یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بتایا جاتا ہے کہ لارڈ بائرن اپنے بھانجے کا باپ بھی تھا اور اپنی بیوی کے بھانجے کا بھی۔ جوناتھن سوئفٹ نے اپنی محبوبہ کو اکثر خطوط میں احمق، رنڈی، چھنال، فاحشہ، پسندیدہ کتیا جیسے القابات سے نوازا۔ والٹ وہٹمین کے نوعمر آرتھر رمبا اور شاہ حسین کے کم سن مادھو کے ساتھ تعلقات کے متعلق ہم سبھی نے سن رکھتا ہے۔ ایسی مثالوں نے شعرا کو ایک خبط میں مبتلا کر دیا کہ بددماغی، غیر انسانی رویہ اور شہوانی تجربات شاعرانہ جینئس کا لازمی جزو ہیں، بلکہ اگر بڑا شاعر بننا ہے تو کہیں لڑ پڑو، کہیں گالیاں دینے لگو، کہیں شراب کے بہانے اُلٹ جاؤ، کہیں دست درازی کر دو تو شاید آپ کا جینئس زیادہ جلدی مانا جائے گا۔
’’انسانی حقوق‘‘ کا تصور قائم ہو جانے کے بعد 1950ء کی دہائی میں حالات تیزی سے بدلے۔ اور ہمارے معاشرے میں شاید ابھی تک نہیں آیا۔ یہاں شعرا کی سیاسی نابالغی، موقعہ پرستی، ٹھرک، موقع محل دیکھے بغیر تندخوئی کا مظاہرہ یا دکھاوا ابھی تک جاری ہیں۔ یہ عناصر اُن کے جینئس (جتنا اور جیسا بھی ہو) کو گھٹاتے نہیں، لیکن بڑھاتے بھی نہیں۔
ذرا سوچیے کہ شاہ حسین اور مادھو لال جدید دنیا کے باشندے ہوتے تو مائیکل جیکسن کی طرح اُن کا بھی کیس چلتا۔ جوناتھن سوئفٹ اور بائرن کسی ہراسمنٹ سے متعلقہ معاملے کی زد میں آئے ہوتے۔ مائیکل جیکسن کی طرح والٹ وہٹمین بھی تادیبی کارروائی کا نشانہ بنتا، یا کلنٹن کی طرح دستوئیفسکی یا کئی اردو کے شعرا سے پوچھ گچھ ہوتی۔
نیز یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بہت سے قصے علامتی تھے یا بعد میں وضع کیے گئے، جیسے نیوٹن کے سر پہ سیب کا گرنا۔ اب سماجی ذمہ داری (اخلاقی ذمہ داری پر لعنت بھیجیں) کے بغیر شاعر کو بھونڈا ہی سمجھا جائے گا، بالخصوص اُس صورت میں جب شاعری بھی مانگے تانگے کے خیالات اور استعاروں سے جوڑ کر کھڑی کی گئی ہو۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر