حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
متحرمہ سلمیٰ اعوان کا شکریہ جنہوں نے ’’عالمی ادب کی فروزاں قندیلیں‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی۔ برادرم احمد سہیل نصراللہ کا خصوصی شکریہ کہ انہوں نے کتاب مجھ طالب علم کو عنایت کی۔ کتاب یو ایم ٹی (یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور) نے شائع کی ہے۔
کتاب میں محترمہ سلمیٰ اعوان نے کرہء ارض کے 16روشن فہم والے دانائوں کا تعارف کروایا ہے ان روشن فہم والے دانائوں کی شاعری اور افکار کے تراجم تعارف کے ساتھ ہیں۔ سوانحی خاکے اگر کچھ مزید معلومات سے عبارت ہوتے تو یہ ہم ایسے طلباء پر عنایت جاوداں ہوتی۔
میں نے ابھی محترمہ سلمیٰ اعوان کا لکھا پہلا تعارف پڑھا ہے۔
یہ نزار قبانی کا تعارف ہے دمشق میں پیدا ہونے والے عربی کے عہدساز شاعر نزار قبانی کا۔
وہی نزار قبانی کہ جس نے کہا تھا
’’اب اگر آسمانوں نے تمہاری ضمانت نہیں دی تو اسے کوسو مت، حالات کو بھی لعن طعن مت کرو، خدا انہیں فتح دیتا ہے جنہیں وہ چاہتاہے، خدا کوئی ہتھیار گھڑنے والا لوہا تو نہیں۔ یاد رکھو جنگیں کبھی جیتی نہیں جاتیں، طائوس و رباب کے ساتھ۔ ہمارے دشمن ہماری سرحدوں میں رینگ کر نہیں آئے وہ تو چیونٹیوں کی طرح ہماری کمزوریوں کے ذریعے آئے ہیں ” ۔
دمشق میں پیدا ہونے والے نزار قبانی نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد شامی وزارت خارجہ میں ملازمت کی کلچر اتاشی کی حیثیت سے انہوں نے عرب ممالک اور عرب دنیا سے باہر کئی ممالک میں خدمات سرانجام دیں۔ بلاد عرب (عرب ممالک) میں ان کی شاعری کی دھوم زمانہ طالب علمی سے ہی تھی۔
ہوتی کیوں نہ بھلا جو شاعر یہ کہے کہ
’’ہم اپنے آباء کے دامن پر داغ ہیں، ہمارے صحرائوں کا تیل، آگ اور شعلوں کا خنجر بن سکتا ہے مگر ہمارا تیل فاحشائوں کے قدموں میں پڑا ہے‘‘۔
یہ بلاد عرب کی نئی نسل بلکہ ہر نئی نسل کے جذبوں کو زبان دینے کا عمل تھا۔ نزار قبانی نے جذبوں کو زبان دی۔ عربوں کی نئی نسل ہی نہیں اپنے اپنے عہد کی سچائی سے بچھڑی ہر نسل اس سے متاثر ہوئی۔ متاثر ہونا بنتا ہے بلکہ اس کی بلند قامتی کا اعتراف اس کا حق ہے۔
محترمہ سلمیٰ اعوان کی یہ تصنیف یو ایم ٹی نے سال 2021ء میں شائع کی۔ غالباً ایک بار اس کتاب کا تذکرہ بلال حسن بھٹی نے بھی کیا تھا۔ کتابوں کے درمیان 24میں سے 16گھنٹے یا اس سے کچھ اوپر وقت گزارنے والا مجھ سا طالب علم بھول کیوں گیا اس کتاب کا حصول۔ کافی دیر سے سوچ رہا ہوں
احمد سہیل نصراللہ کا تعلق اسی یو ایم ٹی سے ہے وہ وہاں علمی مجلسیں سجاتے ہیں ان علمی مجلسوں کے حال احوال سے سوشل میڈیا کے توسط سے آگاہ ہوتا رہتاہوں۔
گزشتہ روز احمد سہیل نصراللہ اپنے دو ساتھیوں سمیت آئے اور خوب مجلس آرائی ہوئی ۔ ملکی سیاست، معاشی حالات اور غیرریاستی عسکریت پسندی کے موضوعات پر ان کے سوالات کا انبار تھا اور طالب علم نے جواب توفیق کے مطابق عرض کئے۔
محترمہ سلمیٰ اعوان کی تصنیف ’’عالمی ادب کی فروزاں قندیلیں‘‘ انہوںنے ہی عنایت کی۔ ایک دوپہر ان کے ساتھ ہوئے مکالمہ سے پررونق ہوئی اور شام اس عنایت کردہ کتاب سے۔ کتاب کے مطالعہ کے دوران ہی یہ المناک اطلاع ملی کہ پشاور کی پولیس لائن کی مسجد میں نماز ظہر کے دوران ہونے والے خودکش دھماکے میں 104 کے قریب پولیس اہلکار شہید اور 221 سے زیادہ زخمی ہوگئے۔
دکھ ہے گہرا دکھ، خون بہہ رہا ہے۔ انسانی جانوں کی ہمارے یہاں کوئی قیمت نہیں۔ غیرریاستی عسکریت پسندی کی مذمت کرتے وقت ہمارے چار اور موجود بوزنے حملہ آوروں اور مقتولین کے عقیدے دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ مذمت کرنی ہے یا بس یہ کہہ دینا ہے کہ دہشت گردی کے اسباب سمجھنے کی ضرورت ہے۔
مجھ سے قلم مزدور کا ایک دکھ یہ بھی ہے کہ پچھلی تین چار دہائیوں کے دوران بہت سارے تعلق دار اور پیارے جہاں اس دہشت گردی کا رزق ہوئے وہیں کچھ احباب ترک تعلق کرگئے۔ تعلق توڑنے والے کہتے تھے میں قاتلوں اور مقتولوں کی شناختیں لکھتا ہوں حالانکہ یہ بھی لکھ سکتا تھا کہ پاکستانی مارے گئے۔
میرا موقف تھا کہ آخر کیوں قاتلوں اور مقتولوں کی شناخت پر پردہ ڈالنے کا جرم کمایا جائے۔
محترمہ سلمیٰ اعوان کی کتاب کا پہلا باب پڑھتے ہوئے طالب علم کے سامنے ایک سوال منہ پھیلائے آن کھڑا ہوا۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے ہاں نزار قبانی جیسے چندے آفتاب نے جنم کیوں نہ لیا۔ ہمارے حالات، زخموں، لاشوں، نوحوں کو کسی نے اپنی شاعری کا موضوع کیوں نہ بنایا۔
یہ خالِ رخ یار، زلف یار، ملکوتی تبسم، حسن کامل کی باتوں سے بھری شاعری، ہجرووصال کے قصے کاش ہمارے ہاں بھی کوئی نزار قبانی ہوتا اور کہتا
’’ہمیں ایک ایسی ناراض نسل چاہیے جو جوش و جذبے سے معمور ہو، جو آسمان میں تہلکہ مچانے پر قادر ہو، جو تاریخ کی بنیادوں کو ہلادے، ہمیں ایک نئی نسل کی ضرورت ہے جو گھٹنوں کے بل نہ جھکے۔ ہمیں جنوں جیسی نسل چاہیے جو ہماری شکست پر غالب آسکے‘‘
ایسا نہیں کہ نزار قبانی نے ذکرِ یار سے بھری شاعری نہیں کی ہاں یہ ضرورہے کہ اس نے چار اور کے لوگوں کے درد کو محسوس کیا۔ اشرافیہ کے کج بے نقاب کئے۔ حکمرانوں کی مصلحتوں کا پردہ چاک کیا۔ حکمران طبقات کی سامراجی اطاعت گزاری پر لفظوں کے تیر چلائے۔ تیر نشانے پر بھی لگے۔
اس نے کہا
’’عرب بچو، ساون کے قطرو، ہمارے بارے میں مت پڑھو، ہمارے نقش قدم پر مت چلو، ہم دغاباز اور تماشا گروں کی قوم ہیں۔ عرب بچو، آنے والے کل کو بتادو، تم ہماری زنجیریں توڑ ڈالو گے ” کاش ہمارا کوئی نزار قبانی کہتا لکھتا
’’ہمارے بچو، منبروں سے ہوتے وعظ، کمہار کی آوی پر ہوتی کوزہ گری، سیاست دانوں کے فریب مسلسل اور، بندوق برداروں کے پیٹ، یہ سب تمہارے حصے کے رزق اور سوچ پر ڈاکہ ہیں۔ ہمارے بچو، تم اٹھو، اور چیخ کر کہہ ڈالو ۔ زہریلی خطابت، کہہ مکرنیوں سے عبارت، سیاست، اپنوں کو فتح کرنے کے جنون میں گندھی بندوق برداری، تعصبات کو کوزہ گری کہنا، یہ سب کھلا فراڈ ہے۔ بیسوائوں کے جھمیلوں میں وقت بیتاتی اشرافیہ، تو بس فساد کی جڑ ہے۔ تم نفرت کی ان جڑوں کو کاٹ دو۔ محبتوں کے شجر لگائو تاکہ آئندہ نسلیں، ان شجروں کے سائے میں سکون سے بیٹھیں‘‘۔ ( فقیر راحموں )
باردیگر سلمیٰ اعوان کا شکریہ کہ ان کے توسط سے کرہ ارض کے روشن فہم صاحبان علم کو پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ پھر یہ عرض کروں گا اگر شخصیات کے تعارف میں کچھ مزید لکھا جاتا تو بہت اچھا ہوتا طالب علموں کو مزید پڑھنے کے ساتھ کچھ اور معلومات بھی ملتیں۔
مثلاً نزار قبانی کے ذکر کو ہی لے لیجئے اگر ان کا سوانحی خاکہ تین چار صفحات پر مشتمل ہوتا تو روشنی اور پھیلتی۔ سلمیٰ اعوان نے لکھا
’’نزار قبانی نے سلجھے ہوئے انداز میں، مذہب، ملا، خدا اور معاشرے پر تنقید کی اس نے سمجھانے کی کوشش کی کہ نیم خواندہ مذہبی معاشرے کے لوگوں نے کیسے ایک خوبصورت مذہب کو بے روح پریکٹس اور تنگ نظری کا مرقع بنادیا‘‘۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ یہی سب کچھ ہمارے چار اور ہورہا ہے۔ خوف اور ترغیب، سزا اور نجات، حقیقت سے زیادہ یہ منافع بخش کاروبار ہیں۔
اس کاروبار کے بڑھاوے کی بڑی وجہ معاشرے کی اکثریت کا ناخواندہ ہونا ہے۔ کیا یہ ناخواندگی روایتی تعلیم سے ختم ہوگی یا تحصیل علم سے؟ ہمیں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی زحمت کرنا ہوگی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ