نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مریم نواز کا دورہ بہاولپور!!۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر مریم نواز نے بہاولپور میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب مسلم لیگ (ن) کی باری ہے، ملک میں اب نواز شریف کے سوا کوئی چوائس نہیں۔ دیکھا جائے تو اس وقت ملک میں (ن) لیگ ہی برسراقتدار ہے، اپنی جگہ پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ اب اس کی باری ہو گی لیکن باری کا لفظ ہی غیر جمہوری ہے کہ جمہوری حوالے سے اقتدار اس کا حق ہوتا ہے جو انتخاب میں کامیابی حاصل کر کے آئے، باری کا لفظ غیر جمہوری آمرانہ سوچ کا غماز ہے۔ مریم نواز کہتی ہیں کہ جن حالات سے ملک گزرا شکر کرنا چاہئے کہ پاکستان بچ گیا، مہنگائی کا احساس اور افسوس ہے لیکن پاکستان کو بچا لیا۔ ملک بچانے والی منطق سمجھ سے بالاتر ہے کہ ملک اس وقت بھی ڈیفالٹ کے قریب ہے ، ڈالر ، سونا اور مہنگائی کم ہونے کی بجائے کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں، اس وقت ملک میں مہنگائی کا 47 سالہ ریکارڈ ٹوٹ چکا ہے ،صرف اس بات کا اظہار کر دینا کافی نہیں کہ مہنگائی کا احساس ہے۔ غریب لوگوں کا پیٹ صرف سیاسی بیانات سے نہیں بھرتا، مہنگائی کنٹرول کرنے کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے ۔ مریم نواز نے بہاولپور میں اپنے خطاب کے دوران بہاولپور کی تہذیب و ثقافت ، پاکستان کیلئے بہاولپور کی خدمات اور بہاولپور کی پسماندگی کے خاتمے کیلئے اقدامات کا کوئی ذکر نہیں کیا جس سے بہاولپور کے لوگوںکو دکھ اور افسوس ہوا ہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ محترمہ مریم نواز کو ایک چادر پہنائی گئی جسے روایتی شال کا نام دیا گیا حالانکہ وسیب کی پہچان نیلے رنگ کی سرائیکی اجرک ہے مگر (ن) لیگ کی مقامی قیادت وسیب کی شناخت سے قربت پیدا کرنے کی بجائے دوری کا اظہار کرتی ہے جس کے باعث (ن) لیگ میں اپنائیت کا فقدان نظر آتا ہے، یہ بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں مگر ان کے اثرات بہت گہرے ہوتے ہیں ۔ محترمہ مریم نواز نے بہاولپور کے دورہ کے بعد ملتان آنا ہے ، دیکھنا یہ ہے کہ ملتان کے دورے کے دوران وہ اس خطے کی تہذیب اور ثقافت سے کس قدر اپنائیت کا اظہار کرتی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنی شہادت سے تین روز قبل 24 دسمبر 2007ء کو بہاولپور میں جلسہ سے خطاب کیاتھا جہاں محترمہ بینظیر بھٹو نے بہاولپور کی تہذیب و ثقافت اور خدمات کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا تھا ، اس سے ایک دن قبل رحیم یار خان کے جلسہ میں بھی انہوں نے دریائے سندھ پر نشتر گھاٹ کی تعمیر سمیت وسیب کے مسائل کے علاوہ وہاں کی تہذیب و ثقافت کا بھر پور تذکرہ کیا تھا۔ بہاولپور کی تہذیب و ثقافت کے حوالے سے یہ بتانا ضروری ہے کہ بہاولپور ایک بہترین اور لاجواب خطہ ہے، بہاولپور کا چولستان اپنی مثال آپ ہے اور بہاولپور میں انٹرنیشنل چولستان جیپ ریلی کے انتظامات بھی مکمل ہو چکے ہیں، اندرون اور بیرون ملک سے آنے والے افراد سب سے پہلے خطے کی تہذیب و ثقافت کے بارے میں جاننا پسند کرتے ہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ خطہ بہاولپور اپنی تاریخ اور جغرافیائی اہمیت کے اعتبار سے سیاحوں کیلئے بھی ہمیشہ ہی وجہ کشش رہا ہے اور ایسے مشہور زمانہ سیاح جنہوں نے بر صغیر کے مختلف علاقوںکی سیاحت کی ہے انہوں نے اس خطے میں بھی قدم رکھے اور یہاں کے ثقافتی، معاشی اور سیاسی پہلوؤں کا مطالعہ کر کے اپنے تاثرات کتابی صورت میںشائع کئے ہیں ، ان سیاحوں کی بہاولپور آمد کا سلسلہ قبل از مسیح شروع ہو کر زمانہ حال تک جاری ہے۔ سب سے پہلا سیاح جو یہاں آیا وہ Nerchus تھا جو سکندر اعظم کا درباری تھا جس نے اس خطے میں سکندر مقدونی کی فتوحات کا ذکر اپنے سفر نامہ میں کیا ہے۔ وہ پانچ دریاؤں کا ذکر کرتا ہے جن کے قریب سکندر اعظم کا قیام تھا، یہ جگہ اوچ شریف تھی ، جس کے نام اس نے اپنے نام پر سکندریہ رکھا تھا ۔یونانی کتابوں میں سکندر کے نام سے جو شہر ملتے ہیں ان میں ایک نام اوچ شریف کا بھی تھا جسے سکندر نے اپنے نام سے منسوب کیا۔ اوچ شریف بہاولپور کا ایک قدیم شہرہے، اس بارے بتاتا چلوں کہ اوچ شہر کنارے کسی زمانے میں دریائے سرسوتی و گھاگھرا بہتے تھے۔ اوچ کو کئی ناموں سے یاد کیا جاتا تھا ،یہ بہت تاریخی شہر ہے کسی زمانے میں یہ شہر بدھ مت اور پر ہندو مت کا گڑھ تھا۔ ہندو راجہ کی تین بیٹیاں تھیں،جن کے درمیان اوچ کے گردو نواح کا علاقہ برابر تقسیم کر دیا گیا تھا ۔ اوچ کے قریب ایک کنواں تھا جو جادو کے زور سے چلتا تھا ۔ پانی خود بخود بہتا تھا ، کنویں سے رام رام کی آوازیں آتی تھیں ، اس بزرگ نے ایک واقعہ بھی بیان کیا کہ اوچ کے مکین اس واقعہ کو من و عن تسلیم کرتے ہیں۔’’چچ نامہ‘‘ سندھ کے حالات پر پہلی تاریخی ، مستند کتاب ہے ، اس کتاب میں انگریزوں ، مسلمانوںاور بین الاقوامی تاریخ دانوں نے بہت استفادہ کیا ۔ یہ کتاب اوچ شریف کے ایک باشندے ہی کی تخلیق ہے ۔ ’’ طبقات ناصری‘‘ کے مصنف منہاج اسراج جنہیں ہندوستان میں مستند تاریخ دان مانا جاتا ہے اور مسلمان و غیر مسلمان ان کی تصنیف کو یکساں اعتماد سے دیکھتے ہیں اوچ کے مدرسہ فیروزیہ میں مدرس تھے۔قدرتی طور پر صدیوں بعد اوچ کو ایک بار پھر سے اہمیت حاصل ہو گئی ہے کہ سی پیک کا روٹ اوچ سے ہی گزر رہا ہے اور ملتان اوچ شریف دو رویہ سڑک کا منصوبہ بھی زیر تکمیل ہے ، اب اوچ سمیت وسیب کی عظمت رفتہ کو پھر سے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ بہاولپور کے اضلاع رحیم یار خان ، بہاولنگر اور بہاولپور بہت قدیم ہیں، بڑی بات یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی تحصیلوں کو اضلاع کے درجے دئیے گئے مگر ایک سو سال سے وسیب کے یہ اضلاع ترقی نہیں پا سکے۔ بہاولپور میں کم از کم دو نئے ڈویژنوں اور تین نئے اضلاع کی ضرورت ہے۔ ریاست بہاولپور میں پتن منارا کو خاص اہمیت حاصل ہے۔سکندر اعظم اوچ فتح کرنے کے بعد ایک نئی مملکت میں داخل ہوا جس کا صدر مقام ’’پتن منارا‘‘ تھا ۔ یہ رحیم یارخان کے قریب واقع ہے ۔ سکندر اعظم کے مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ سکندر یہاں کے لوگوں کی شائستگی اطوار اور نظم و نسق سے بہت متاثر ہوا۔

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author