یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنجاب کی مائیں باکمال ہیں۔ جیسے ہی بیٹا پیدا ہوتا ہے، وہ اُس کی دلہن لانے کے خواب دیکھنے لگتی ہیں، بلکہ قریبی رشتے داروں کی بیٹیوں پر بھی نظر رکھتی ہیں۔ لیکن جونہی بیٹا واقعی دلہن لے کر آتا ہے، وہ کہتی ہوئی ملتی ہیں، ’’کمینی میرے بیٹے کو سنبھال کر بیٹھ گئی۔‘‘
مشرقی پنجاب میں دہلی، کرنال اور انبالہ کے مسلمان گدّی جمنا و گنگا کے بالائی دوآب میں ملنے والے قبیلے گھوسی سے کافی مماثلت رکھتے تھے اور شاید اُنھی کی طرح اہیروں کی ایک شاخ ہیں۔ ہندوستان کے رسم و رواج پہاڑی ریاستوں میں سب سے زیادہ خالص حالت میں رہے۔
آج بھی گدیوں کی شادی میں جب دولہا اپنی ماں، پروہت اور دیگر عورتوں کے ہمراہ پالکی میں بیٹھتا ہے۔ بھابی اُس کی آنکھوں میں ’’کاجل بہاتی‘‘ ہے۔ پالکی اُٹھائی جاتی ہے اور قریبی رشتے دار پالکی اُٹھانے میں مدد کرتے ہیں۔ وہ ’’منی مہیش کی جے‘‘ کا نعرہ لگاتے اور دُلہن کے گھر میں داخل ہوتے ہیں جہاں پانی سے بھرا ہوا ایک گھڑا رکھا گیا ہوتا ہے۔ دولہا اُس گھڑے میں کچھ سکے ڈالتا ہے۔ اِس موقعے پر اُس کی ماں اُسے اپنا دودھ پلاتی ہے۔ اِس کے پیچھے خیال یہ ہے کہ بیٹا بیوی لا رہا ہے ہے تو اپنی ماں کو نہ بھولے۔ اِس کی جگہ پر گلاس میں بھی دودھ پینے کو دیا جاتا ہے۔
کوئی فرائیڈ، کوئی یُنگ ہوتا تو اِس میں الیکٹرا اور ایڈیپس کمپلیکس کے ریزے تلاش کر کے ہمیں سمجھاتا۔ تب شاید ہمیں دو عورتوں کے درمیان بٹے ہوئے بیٹے کی منحوس شخصیت سمجھ آتی۔
ماؤں کا یہ دودھ پلانا سارے پنجاب میں اور شاید دوسرے علاقوں میں بھی عمر بھر کا طعنہ بن جاتا ہے۔ یہ آئندہ تیار ہوتی ہوئی ماں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ ماؤں کے بطور ساس کوئی حقوق نہیں ہونے چاہئیں، اور اُنھیں بطور انسان تمام حقوق دینے چاہئیں۔ میں نے تو یہی کیا۔
آج رِیلز دیکھتے ہوئے یہ دلچسپ کلپ دیکھا تو تھوڑی سی تحقیق کرنے پر سبب مل گیا۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر