حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بجلی کا ایسا ہی بریک ڈائون پچھلے برس غالباً 10 جنوری کو ہوا تھا تب عمران خان وزیراعظم تھے اس بار بریک ڈائون 23جنوری کو ہوا اب شہباز شریف وزیراعظم ہیں۔
پچھلے برس انجمن محبان جاتی امرا شریف نے تبدیلی سرکار کے لئے لطاف گھڑے اس بار ٹائیگرز نے پی ڈی ایم اور اتحادیوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ بنی گالوی دوستوں کا یہ لطیف بہت وائرل ہوا کہ ’’آئی ایم ایف نے قرضے کی قسط نہ دینے پر پاکستان کا بجلی کا میٹر اتارلیا ہے جس سے بجلی کی سپلائی معطل ہوگئی ہے ‘‘۔ فقیر راحموں سے ان کے ایک دوست نے پوچھا
’’فقیر سائیں بجلی کیوں چلی گئی؟ جواب دیا یہ سب عمران خان سے دوری کا نتیجہ ہے ۔ بجلی کی سپلائی مکمل طور پر ابھی بحال نہیں ہوئی۔ تین دن کی شیخوپورہ یاترا کے بعد کچھ دیر قبل جوہر ٹائون لاہور واپس آئے ہیں۔ بجلی نہیں ہے پتہ نہیں کب سے۔ فی الوقت یو پی ایس چل رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر لطائف دوڑائے جارہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ یہ بریک ڈائون اب سالانہ عرس یا برسی کی طرح مستقل ہوگا۔ پچھلے برس بھی کوئی پہلا بریک ڈائون نہیں ہوا تھا۔ سال دو سال بعد عالم اسلا کے ایٹمی قلعہ میں یہ تماشا ہوتا ہے۔ ایٹم بم سے لیس اسلامی دنیا کی ایٹمی طاقت کے رنگ ڈھنگ وکھرے ہیں۔ سازشی تھیوریاں اور لطاف گھڑنے میں ہمارا مقابلہ کون کرسکتا ہے۔ ہم ساہو تو کوئی سامنے آئے۔ آئے گا کون؟
کیا ہمارا کسی سے مقابلہ بنتا بھی ہے۔ معاف کیجئے گا ہمارے افغان دوست بھی اب نخوت و حقارت کے ساتھ بات کرتے ہیں ان میں سے اکثر وہی ہیں جو کچھ عرصہ پہلے لبرل تھے آج کل دیندار ہیں۔ ایک چہرے پر کئی چہرے سجارکھے ہیں ان دوستوں نے۔ ہر چہرہ نخوت و تکبر لئے ہوئے ہے۔
پچھلی شب کابل میں مقیم دوست مختار اللہ درانی کہہ رے تھے ’’شاہ جی تم لوگ ہمارے نام پر چالیس پینتالیس برس کماتے کھاتے رہے اب وہ تمہارے آقا بھاگ گئے تمہیں چھرڑ کر دیکھو اپنے ملک کی حالت کیا ہے‘‘۔
میرا جی چاہا کوئی کڑوی کسیلی بات ان کی طرف اچھالوں پھر ارادہ ملتوی کردیا۔ میاں محمد بخشؒ کے دو اشعار یاد آئے لکھ نہیں سکتا پشتون دوست ناراض ہوجائیں گے۔
ویسے ہم تھے تو ایسے ہی جیسے مختار اللہ درانی نے کہا البتہ ہم نہیں ہماری بالادست اشرافیہ اور بالخصوص اسٹیبلشمنٹ جس کی امریکہ نواز افغان پالیسی نے ہمیں گہرے گھائو لگوائے۔ ہمارے ’’بڑوں‘‘ کو بھی شونقِ تھانیداری بہت تھا۔ اب بھگتیں۔
دو اڑھائی ارب ڈالر ہر ماہ افغانستان سمگل ہوتے ہیں۔ اشیائے ضروریہ کی سمگلنگ الگ ہے۔ چند ماہ قبل وفاقی کابینہ کو بتایا گیا تھا 35 لاکھ ٹن گندم افغانستان سمگل ہوئی۔ افسوس کہ کسی وزیر مشیر نے نہیں پوچھا کہ سمگلنگ روکنے کا فرض کس کا تھا الٹا کابینہ کے اسی اجلاس میں افغانستان کو مزید گندم فراہم کرنے کی منظوری دی گئی۔
پچھلے چالیس پینتالیس برسوں میں ہمارے بڑوں نے جس جس افغان گروپ کے سرپر دست شفقت رکھا وہ الحمدللہ کچھ عرصہ بعد ہماری جان کا ویری ہوا۔ حامد کرزئی اور اشرف غنی کے ادوار میں بھی ٹی ٹی پی کے ذریعے پراکسی کھیلی گئی۔ موجودہ افغان حکومت تو خیر سے ٹی ٹی پی کی نظریاتی حلیف اور دنیاوی سرپرست ہے۔
افغان حکام اپنی حدود سے پاکستان میں دراندازی کے لئے خاردار باڑیں اکھاڑنے کے عمل کی نگرانی ہی نہیں کرتے رہے بلکہ دو تین تقاریر کی ویڈیوز بھی یوٹیوب پر موجود ہیں سن لیجئے۔ برادران اسلام کیا فرماتے رہے ان تقاریر میں۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ ہمارے بڑوں نے افغانستان کے لئے اپنے ملک کا بیڑا غرق کرلیا اور ملال بھی نہیں۔
ایک عزیز نے چند دن قبل کہا
’’سال 1977ء سے اب تک گریڈ سترہ اور اس سے اوپر کی بیوروکریسی، ججوں، جرنیلوں اور تین درجے نیچے کے افسروں کے ساتھ جہادی ملائوں، سیاستدانوں بالخصوص ارکان اسمبلی، وزیر اور مشیر بننے والوں کی تمام جائیدادیں سرکار تحویل میں لے لے چاروں صوبوں میں ایک ایک کمیشن قائم کریں جن کی جائیدادیں تحویل میں لی جائیں وہ 6ماہ کے اندر ان جائیدادوں کے ’’سکہ بند حلال‘‘ ہونے کے ثبوت پیش کریں اور مالک بن جائیں جو ثبوت پیش نہ کرسکیں ان کا مال و اسباب ملکی خزانہ میں جمع کردیا جائے‘‘۔
عرض کیا آپ بھی وہ کام بتارہے ہیں جو اس ملک میں قیامت تک نہیں ہونا۔ کیوں انہوں نے دریافت کیا؟ عرض کیا وہ مثال تو آپ نے سنی ہی ہوگی ’’بھینسیں بھینسوں کی بہنیں ہوتی ہیں‘‘ بس یہی ایک وجہ ہے۔ دور بدلتے ہی صرف چہرے بدلتے ہیں کردار اور رشتہ دار وہی ہیں ایسے میں کون اپنے چچا ماموں، خالو، بہنوئی اور سالے صاحب کے خاندان کو مشکل میں ڈالے گا۔ معصومیت سے بولے میں سمجھا نہیں۔
عرض کیا خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ اپنے صوبے کے 9بڑے سیاسی اور متمول خاندانوں کے رشتہ دار ہیں اس سے بات سمجھ لیجئے۔ یہاں سبھی کچھ کاروبار ہے صرف سیاست کو کاروبار کہنے والے دوسری اقسام کے تاجروں کی پردہ پوشی کرنے کا فرض ادا کرتے ہیں۔
چلئے کالم کے اس دوسرے حصہ میں عمران خان کے تازہ دعوے پر بات کرلیتے ہیں ’’قبلہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ پنجاب کا نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی میرا بدترین دشمن ہے اس نے میری حکومت گرانے کی کوشش کی اسے وزیراعلیٰ ان لوگوں نے بنایا ہے جنہوں نے میرے اوپر کاٹا لگایا ہے۔ یہ بھی ارشاد ہوا کہ سیاستدانوں پر کاٹا لگانے سے ملک کو نقصان ہوتا ہے‘‘۔
ابھی کل کی بات ہے جب باجوہ، کھوسہ، ثاقب نثار وغیرہ نے میاں نوازشریف پر کاٹا لگایا تھا قبلہ عمران خان نے مداحین کے ہمراہ خوب دھمال ڈالی بہت سارے دھمالیوں کے گھنگرو ٹوٹ گئے۔ تب بھی ان سطور میں عرض کیا تھا سیاستدان ایک دوسرے پر کاٹا لگوانے کے لئے جب تک اداروں کا سہارا لیتے رہیں گے سیاسی استحکام نہیں آئے گا۔
خیر جو سازش امریکی صدر جوبائیڈن سے شروع ہوئی تھی وہ اب پاکستان میں درجہ دوئم کے ایک میڈیا ہائوس کے مالک کے کردار تک آپہنچی ہے۔ ان ارشادات پر وہ لطیفہ یاد آیا تھا جو دوسری جنگ عظیم کے دنوں سے منسوب ہے۔
’’کہتے ہیں جبری بھرتی کے لئے سرکاری اہلکار ایک بستی میں پہنچے۔ فتو میراثن کے کڑیل بیٹے کو فوج میں بھرتی کے لئے منتخب کرلیا۔ فتو میراثن کو پتہ چلا تو سینہ کوبی کرتی ہوئی اس جگہ پہنچی جہاں بھرتی کرنے والے اہلکار بیٹھے تھے۔ وہاں پہنچ کر کہنے لگی
"وے منڈیو میرے پتر نوں کیوں فوج اچ بھرتی کرلیا جے ؟ "
ایک اہلکار نے کہا اماں، ملکہ برطانیہ کے خلاف دشمنوں نے جنگ چھیڑدی ہے تمہارا بیٹا ملکہ کے تاج اور حکومت کی حفاظت کرے گا۔ فتو مائی بولی، ” وے منڈیو جے گل میراثیاں دے بال تک ای اپڑ آئی وے تو ملکہ نوں کہو صلح شلح کرلئے شریکاں نال‘‘۔
بس عمران خان سے بھی یہی عرض کرنا ہے کہ حضور جوبائیڈن اور امریکہ سے شروع ہوئی سازش اگر محسن رضا نقوی تک آن پہنچی ہے تو بندہ پرور صلح شلح ہی کرلیجئے اب۔
لیجئے کچھ خبریں اور بھی ہیں مثلاً سٹیٹ بینک نے شرح سود میں ایک فیصد اضافہ کرتے ہوئے 17فیصد شرح سود کردی ہے۔ ادھر ڈالرز کے ذخائر 4ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ شرح نمو بارے کہا گیا ہے کہ 2فیصد برقرار رہنا بھی مشکل ہوگا۔ اگلے ماہ چینی بینک کو 30کروڑ ڈالر کا قرضہ واپس کرنا ہے 20کروڑ ڈالر کا ایک سود دینا ہے یعنی مزید پچاس کروڑ ڈالر کم ہوجائیں گے۔
ملک میں ڈالر آنہیں رہا۔ افغانستان ڈالر کی سمگلنگ روکی نہیں جاسکی۔ حالات بہرطور اچھے بالکل نہیں ادھر پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کے طور پر سید محسن رضا نقوی کی تقرری پر عمران خان اتحادی ق لیگ اور محبان عمران کا شور تھم نہیں رہا ایک کالعدم فرقہ پرست تنظیم کی ’’واہی تباہی‘‘ کو انصافی بلاسوچے سمجھے شیئر کرتے جارہے ہیں۔
آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ فلاں عقیدے کا مسلمان وزیراعلیٰ یا وزیراعظم وغیرہ نہیں بن سکتا۔ ہم ایسے طالب علم تو ہمیشہ اس بات کے حامی رہے ہیں کہ جو شخص بھی پاکستان کی جغرافیائی حدود میں بستا ہے وہ پاکستان میں کسی بھی منصب پر فائز ہوسکتا ہے۔
بدقسمتی کہہ لیجئے کہ ہمارے ہاں تعصبات کا دوردورہ ہے۔ محسن نقوی کی تقرری میں اگر کسی معاملے میں ملکی قانون مانع ہے تو عدالت کو فیصلہ کرنے دیجئے لیکن اس کی مسلکی شناخت کو لے کر جو اودھم مچایا جارہا ہے وہ درست نہیں۔
یہ حساس معاملہ ہے سیاسی جماعتوں کو اس طرز عمل اور تعصب کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ جہاں تک ایک دو کالعدم تنظیموں کے شور کا تعلق ہے تو اس ضمن میں یہی عرض کرسکتا ہوں کہ آج اگر علامہ اقبال زندہ ہوتے تو یہ ان کے بھی خلاف ہوتیں مخالفت کے حق فائق کے لئے ان کے فارسی کلام کو پیش کرتیں اور اگر محمدعلی جناح صاحب حیات ہوتے تو سوچئے کالعدم مذہبی تنظیموں کا ان کے بارے میں کیا کہنا ہوتا۔
اسی لئے باردیگر عرض ہے کہ لوگوں کوان کی مسلکی شناخت پر نشانہ بنانے کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ تحریک انصاف والے خوشی کے ساتھ حارث سٹیل مل والا معاملہ عدالت میں لے جائیں لیکن خدا کے لئے کالعدم فرقہ پرست تنظیموں کے پروپیگنڈے کو آگے نہ بڑھائیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر