دسمبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یوکرین جنگ نے یورپ کو گھیر لیا||اسلم اعوان

اسلم اعوان سرائیکی وسیب کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھتے ہیں ،وہ ایک عرصے سے ملک کے سیاسی ، سماجی اور معاشی مسائل پر لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

اسلم اعوان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یوکرین جنگ کو 24 فروری کو ایک سال مکمل ہوجائے گا‘ اس کے باوجود اس کی شدت میں کمی کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ روز بروز پیچیدہ ہوتے ا س تنازع نے یورپ میں سیاسی، معاشی و انسانی بحران پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ قدرتی ماحول کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ان دنوں یوکرین کے شہر خرسون اور ڈونیٹسک شدید حملوں کی زد میں ہیں۔ گزشتہ منگل کو روسی افواج باخموت شہر کو گھیرے میں لے کر جس شاہراہ کا کنٹرول پانے کی تگ و دو میں مصروف تھیں‘ یہ ڈونیٹسک کو ان تباہ حال قصبات سے ملاتی ہے، جہاں روسی میزائل حملوں سے برباد گھروں کو قابلِ استعمال بنانے کے لیے لکڑی کی شیٹس تقسیم کی جا رہی تھیں۔ روسی میزائل حملوں سے ان علاقوں میں سڑکیں تباہ ہو چکی ہیں۔ ریسکیو ٹیمیں رات بھر مشرقی یوکرین کے علاقے کراماتورک میں رہائشی عمارتوں پر ہونے والے راکٹ حملوں میں زندہ بچ جانے والوں کو تلاش میں مصروف رہتی ہیں، جنوبی یوکرین میں دریائے ڈینیپر کے کنارے بھی جنگ میں شدت آنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ یوکرین کے وزیر دفاع اولیکسی ریزنکوف نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ روس 24 فروری کو کیف پہ اس وقت ایک نیا حملہ کر سکتا ہے جب دنیا بھر میں یوکرین پر روسی جارحیت کے پہلی برسی منائی جا رہی ہو گی۔ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے بھی گزشتہ دنوں اشارہ دیا تھا کہ ان کا ملک جنگ کا ایک سال پورا ہونے کے موقع پر دنیا بھر میں یوکرین کے حامیوں کی تقریبات کو سبوتاژ کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ روس میں تعینات رہ چکے ایک سابق امریکی سفیرکا کہنا ہے کہ یوکرین یورپی یونین کے لیے اپنی رکنیت کی درخواست کو تیزی سے ٹریک کرنا چاہتا ہے لیکن اس کی ٹریکنگ یونین کی ٹائم لائن سے تصادم ہو سکتی ہے۔ یوکرینی سوچتے ہیں کہ یہ طویل ٹائم لائنز ان پر لاگو نہیں ہوتیں کیونکہ انہوں نے ٹریک پر آنے سے پہلے بہت ساری ضروری اصلاحات کر لی تھیں۔یہ تبصرے کیف میں ہونے والے یوکرین اور یورپی یونین کے اُس سربراہی اجلاس سے پہلے سامنے آئے جس میں یوکرین کی یورپی یونین میں شمولیت کا ایشو بھی زیر بحث آئے گا جو فی الاصل اس مہلک جنگ کا محرک بنا۔ ان حالات میں یورپی یونین میں یوکرین کی شمولیت کا فیصلہ جنگ کے دائرے کو پورے یورپ تک پھیلا دے گا۔
یوکرین آبادی اور زرعی پیدوار کے لحاظ سے یورپ کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس لیے یوکرین کی سمندری ناکہ بندی سے دنیا بھر میں پیدا ہونے والی اناج کی قلت سے نمٹنے کی خاطر روس نے سمندری محاصرے میں نرمی کا عندیہ دیا ہے۔ یوکرینی فصلوں کی برآمدات کی نگرانی کرنے والی تنظیم کا کہنا ہے کہ زرعی سامان سے لدے 27 جہازوں کا بیڑاعالمی منزلوں کے لیے روانہ ہونے کا منتظر ہے۔ بحرِاسود میں یوکرین، روس، ترکیہ اور اقوام متحدہ کے درمیان ثالثی کے ذریعے کی جانے والی ڈیل بحری ناکہ بندی میں نرمی کا وسیلہ بنی اور یوکرین کی تین اہم بندرگاہوں کو دوبارہ کھلنے کی مہلت مل گئی۔ معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد اب تک 19.2 ملین میٹرک ٹن اناج اور دیگر اشیائے خور ونوش سے لدے 690 جہاز یوکرین کے پانیوں سے نکل چکے ہیں۔ دارالحکومت کیف میں دھماکوں کے بعد روسی فوجیں اب یوکرین کی مشرقی سرحد اور اس کی جنوبی ساحلی پٹی کے ساتھ ایسی پیشقدمی کو مربوط بنانے میں سرگرداں ہیں جس کے تحت وہ اپنی طویل مہمات کو برقرار رکھ سکیں؛ تاہم مغربی ماہرین کا خیال ہے کہ روسی یقینی طور پر پرانی کمزوریوں کا مظاہرہ کریں گے، جس سے وہ مکمل سٹرٹیجک فتح کم ہی حاصل کر پائیں گے۔ اگر روسی خارکیف کے قریب اپنی پوزیشنوں سے حملے کر سکے اور دنیپرو کے اہم شہر پر قبضہ کرنے کے لیے جنوب کی طرف پیشقدمی میں کامیاب ہوئے تو وہ فیصلہ کن جنگ میں یوکرین کی جنگی افواج کو الگ تھلگ کرلیں گے لیکن انہیں مشترکہ ہتھیاروں کی چال میں اس سے بہتر مہارت کا مظاہرہ کرنا ہو گا‘ جتنا آج تک دکھایا گیا ہے۔ یوکرینی افواج کی یونٹس میں پہل کاری اور لڑنے کیلئے درکار عزم نظر نہیں آتا۔ نیٹو ممالک کے بھاری ہتھیاروں سے تقویت یافتہ ہونے کے باوجود تاحال یہ ڈونباس میں بہت سے قصبوں اور شہروں میں مؤثر انداز میں روسی حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے درکار مضبوط پوائنٹس حاصل نہیں کرسکیں۔ ماہرینِ معاشیات کی پیش گوئی کے مطابق اس جنگ کے باعث یورپی معیشت2008 ء کے معاشی بحران کی سطح پر واپس پہنچ سکتی ہے اور یورپی یونین میں شمولیت میں تاخیر کی وجہ سے یوکرین کا نیٹو کے خلاف شکایت کا احساس بھی بڑھتا جائے گا۔
میڈیا رپوٹس سے پتا چلتا ہے کہ فروری 2022ء سے روس اور یوکرین کی جنگ جاری ماحولیاتی بحران کو شدید کر رہی ہے۔ ماحولیاتی ماہر رچرڈ مارکنٹونیو کہتے ہیں ماحولیاتی نقصان کی وجہ سے انسانی صحت کے لیے مختصر اور طویل المدتی خطرات‘ خوراک اور نمائش کی درجہ بندی کے مطابق مختلف ہیں۔ ان میں سے کچھ طویل مدتی اثرات کے حامل ہیں، مجموعی اثرات میں صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات میں اضافہ اور اوسط عمر میں کمی اہم نتائج ہوں گے۔ دیگر ماحولیاتی خطرات بھی واضح ہیں۔ یوکرین کے 15 جوہری ری ایکٹرز، کیمیائی پلانٹس، بارودی سرنگوں اور دیگر مینوفیکچرنگ سہولتوں کے ارد گرد فوجی سرگرمیوں کے مہلک اثرات ہیں۔ روس کی کارپٹ بمباری نیوکلیئر پاور پلانٹس اور تابکار فضلے کو ذخیرہ کرنے کی سائٹس کو براہ راست یا بالواسطہ نقصان پہنچاتی ہے جس میں ان کے بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصانات بھی شامل ہیں۔ ماحولیاتی نظام کے عدم توازن کے اثرات کے علاوہ جنگلات کی کٹائی اور زرعی پیدوار میں کمی بھی مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اوریوکرین کی فصلوں کے دیگر لاکھوں صارفین کو سالوں تک متاثر کرے گی۔ شواہد موجود ہیں کہ یوکرین کی بندرگاہوں کی ناکہ بندی کے علاوہ طرفین کی افواج کھیتوں کو تیزی سے اجاڑ رہی ہیں، زراعت کی بیخ کنی کے مضمرات بھی خوراک کی حفاظت اور ماحولیاتی ازالے کی ترجیحات کو تہ و بالا کرتے ہیں۔ کئی اضافی ماحولیاتی خطرات طویل المدتی خدشات کو جنم دیتے ہیں۔ گویا روس کا فوجی حملہ آنے والی کئی دہائیوں تک منفی اثرات مرتب کرتا رہے گا۔ ڈونباس کے علاقے (لوہانسک اور ڈونیٹسک) میں صنعتی بارودی سرنگوں کے سیلاب سے پیدا ہونے والی آلودگی زیادہ مہلک ہے، جہاں بدترین توپ خانے اور روایتی لڑائیاں شدید ہو رہی ہیں۔ بڑے پیمانے کی جنگ کے کئی دیگر ماحولیاتی اثرات بھی ہیں‘ بشمول سمندر میں آلودگی‘ تباہ شدہ شہروں میں سٹیل پلانٹ میں کیمیائی فضلے کے ذخیرے کو نقصان پہنچانے کی اطلاعات‘ جو انسانی صحت اور رہائش کے نقصانات کے علاوہ سمندری حیات کے لیے بھی خطرہ بن گئی ہیں۔ توپ خانے کے حملوں اور دیگر جنگی سرگرمیوں سے لگنے والی آگ سے جنوبی یوکرین کا حولیاتی نظام مہیب خطرات سے دوچار ہے۔ کھیرسن کے ملحقہ علاقے کے ساتھ بحیرہ اسود میں لگی آگ کا خلا سے مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ اس جنگ کے ماحولیاتی ازالے کی لاگت روزانہ بڑھ رہی ہے۔ طویل مدتی پیشرفت کیلئے ایکشن پلان بنانے پہ سوچا جا رہا ہے۔ مزید براں یوکرین میں یورپ کا سب سے بڑا انسانی بحران جلد ہی حالیہ تاریخ کا ایک بے مثال آبادیاتی بحران بن کر ابھرے گا۔
یوکرین میں ہلاکتوں کے علاوہ نقل مکانی کرنے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ روزافزوں ہے۔ پناہ گزینوں میں خواتین اور بچوں کی تعداد تخمینوں سے کہیں زیادہ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مہاجرین دیگر علاقوں میں اپنی نئی زندگیاں قائم کر لیتے ہیں تو ان کے وطن واپس آنے کا امکانات ختم ہو جاتے ہیں۔ اگر زیادہ تر پناہ گزین واپس نہیں آتے تو اس سے یوکرین کی آبادی میں نمایاں کمی کے ساتھ جنس اور عمر میں عدم توازن بھی پیدا ہو جائے گا۔ یوکرین کے حکام اور بین الاقوامی برادری مہاجرین کے ملک اور بیرونِ ملک منتقلی کے اہم بہاؤ اور انسانی مواد کی نگرانی کیلئے ڈیٹا کا زیادہ منظم نظام قائم کرنے کی کوشش میں سرگرداں ہیں۔ یورپی ماہرین کہتے ہیں کہ ایسا نظام قائم کرنا پڑے گا جس سے یوکرین کی بیرونِ ملک آبادی کا پتا لگایا جا سکے اور مستقبل میں ان کی ملک میں واپسی کی راہ ہموار بنائی جا سکے۔

 یہ بھی پڑھیے:

کشمیریوں کا مستقبل۔۔۔اسلم اعوان

اپوزیشن جماعتوں کی آزمائش۔۔۔اسلم اعوان

پیراڈائم شفٹ میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟۔۔اسلم اعوان

افغانستان کا بحران عالمی ایشو نہیں رہا۔۔۔اسلم اعوان

عورتوں میں ہم جنس پرستی پر یہ مشہور کہانی لکھنے والی عصمت چغتائی۔۔۔اسلم ملک

اسلم اعوان کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author