رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برطانیہ اور برطانوی وزیراعظم آج کل پھر سوشل میڈیا پر زیر بحث ہیں۔ بھارتی نژاد برطانوی وزیراعظم بنا تو بحث چھڑ گئی تھی کہ بھارت کے شہریوں میں ایسی کیا خاص ہے کہ برطانیہ کے وزیراعظم یا پھر امریکہ کی نائب صدر بھی بھارتی اوریجن کی خاتون بن جاتی ہے۔اب وہی برطانوی وزیراعظم ہمارے ہاں ڈسکشن میں ہیں کہ انہوں نے سیٹ بیلٹ نہیں باندھی ہوئی تھی تو لندن پولیس نے ان کا چالان کر دیا۔ہمارے ملک میں یہ بڑی خبر ہے کہ آخر گوروں نے کیسے اپنے ملک کا وزیراعظم ایک بھارتی اوریجن کے شخص کو لگا دیا۔ وہ ہندوستان اب برطانیہ کے فیصلے کرتا ہے جس کے بارے گوروں نے اپنے کلب کے باہر بورڈز لگا رکھے تھے کہ ڈاگ اور انڈینز کو اندر آنے کی اجازت نہیں۔ اب کلب چھوڑیں پورے ملک یا سلطنت کا کنٹرول ایک ہندوستانی کو دے دیا۔ اپنے پرانے محکوم عوام میں سے ایک کو اپنا سردار مان لیا جیسے امریکیوں نے اوبامہ کو مان لیا ‘ حالانکہ1960 ء کی دہائی تک کسی امریکن افریقن کو بس میں سیٹ پر بیٹھنے تک کی اجازت نہ تھی۔جسے بس میں نہیں بیٹھنے دیتے تھے‘ اسے امریکن ایک دن اٹھا کر وائٹ ہاؤس لے گئے کہ سنبھالو اور چلائو۔اوبامہ نے ایسا امریکہ چلایا کہ دو دفعہ صدر بنا۔جب آٹھ سال بعد گھر جانے لگا تو بھی اس کی اپروول ریٹنگ اتنی زیادہ تھی کہ اگر وہ تیسری دفعہ امریکہ کا صدارتی الیکشن لڑتا تو ٹرمپ کو باآسانی ہرا سکتا تھا۔ جب ہم یہ باتیں سنتے یا پڑھتے ہیں توسوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ بھارت کے لوگ بیرونِ ملک یہ کام کرسکتے ہیں تو ہم پاکستانی کیوں نہیں۔ اس طرح جب ہر بڑی کمپنی کا سربراہ بھی بھارتی لگتا ہے تو بھی ہمیں تپ چڑھ جاتی ہے کہ ہمارے نوجوان دنیا بھر کی اہم کمپنیوں یا اداروں کے سربراہ کیوں نہیں ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے اوورسیز پاکستانی امریکی یا برطانوی یا یورپین سیاست میں دلچسپی کے بجائے پاکستان کی سیاست میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔وہ مقامی معاشروں میں ترقی کر کے وہاں کے لوگوں کا اعتماد جیت کر ان کا صدر یا وزیر اعظم بننے سے زیادہ پاکستان میں اپنی پسند کے وزیراعظم کی تلاش اور اس پر ڈالر لٹانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔آپس میں وہاں گروپ بنا کر ایک دوسرے سے لڑتے ہیں۔اس کے مقابلے میں بھارتی شہری‘ جنہیں بھارت دہری شہریت نہیں دیتا‘ وہ وہاں خود کو ان معاشروں میں ایڈجسٹ کرتے ہیں۔ وہ ہندوستان کی اندرونی سیاست میں دلچسپی کم رکھتے ہیں اور یوں وہ ان معاشروں میں ڈھل جاتے ہیں۔ ہم پاکستانیوں یا مسلمانوں سے یورپین معاشروں اور حکومتوں کو ویسے شکایات رہتی ہیں کہ ہم ان کے معاشروں میں ایڈجسٹ نہیں ہوتے۔ ہم وہاں اپنی کلچرل اور مذہبی شناخت برقرار رکھنا چاہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مقامی لوگوں اور ہمارے درمیان ایک خلیج بن جاتی ہے جسے عبور نہیں کیا جاسکتا۔ اگرچہ گوروں کو ہماری مذہبی یا کلچرل شناخت سے کوئی مسئلہ نہیں بلکہ الٹا ہمیں ان سے مسئلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ گورے اور یورپین اپنی شناخت‘ مذہب اور کلچرل ماحول چھوڑ کر ہماری روایات کو اپنا لیں کیونکہ ہمیں اپنی اولادوں کے خراب ہونے کا ڈر ہے اور پھر ہم زبردستی انہیں اپنے رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں کٹ کر رہ جاتے ہیں۔شاید ہی کبھی اورکسی مذہب یا قوم کے لوگوں نے یورپ میں اپنی شناخت کیلئے اتنی لڑائی لڑی ہو جتنی ہم لڑتے ہیں۔ بھارتی حکومت کا یہ درست فیصلہ تھا کہ اگر آپ نے کسی ملک کی شہریت لے لی ہے تو آپ اُس ملک کے وفادار رہیں‘ اس ملک میں اپنا رول ادا کریں‘ خود کو وہاں ایڈجسٹ کریں‘وہاں کی سیاسی پارٹیوں میں شامل ہوں اور اوپر پہنچ کر بھارت کا نام اونچا کریں اور اس وقت برطانیہ اور امریکہ میں اعلیٰ سیاسی عہدوں پر بھارتی بیٹھے ہیں۔
بھارت نے اپنے اوورسیز کا سیاسی رشتہ اپنے ملک سے کاٹ دیا ہے جس وجہ سے وہ وہیں ایڈجسٹ ہوتے ہیں۔وہ کسی کلچرل یا مذہبی تضاد کا شکار نہیں ہوتے‘ اب ان کا جینا مرنا انہی ملکوں میں ہے جہاں کا انہوں نے حلف لیا ہے۔ اب وہ بھارتی نہیں بلکہ امریکی‘ برطانوی یا یورپین شہری ہیں اور وہ اپنا سیاسی قد کاٹھ وہیں بڑا کرتے ہیں۔ وہ بھارت میں کوئی سیاسی رول ادا کرنے کے قابل نہیں رہے‘ان کو ووٹ کا حق نہیں ہے۔یہی اوورسیز بھارتی ہر سال ستر ‘اسی ارب ڈالرز کا زرِمبادلہ بھارت بھیجتے ہیں لیکن پھر بھی ان کو بھارت نے اپنی شہریت سے محروم رکھا ہے۔جب تک ہمارے پاکستانی بھائی بیرونِ ملک وہاں کے معاشروں میں ایڈجسٹ ہونے کے بجائے صرف مشہور کانگریس مین یا سینیٹر کو گھر بلا کر کھانا کھلانے یا چند ہزار ڈالرز کا چندہ دے کر اپنے ساتھ فوٹو کھنچوانے کو بڑا کارنامہ سمجھتے رہیں گے اور پاکستان میں مسلسل اپنی سیاسی ترجیحات کا دفاع کرتے رہیں گے وہ امریکہ کے نائب صدر یا برطانیہ کے وزیراعظم نہیں بن سکیں گے۔
وہ ان ملکوں میں محض اپنی مشہوری کے لیے چند کانگریس مین کو چندہ دے کر اپنا کارنامہ سب کو سناتے رہیں گے۔ آپ کسی بھی پاکستانی کو ملیں گے اسے پاکستانی سیاست پر ماہر پائیں گے۔ مان لیا یہ ان کی ملک سے محبت ہے لیکن پاکستان کو زیادہ فائدہ اس میں ہے کہ وہ وہاں کی پالیٹکس میں انڈینز کی طرح ٹاپ پر ہوں۔ سب حیران ہیں کہ کیسے برطانوی وزیراعظم کا چالان ہوگیا۔ ہمارے ہاں ایسی باتوں پرحیرانی پائی جاتی ہے کیونکہ یہاں قانون سے بالاتر رہنے کیلئے سیاستدان اور حکمران بنا جاتا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے یہ سب لوگ جو کسی کی جان لے کر یا اپنی دے کر سیاستدان اور حکمران بنتے ہیں وہ قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں؟عمران خان کا فیورٹ ٹاپک یورپ رہا ہے۔ وہاں قانون اور جمہوری اداروں کی مثالیں دے دے کر قوم کو یقین دلا دیا کہ اگر وہ وزیراعظم بنے تو نیدرلینڈز کے وزیراعظم کی طرح سائیکل پر وزیراعظم آفس جائیں گے۔ اب پتا چلا جب وہ وزیراعظم بنے تو ہیلی کاپٹر سے نیچے نہیں اترے اور اس کا بِل45 کروڑ روپے کے قریب قوم کی جیب سے ادا ہوا ۔
یاد آیا کہ2018ء میں وزیراعظم عمران خان کو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے تھے اور عثمان بزدار کو شاید آٹھ دن بھی نہیں ہوئے تھے کہ رات کو ننگے پائوں چلتے ایک خاتون کو ساہیوال کے قریب پٹرولنگ پولیس نے روکا کہ خیریت ہے۔پتا چلا وہ خاتونِ اول کی عزیزہ تھیں۔ خاور مانیکا کو پولیس نے اسلحہ سمیت ناکے پر روکا تو اس نے بندوقیں تان لیں۔ اگلے دن ڈی پی او رضوان گوندل اور آر پی او شارق صدیقی کو لاہور بلا کر احسن جمیل گجر نے عثمان بزدار کی موجودگی میں انکوائری کی کہ جرأت کیسے ہوئی روک کر پوچھنے کی۔ رضوان گوندل کو فورا ًہٹا دیا اور تین سال کہیں پوسٹنگ نہ لینے دی گئی۔اتنی دیر لگی تھی ہر بات میں مغرب کی مثالیں دینے والوں کو کہ وہ قانون پر عمل کرنے والے افسران کو عبرتناک مثال بنا دیں۔
ابھی جس طرح زرداری‘ شہباز شریف ‘ اسحاق ڈار‘ حمزہ شہباز اور دیگر نے مل جل کر اپنے سکینڈ لز نیب سے سیٹل کرالیے ہیں کیا یہ سب کچھ برطانیہ یا یورپ میں ممکن تھا؟ یہ سب کچھ صرف پاکستان میں ممکن ہے جو اپنے مخالف پر اپنی اخلاقی برتری ثابت کرنے کے لیے مغرب کی مثالیں دے کر خود کو فرشتہ اور مخالف کو شیطان ثابت کرتے ہیں لیکن وقت پڑنے پر پاکستانی رنگ میں ڈھل کر بادشاہ بن کر حکمرانی کرتے ہیں۔مغرب کی مثالیں محض تقریروں میں ٹچ کے لیے دی جاتی ہیں ورنہ جس پولیس فورس نے رات گئے ننگے پائوں جی ٹی روڈ پر خاتون اور ناکے پر خاور مانیکا کو روکا تھا انہیں میڈل ملتے نہ کہ انہیں نشانِ عبرت بنایا جاتا۔
مغرب کی مثالیں صرف آپ کو چونا لگانے کے لیے دی جاتی ہیں کیونکہ اس قوم پر چونے کا رنگ بڑی تیزی سے چڑھتا اور نکھرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر