یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’مرے ہوؤں‘‘ کی یاد میں منتشر خیالات
ہماری ریاست نے موت کو زندگی کا پیمانہ اور کسوٹی بنایا ہے۔ کس+وٹی شاید گھسنے والی وٹی کی بدلی ہوئی صورت ہے جس پر سُنار سونے کو رگڑ کر اُس کا خالص پن جانچتے ہیں۔ ہمارے ہاں موت کی نوعیت ہی انسان کے ’درجات‘ کا تعین کرتی ہے۔ یہ جتنی بہیمانہ، ظالمانہ، ہیبت ناک اور جتنی زیادہ سفاکانہ ہو گی، مرنے والے کا درجہ اُسی قدر بلند ہو جائے گا۔
ہماری زبان بھی اِس سیاست میں برابر کی حصہ دار ہے: واصلِ جہنم، آنجہانی، جاں بحق، ہلاک، شہید وغیرہ زبان کی جانب سے دیے جانے والے مختلف تمغے ہیں جو آکاش کے منطقوں میں تصوراتی پرواز کرتی ہوئی روح کو تفویض کیے جاتے ہیں۔ ’سادہ‘ موت کے تو جنازے بھی مختصر ہوتے ہیں۔ جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے۔
ہماری تاریخ کی رگوں میں اب خون رہا ہی نہیں۔ موت نے اتنی بار زندگی کو طے کیا کہ دونوں نے ایک دوسرے کو زائل کر دیا۔ فرائیڈ نے Todestrieb جبلت مرگ کی بات کی تھی۔ قدیم یونانیوں کے دو جُڑواں بھائی دیوتا تھاناٹوس اور ہپناس تھے۔ تھاناٹوس پرسکون موت اور ہپناس نیند کا دیوتا تھا۔ اُن دونوں کا کوئی باپ نہیں تھا، لیکن ماں کا نام Nyx یا رات تھا۔
ہم کوئی ناکارہ اور فضول لوگ نہیں۔ دنیا بھر کی تاریک تمثیلات اور علامات میں ہمیں اپنا ذکر مل جائے گا۔ ہم کائی ہیں جو تہذیب اور عقل کے بڑے بڑے پتھروں کو بھی پھسلا اور لڑھکا دیتے ہیں۔ ہم انسانیت کے آئینے کا حصہ ہیں، اُس کے پچھلی طرف لگے زنگار کی طرح۔
(تصویر: تھاناٹوس یعنی پرسکون موت اور اُس کا بھائی نیند۔)
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر