رضوان ظفر گورمانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو ادب کی تاریخ اب سینکڑوں برس کی ہو چکی ہے اور شاعروں کے مقام کو لے کر تنازعوں کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے۔
اک دور تھا جب غالب جیسا شاعر میر کے مقام کو تسلیم کرتا تھا۔ غالب اور ذوق میں چھتیس کا آنکڑہ تھا کسی نے غالب سے دوسرے شعرا کے پسندیدہ اشعار سنانے کی فرمائش کی غالب نے ذوق کا اک شعر سنایا تو سامعین چونک اٹھے اور اپنے تئیں معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ مرزا صاحب یہ تو ذوق کا شعر ہے۔ مرزا اسد اللہ خان غالب نے کہا میری ذوق سے لڑائی ہو سکتی ہے میری شعر سے کیا لڑائی۔ سبحان اللہ
آج کل روایتی اور جدید اردو شاعری کے درمیان بلکہ لکھنے والوں کے درمیان ایک سرد جنگ کا ماحول دیکھنے کو ملتا ہے۔
تہذیب حافی، مژدم خان اور علی زریون جیسے شعرا جدید شاعری کے نمائندہ کہلائے جاتے ہیں اور ان پہ تنقید کرنا فیشن سا بن چکا ہے۔ ان کو ٹک ٹاکرز کے شعرا کہا جاتا ہے۔ ان کے ٰعوامی شعروں کو بنیاد بنا کر ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ شعروں کو سطحی قرار دیا جاتا ہے موبائل ایس ایم ایس اور جینز جیسے الفاظ استعمال کرنے پہ ان کو اردو شاعری کے زوال کا سبب قرار دیا جاتا ہے۔
اب میرا یہاں اک سوال ہے زمانہ ان دہائیوں میں صدیوں کی رفتار میں آگے بڑھ رہا ہے۔ آج شاعر کبوتر کے پنجوں میں چٹھیاں باندھ کر بھیجتے یا قاصد کے ہاتھ سندیسے اور خطوط بھیجتا بالکل نہیں جچتا۔ آج موبائل اور ویڈیو کالز اور ایس ایم ایس ہی کا دور ہے۔ بڑا شاعر تو اپنے دور سے بھی دہائیوں آگے کی شاعری کرتا ہے حافی لوگ تو اپنے زمانے کی ہی شاعری کر رہے ہیں۔ آج ایٹم بم ہائیڈروجن بم کا دور ہے آج شاعر تیروں اور نشتر سے گھائل ہوتا سمجھ نہیں آتا۔
دوسرا اعتراض ان شعرا پہ بولڈ انداز اور محبوبہ سے بوس و کنار پہ مشتمل شعروں پہ ہوتا ہے۔ میرے ناقص علم کے مطابق شاعری میں اس صنف کو ’معاملہ‘ کہتے ہیں۔ ماضی کے جدید شعرا نے بھی ایسے شعر کہے ہیں۔ اور روایت پسند کتنا عرصہ محبوب کو مذکر کے صیغے میں استعمال کرتے رہے آج شاعری ارتقا کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ ایسے اشعار شاعر کے مقام کو کم نہیں کرتے جون ایلیا چھاتیوں کے تن تناؤ اور ظفر اقبال صاحب ’برا‘ کے خریدار ہونے کے باوجود جون ایلیا اور ظفر اقبال ہی ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری سے خود کو ثابت کیا اور اس کے بعد ایسے اشعار بھی کہے جنہیں آپ معاملہ یا عرف عام میں سطحی قرار دے سکتے ہیں۔
اک طرف تو اردو شاعری عشق و محبت کے زندانوں سے نکل آئی ہے اور آج کل افکار علوی جیسے نوجوان شاعر اپنی شاعری میں معاشرے کی برائیوں، اچھائیوں اور ہر طرح کے مسائل کا احاطہ کر رہے ہیں، دوسری طرف روایت پسند عروض و اوزان کے ترازو لے کر ہر معروف شاعر کے پیچھے پھر رہے ہوتے ہیں ادھر ترازو کے پلڑوں میں ذرا سی اونچ نیچ ہوئی ادھر فٹ سے یہ لوگ ان شعرا کو لسٹ سے خارج کر دیتے ہیں۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ عروض اوزان اور اس طرح کی پابندیاں تو چند صدیوں پرانی بات ہے جبکہ شاعری ہزاروں سال سے ہو رہی ہے تو ان عروض سے پہلے کے شعرا کو آپ شاعر نہیں مانیں گے؟
شاعر اپنے آس پاس کے ماحول کو شاعری کی زبان میں قارئین تک پہنچا رہا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ طریقہ بہت ہی عمدہ ہے۔ سوشل میڈیا نے شاعر کی پہنچ اور شعر کے سفر کو آسان کر دیا ہے۔ خالد ندیم شانی کے شعر مجھ تک پہلے پہنچے جب کہ شانی بھائی سے ملاقاتیں بعد کا قصہ ہیں اسی طرح اردو کے ممتاز شاعر ممتاز گورمانی کے چند اشعار میں نے ہندوستان کے اک ریڈیو پہ پہلے سنے اور ان سے دوستی کا تعلق بعد میں استوار ہوا۔
آج سے دو دہائیاں قبل یہ ذرائع نہیں تھے ہر شاعر کی پہنچ بڑے شہروں ریڈیو یا ٹیلی ویژن تک نہیں تھی وہ کمرشلائزڈ نہیں ہو سکے اور گمنامی کے اندھیروں میں کھو گئے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج فیس بک ہے ٹک ٹاک ہے یوٹیوب ہے اور ہمیں برصغیر پاک و ہند کے شعرا کو براہ راست سننے کے مواقع مل رہے ہیں۔
جدید اردو شاعری شاعر کو یہ اجازت دیتی ہے وہ بحر و عروض کا پابند رہ کر اپنی مرضی سے کوئی بات غزل میں کہہ سکے۔ چونکہ ہر شخص کا اپنا خیال ہے اور انداز بیاں بھی، سو کیا ہر شاعر کو یہ اجازت نہیں کہ وہ اپنے خیال کو اپنے انداز میں قارئین تک پہنچائے؟
کیا روایتی طریقہ شاعر کو مشکلوں سے دوچار نہیں کرتا؟ کیا اردو شاعری کو جدید اور ماحول سے ہم آہنگ بنانا درست نہیں تا کہ وہ زیادہ توجہ حاصل کر سکے۔
کیا روایتی طریقہ آج کل کے جدید قاری کو متاثر کرتا ہے؟
کیا یہ درست نہیں کہ جدید قاری کو جدید شاعری کی ضرورت ہے جو اس کو درپیش حالات اور اس کے آس پاس کے ماحول سے مطابقت رکھتی ہو؟
کیا روایتی شاعری آج کل کے جدید معاشرے سے پچھڑی ہوئی نہیں ہے؟
یہ چند سوال یہ سمجھانے کے لیے کافی ہیں کہ آپ بھلے ان کو استہزائیہ لہجے میں ٹک ٹاکرز کا شاعر قرار دیں مگر سچ یہ ہے کہ یہ آج کے متعلقہ شاعر ہیں یہ نوجوانوں میں مقبول ہیں اور ایسا کر کے آپ حافی جیسے بے پناہ شاعر کے مقام کو گھٹا نہیں سکتے۔ تہذیب حافی کا ہی اک شعر ہے
اس کی زباں میں اتنا اثر ہے کہ نصف شب
وہ روشنی کی بات کرے اور دیا جلے
کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پہ تہذیب حافی کی اک تصویر زیر بحث ہے جو تہذیب حافی نے خود اپنے انسٹاگرام پیج پہ لگائی تصویر میں وہ اک حسینہ کی زلفوں سے کھیل رہے ہیں۔ اک خاص طبقے نے اس تصویر کو لے کر وہ گرد اڑائی کہ حافی کو وہ تصویر ڈیلیٹ کرنا پڑ گئی۔
حافی پہ تنقید کی جا رہی ہے کہ جیسے حافی نے خدانخواستہ فحاشی کی حد پار کر دی ہو یا حافی خواتین کو سیکس اوبجیکٹ سمجھتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ میں حافی کو جانتا ہوں میری تہذیب حافی سے ملاقاتیں ہیں میں نے حافی کے ساتھ سفر کیا ہے کھانا کھایا ہے حافی کے ساتھ گھنٹوں وقت بتایا ہے حافی کے ساتھ شام منائی ہے
تہذیب حافی اک حساس شاعر ہے محبتوں سے لبریز اک انسان۔ جسے ثروت کی خودکشی کا دکھ ہے جو ان کے دکھ میں ریل کی پٹڑی تک نہیں بنانا چاہتا عاشق بنتا ہے تو جون بن کر فارحہ سے بے انتہا محبت کا دم بھرتا ہے معشوق بنتا ہے تو امرتا بن کر ساحر کے عشق میں رنگ جاتا ہے۔ حافی کا کلام دیکھیے
اگر خدا نے بنانے کا اختیار دیا
علم بناؤں گا برچھی نہیں بناؤں گا
میں دشمنوں سے اگر جنگ جیت بھی جاؤں
تو ان کی عورتیں قیدی نہیں بناؤں گا
اب خود بتائیے جو دشمن کی عورتوں کو بھی قیدی بنانے پہ معترض ہے کیا وہ عورت کو سیکس اوبجیکٹ سمجھ سکتا ہے؟ جو پیڑ سے جنگل سے محبت کا دم بھرتا ہے وہ کتنا حساس ہو گا۔ اک طرف ہمسایہ ملک بھارت ہے کہ وہاں کے مشہور و معروف سنگرز اداکار جیسے امرت مان ایمی ورک وغیرہ ہیں جو تہذیب حافی کی شاعری کو اپنے گانوں کا حصہ بنا کر ان سے ملاقاتیں کر کے ان کو بانہوں میں بھر کر ان کے بلند مقام کی گواہی دے رہے ہیں اک طرف ہم ہیں جو ذرا سی پرسنل سپیس دینے کو تیار نہیں۔
سمجھنے کی بات صرف اتنی ہے کہ شاعر ہمیشہ سے عاشق، حسن پرست، ناصحین کا باغی شیخ سے بے زار اور محبتوں کا اسیر رہا ہے مگر کچھ لوگ ان سے پیش امام کا کام لینا چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
ملکی مسائل کا واحد حل۔۔۔رضوان ظفر گورمانی
ریاستیں کیوں بنائی جاتی ہیں؟۔۔۔رضوان ظفر گورمانی
تخت لہور اور سرائیکی وسیب کے سرائیکی محافظ۔۔۔رضوان ظفر گورمانی
محرم کلیکشن،امام حسین کے کاپی رائٹس اور ہم سب۔۔۔رضوان ظفر گورمانی
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی