یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ناول کی بدقسمتی کی بھی عجب داستان ہے۔ یونس حسرت ایک جریدہ شائع کیا کرتا تھا جس میں خوشونت سنگھ کے اِس ناول کو غالباً قسط وار چھاپنا شروع کیا۔ اور کتابی شکل میں بھی چھاپ دیا۔
بعد میں ایک ناول نگار عرفان احمد نے بھی دعویٰ کیا کہ اصل مترجم وہ ہے۔ معاملہ یہاں تک بگڑا کہ بات تھانے تک جا پہنچی، کیونکہ دونوں دعویداروں نے ایک دوسرے کے خلاف تھانے میں درخواست دے دی۔ تھانیدار نے فریقین کو بلوا لیا، اور عرفان احمد سے پوچھا: اگر تم ترجمہ کرنا جانتے ہو تو ابھی یہاں ایک صفحہ ترجمہ کر کے دکھا سکتے ہو؟ وہ بوکھلا گیا، اور بولا: لیکن میں ایک صفحے کے دو سو روپے لوں گا۔ اِس پر تھانیدار نے کافی سخت الفاظ استعمال کر کے اُسے وہاں سے چلتا کر دیا۔
یہی ناول ایک دو اور ناموں سے بھی شائع ہوا۔ جب میں نے گزشتہ برس اِس کا ترجمہ شروع کیا تو پہلے سے موجود تراجم کو بھی سامنے رکھا۔ میرے ہوش اُڑ گئے۔ اِس عمدہ ناول کے ساتھ جو سلوک کیا گیا تھا، وہ نہایت شرم ناک تھا۔ زیادہ شرم ناک بات یہ ہے کہ پہلے والے، مختون، مسخ شدہ اور نہایت ناقص ترجمہ اب بھی دھڑلے سے چھاپا جا رہا ہے۔ دُکان دار نے تو مرچیں بیچنا ہوتی ہیں، چاہے اُن میں لکڑی کا برادہ ہی ملایا گیا ہو۔ وہ تو سرخ نام کا مصالحہ ہی بیچتا ہے۔
آپ جوتے، کپڑے، مصالحے اور دیگر چیزیں خریدتے وقت کئی قسم کی کسوٹیاں لاگو کرتے ہیں۔ لیکن کتاب خریدتے وقت ایسا کرنا ممکن نہیں، کیونکہ پڑھنے کے بعد ہی اندازہ ہوتا ہے۔ لہٰذا شعبے کے متعلقہ لوگوں سے رائے لے لینا اچھا رہتا ہے۔
میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ یہ مفت بھی ملے تو گریز کریں، کیونکہ پڑھنے پر خرچ ہونے والا وقت بھی قیمتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر