر سنی کہ انہوں نے مارشل لاء کیوں لگایا تھا۔
اس وقت مجھے اندازہ نہ تھا کہ جنرل مشرف اگلے نو دس برس اس منظر نامے پر موجود رہیں گے اور جتنی آسانی سے وہ حکمران بن گئے تھے وہ اتنی آسانی سے اب تخت سے نہیں اتریں گے۔
نواز شریف اگرچہ خود کو کہتے تھے تو جمہوری حکمران تھے لیکن ان دنوں وہ امیر المومنیں بننے کے ایک بل پر کام کررہے تھے جن سے کوئی سوال نہیں پوچھا جاسکتا تھا۔ بلکہ خورشید قصوری نے اپنے تئیں نواز شریف کے خلاف اس “پراپگنڈہ “کو دور کرنے کی کوشش کی اور نواز شریف سے ایک بھری محفل میں اس بل پر ایک سوال کر دیا۔ اسے وہیں ایسا سبق سکھایا گیا کہ وہ پھر کبھی نہ بولے اور بھاگ کر سیدھا جنرل مشرف کے ہاتھ پر بیعت کر کے ان کے وزیرخارجہ بن گئے۔
نواز شریف نے بھی اپنے دور میں سیاسی مخالفین کا جینا اس طرح حرام کیا ہوا تھا جیسے برسوں بعد عمران خان نے وزیراعظم بن کر نواز شریف اور ان کے پارٹی لیڈروں کا کر دیا تھا۔ اب لوگ کہیں گے کہ وہی حشر شہباز شریف حکومت عمران خان اور ان کے ساتھیوں کا کررہی ہے۔
مجھے یاد آیا ایک دفعہ انگریزی کالم نگار اردشیر کائوس جی نے لکھا لوگ کہتے ہیں کہ نواز شریف وزیراعظم بن کر صرف زرداری اور بینظیر بھٹو کا احتساب کررہے ہیں، اپنی پارٹی کے اندر کرپٹ وزیروں کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ انہیں سب کا احستاب کرنا چاہیے تاکہ لوگ انگلیاں نہ اٹھائیں۔
اس مطالبعے پر اردشیر نے کیا کمال بات لکھی تھی کہ بینظیر بھٹو اور زرداری کا احستاب نواز شریف کو کرنے دیں چاہے یہ یک طرفہ ہی کیوں نہیں۔ کوئی اور حکمران آئے گا وہ نواز شریف کا یک طرفہ احستاب کر دے گا یوں دونوں برابر ہو جائیں گے۔
اور وہی ہوا۔ جنرل مشرف نے مارشل لاء لگا کر نواز شریف فیملی کا وہی حشر کیا جو پہلے کسی کا نہیں ہوا تھا۔ یوں کاوس جی کی بات پوری ہوئی کہ اس ملک میں برابر کا احستاب کبھی نہیں ہوگا لیکن بچے گا بھی کوئی نہیں کہ سب کی باری باری اپنے اپنے مخالفوں ہاتھوں لگے گی۔ سب کو رندہ پھرے گا۔ سب پھڑے جان گے۔
اور پھر وہ دور بھی لوٹ کر آیا کہ اسی نواز شریف نے جنرل مشرف پر ایسا مقدمہ بنایا جو آج تک پاکستانی تاریخ میں کسی پر نہیں بنا تھا۔ ان پر آئین توڑنے کے الزام میں بغاوت کا مقدمہ درج ہوا جس کا الزام ثابت ہونے پر موت کی سزا تھی۔ وقت بدل رہا تھا کہ کب کس نے سوچا تھا کہ ایک دن کسی سابق فوجی حکمران پر کوئی سیاسی وزیراعظم خصوصی عدالت قائم کر کے نئی تاریخ رقم کرے گا۔ نواز شریف کو اس کے لیے بڑا خطرہ مول لینا پڑا اور ان کی براہ راست لڑائی اس دور کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ہوئی جو بعد میں خطرناک ٹکرائو کی شکل اختیار کر گئی۔ چوہدری نثار علی خان یہی خطرہ دیکھ کر نواز شریف کو مشورہ دیتے تھے کہ فوج اور عدلیہ سے نہ لڑیں۔ بلکہ سنا ہے نواز شریف کی چوہدری نثار سے پہلی بڑی نارضی بھی جنرل مشرف سے شروع ہوئی تھی کہ ان کی سفارش پر ہی مشرف کو آرمی چیف لگایا گیا تھا جس نے بارہ اکتوبر کے روز نواز شریف کو ہتھکڑیاں لگا کر وزیراعظم ہاوس سے گرفتار کیا تھا اور پورا خاندان مشکلوں میں رہا جب کہ چوہدری نثار علی خان کو جیل کی بجائے ان کے گھر پر نظر بند کیا گیا تھا۔
اس پر بھی نواز شریف ناراض تھے کہ شاید اندر کھاتے چوہدری نثار دراصل اس آرمی چیف مشرف ساتھ مل گئے تھے جنہیں ایک سال قبل سفارش کر کے لگوایا تھا۔ یوں نواز شریف عمر بھر چوہدری نثار کو بھی اس ترچھی آنکھ سے دیکھتے رہے کہ انہوں نے وہ چیف لگوایا جس نے ان سب کو پھائے ( پھانسی ) لگا دیا۔ وہ سارا الزام چوہدری نثار کے سر پر تھوپنتے تھے۔
یہ الگ بات ہے کہ جب جنرل باجوہ کو آرمی چیف لگایا تو اس وقت چوہدری نثار سے مشورہ نہ کیا گیا تھا کیونکہ پچھلا تلخ تجربہ ابھی تازہ تھا۔ لیکن پھر بھی ملتا جلتا انجام نواز شریف کا جنرل باجوہ کے ہاتھوں ہوا کہ نہ صرف عدالت کے زریعے حکومت بھی کھو بیٹھے بلکہ اب کی دفعہ بیٹی سمیت جیل جا بیٹھے اور پورا خاندان یا تو مفرور قرار پایا یا جیل جا بیٹھا۔
یوں ثابت ہوا کہ چوہدری نثار کا مشورہ ہو یا نہ ہو نواز شریف جب بھی کوئی آرمی چیف لگائیں گے اس سے ضرور پھڈا ہوگا اور نقصان نواز شریف کا ہی ہوگا۔ اب ہر دفعہ تو قسمت کی دیوی آپ کا ساتھ نہیں دیتی اور آپ کو جنرل کرامت جیسا آرمی چیف نہیں ملتا جو آپ کو اپنا استحفی آپ سے مانگے بغیر پیش کر کے پوری حکومت اور آرمی کمانڈ کو حیران کر دیتا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ جنرل کرامت کو آرمی چیف نواز شریف نے نہیں بلکہ صدر فاروق لغاری نے وزیراعظم بینظیر بھٹو کی سفارش پر لگایا تھا۔ جس نے ان کی حکومت گھر بھیجنے کی بجائے خود گھر جانا پسند کیا۔
سوال یہ ہے کور کمانڈر منگلہ جنرل مشرف آخر چوہدری نثار کے زریعے وزیراعظم نواز شریف تک کیسے پہنچ گئے تھے اور اس دوڑ میں سب آگے جنرل علی قلی خان کو ہرا کر آرمی چیف بھی بن گئے تھے؟
یہ پرسرار کہانی مجھے کسی اور نے نہیں بلکہ لیفٹنٹ جنرل علی قلی خان نے ہی راولپنڈی کی ڈھلتی اداس شام میں سنائی تھی جسے سن کر میں جہاں ششدر رہ گیا تھا وہیں پہلی دفعہ پتہ چلاتھا کہ چیف بننے کے لیے کس لیول پر اندر خانے کیا کیا کھیل کھیلے جاتے ہیں۔۔

یہ بھی پڑھیے:

ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا

رؤف کلاسرا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author