اعزاز سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس روز جنرل پرویز مشرف کمرے میں داخل ہوئے تو سنجیدگی ان کے چہرے پر عیاں تھی۔ انہوں نے نیلے رنگ کا سوٹ پہن رکھا تھا، بال شاید ایک دو دن پہلے سیاہ رنگے گئے تھے مگر قلمیں دانستہ سفید رہنے دی گئی تھیں تاکہ انداز قدرتی لگے۔
انہیں کمرے میں داخل ہوتا دیکھ کر میں آرام دے صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ میرے گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اگلے دو روز میں ہونے والے واقعات کے پیش نظر پاکستان سے دبئی جائیں گے اور کبھی زندہ نہیں لوٹیں گے اور ہماری یہ ملاقات ان کے پاکستان قیام کے دوران کسی بھی صحافی سے ہونے والی آخری ملاقات ہی ہوگی۔
یہ ملاقات پرویز مشرف کے مشکل ترین دور میں ہو رہی تھی۔ جب مشرف کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر گرفتار کر کے پہلی بار ایک مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا تو یہ اتفاق ہی تھا کہ وہاں صرف میں ہی واحد صحافی موجود تھا۔ لیکن اس روز گرفتاری کے باوجود مشرف پرعزم لگ رہے تھے۔
ہماری دبئی میں ملاقاتوں اور شناسائی کے باعث انہوں نے عدالت سے نکل کر مسکراتے چہرے کے ساتھ مجھ سے ہلکی پھلکی بات چیت بھی کی لیکن اس دفعہ بالکل ایک مختلف صورت حال تھی۔
یہ 30 دسمبر 2013 کی شام تھی اور ہم پرویز مشرف کے چک شہزاد فارم ہاؤس کے ایک نفاست سے سجائے گئے ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔ مہنگی اور پرتعیش آرائشی اشیا اور دیوار پر ٹنگی تصاویر سے اندازہ ہوتا تھا کہ انہیں بڑی محنت اور کاوش سے اکٹھا گیا ہے اور ان کی آپس میں ہم آہنگی کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔
کمرے میں میرے علاوہ اس وقت مشرف کے سیاسی امور کے مشیر بیرسٹر سیف اور سابق فوجی صدر کے سٹاف میں شامل رضا کاظم بھی موجود تھے۔ ان دنوں پرویز مشرف کے خلاف ایک خصوصی عدالت میں سنگین غداری کا مقدمہ چل رہا تھا اور عدالت نے انہیں فرد جرم عائد کرنے کے لیے طلب کر رکھا تھا۔
دو روز بعد مشرف کو ہر صورت میں خصوصی عدالت پہنچنے کا حکم تھا۔ ظاہر ہے مشرف مشکل صورت حال سے دوچار تھے۔ ان کے چاروں طرف مخالفین انہیں گھیرے ہوئے تھے۔
ملک میں وہی نواز شریف حکومت کر رہے تھے جنہیں مشرف ہی کے حکم پر ان کے ساتھی جنریلوں نے 12 اکتوبر 1999 کو فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر کے پہلے پابند سلاسل اور پھر بعد میں جلاوطن کیا تھا۔ نواز شریف بھی بےتاب تھے کہ مشرف کو عدالتوں کے چکر کاٹتے ہی نہیں بلکہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیکھیں۔
اس ماحول میں بطور صحافی جنرل مشرف سے ملاقات کسی بڑے موقعے سے کم نہیں تھی۔ مجھے تاکید کی گئی تھی کہ سابق صدر کیمرے پر بات نہیں کریں گے لہٰذا میں ایک نوٹ بک کے ساتھ وہاں موجود تھا۔
ہماری گفتگو کا آغاز صحافت کے موضوع اور ایک صحافی کے کردار سے شروع ہوا۔ وہ صحافی کوئی اور نہیں حامد میر تھے۔ مشرف کو بڑا رنج تھا کہ کسی زمانے میں ان کے ساتھ انتہائی خوشگوار تعلقات رکھنے والے حامد میر اب اچانک ان کے خلاف ہو چکے ہیں۔
اس موضوع پر ہماری گفتگو نے پہلے سے سنجیدہ ماحول میں اور زیادہ سنجیدگی گھول دی تھی اور مشرف کھل کر بات کرنے سے گریزاں نظر آ رہے تھے۔ خیر سنجیدگی اور احتیاط کے ماحول کو کم کرنے کے لیے میں نے اچانک باتوں کا رخ موڑا اور پوچھا، ’جنرل صاحب یہ تو بتائیے کہ آپ آج بھی خواتین میں اتنے مقبول کیوں ہیں؟‘
مشرف مسکرا دیے اور بولے، ’آپ ایسا کیوں پوچھ رہے ہیں، کوئی خاص وجہ ہے؟‘
میں نے انہیں بتایا، ’سر، خواتین کی محفلوں میں آپ کا ذکر ہوتا ہے، ایک آدھ بار مجھے کچھ خواتین سے آپ کی تعریفیں براہ راست سننے کو بھی ملی ہیں، اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ ماجرا کیا ہے۔ ملک میں مرد آپ کے خلاف مقدمات بنا رہے ہیں اور بعض خواتین آپ کی تعریفوں کے پل باندھ رہی ہیں۔‘
میرا جواب سن کر مشرف کھل کھلا کر ہنسے ان کی باچھیں تقریباً پوری کھل گئیں۔ مجھے ان کے اندر کا نوجوان واضح طور پر نظر آ گیا۔
مشرف بولے، ’کن خواتین سے آپ نے میری تعریف سنی؟ میں نے کہا، ’سر رہنے دیجیے کسی کا نام لینا مناسب نہیں لیکن بہت سی خواتین آپ کو پسند کرتی ہیں۔‘
میرے سوال نے ملاقات میں بےتکلفی کا ماحول پیدا کر دیا۔ اب مشرف آٹو پر تھے۔ بولے، ’میں حسن کو پسند کرتا ہوں لیکن میں گھٹیا آدمی ہرگز نہیں ہوں۔‘
حسن و عشق کی باتوں سے نکل کر میں ایک بار پھر انہوں سنجیدہ موضوعات کی طرف گھسیٹ لایا اور پوچھا، ’جنرل صاحب آپ بتائیے کہ آپ کو چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ہٹانے کا مشورہ دیا کس نے تھا؟‘
ملک میں ان کے نو مارچ 2007 کو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو نکالنے کے فیصلے کے خلاف ایک تحریک چلی تھی جس نے صرف ایک سال کے عرصے میں نہ صرف اس وقت کے طاقتور ترین فوجی صدر کے اقتدار کی جڑیں کھوکھلی کی تھیں بلکہ انہیں اقتدار سے نکل کر جلاوطنی اختیار کرنے پر بھی مجبور کیا تھا۔
مشرف بولے، ’مجھے وزیراعظم شوکت عزیز سمیت تمام متعلقہ افراد نے افتخار چوہدری کے خلاف کارروائی کا کہا تھا۔‘
میں نے پوچھا، ’کیا آئی ایس آئی کے پاس آپ کے فیصلے پر عمل درآمد میں مسائل کی صورت میں کوئی پلان بی تیار نہیں تھا؟‘
انہوں نے کہا، ’افتخار چوہدری کو ہٹانے کی آئی ایس آئی نے بھی سفارش کی تھی۔‘
یہاں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اشفاق پرویز کیانی تھے جنہیں مشرف نے خود آرمی چیف بھی تعینات کیا تھا۔
مجھے اچھی طرح یاد تھا کہ مشرف صاحب سے جلاوطنی کے دنوں میں میری دبئی میں ہونے والی ملاقات میں وہ جنرل کیانی کے حوالے سے کوئی بھی بات آن دی ریکارڈ کرنے سے گریزاں تھے۔
اب موقع جان کر میں نے پوچھا، ’سر آپ جنرل کیانی کا بطور آرمی چیف خود سے کیسے موازنہ کرواتے ہیں۔‘
مشرف بولے، ’کوئی موازنہ ہی نہیں۔ کام کر کے دکھانے والے شخص سے ہر وقت خاموش اور سوچوں میں گم رہنے والے شخص کا موازنہ کیسے ہو سکتا ہے؟ بطور آرمی چیف مجھ سے بہتر کوئی نہیں تھا۔‘
میں نے پوچھا، ’جنرل کیانی کی تقرری کو آپ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہیں، لیکن یہ تقرری ہوئی کیسی؟‘
بولے، ’وہ ہر وقت میرے پاس آتا تھا، خاموش رہتا تھا۔ بس مجھے پتہ نہیں چلا۔‘
مشرف اس وقت جنرل کیانی کو آرمی چیف تعینات کرنے کے فیصلے پر ہاتھ مل رہے تھے اور شاید ان کا آخری سب سے بڑا افسوس یہی تھا کہ انہوں نے ایک غلط شخص کو آرمی چیف تعینات کیا ہے۔
میرے سامنے انہوں نے پشیمانی کے انداز میں لیفٹیننٹ جنرل طارق مجید کی بڑی تعریف کی۔ انہوں نے طارق مجید کو آرمی چیف لگانے کی بجائے چیرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی لگایا تھا اور بعد میں اپنے فیصلے پر نادم رہے۔
مشرف کو جنرل کیانی پر برہمی تھی کہ انہوں نے نہ فوج کی کمانڈ ملتے ہی ان سے منہ موڑ لیا تھا۔ شاید مشرف کی توقعات جنرل کیانی کی مجبوریوں سے زیادہ تھیں۔
مشرف کی اقتدار سے رخصتی اور جلاوطنی کے بعد بھی جنرل کیانی کو پتہ تھا کہ جنرل مشرف پاکستان آئے تو انہیں کوئی نہیں چھوڑے گا اسی لیے کیانی نے اپنے بااعتماد آئی ایس آئی چیف جنرل احمد شجاع پاشا کو دبئی بھیج کر مشرف کو مارچ 2013 میں وطن واپسی سے قبل روکنے کی کوشش کی تھی تاہم مشرف نہیں مانے۔
میں نے پوچھا، ’کیا پاشا جنرل کیانی کے کہنے پر آپ سے دبئی میں ملے تھے؟‘
بولے، ’شاید۔‘
نومبر میں نواز شریف نے جنرل کیانی کی ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل راحیل شریف کو تعینات کیا تھا۔ جنرل مشرف نے اس ملاقات میں مجھے بتایا کہ انہوں نے راحیل شریف کو مبارک باد کا خط لکھا ہے، تاہم راحیل شریف کی تعیناتی کے فیصلے پر انہوں نے نواز شریف پر تنقید کی بجائے خاموشی اختیار کی۔
اس ملاقات میں جنرل مشرف نے میرے سامنے دعویٰ کیا تھا کہ فوج ان کے ساتھ ہے۔ ان کے مطابق فوج ان کے ساتھ ’ناانصافی‘ نہیں ہونے دے گی۔ دراصل ان کو یقین تھا کہ انہیں سنگین غداری کے مقدمے سے بچا لیا جائے گا۔
ٹھیک دو روز بعد ان کی بات بالکل سچ ثابت ہوئی۔
انہیں فوجی سکیورٹی نے خصوصی عدالت میں پیش کرنے کی بجائے راولپنڈی کے ایک فوجی ہسپتال منتقل کر دیا جہاں سے کچھ عرصہ قیام کے بعد انہیں دبئی بھجوا دیا گیا۔ ان کی عدم موجودگی میں خصوصی عدالت نے ان کو غدار قرار دے کر موت کی سزا سنائی۔
بشکریہ :انڈیپینڈنٹ اردوڈاٹ کام
یہ بھی پڑھیے:
کیا اپوزیشن کامیاب ہوگی؟۔۔۔ اعزاز سید
خادم رضوی کی وفات کے بعد جماعت کا مستقبل ؟۔۔۔اعزازسید
وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کون ہیں؟اعزازسید
پی ڈی ایم کی تشکیل سے قبل ایک اہم سرکاری اجلاس میں کیا ہوا؟۔۔۔اعزازسید
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ