حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ملتانی برادر عزیز میر احمد کامران مگسی کہتے ہیں ’’کسی دن فقیر راحموں کو ساتھ والے کمرے میں سلاکر کالم شالم لکھیں تاکہ ہم لوگ جان پائیں خود شاہ جی کیا لکھتے ہیں‘‘
پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں تو لکھنا آتا ہی نہیں فقیر راحموں کے خیالات کو تحریر کی شکل میں پروتے نصف صدی گزرگئی اس عمر میں اب کیا لکھیں گے ہم۔ دوسری بات یہ ہے کہ فقیر راحموں کو اللہ سائیں سلائیں تو سلائیں ہم سے یہ ’’نیک کام‘‘ نہیں ہوپائے گا۔
اس کی بھی دو وجہ ہیں، پہلی یہ کہ اگر فقیر راحموں استراحت پر آمادہ ہوگئے تو لائبریری کی رونق ہی نہیں بلکہ ہم خود بھی آدھے ادھورے رہ جائیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پھر ہم اداریہ اور کالم لکھتے ہوئے کس کے فرمودات و ارشادات اور تجزیوں کا سہارا لیں گے۔
طوطے میں جان والی کہانی تو آپ نے (میر صاحب) سنی ہی ہوگی بس یوں سمجھ لیجئے کہ اس میں ہماری جان ہے۔ یہ نہ ہوتے تو زندگی کا اب تک کا سفر طے نہ ہوپاتا۔
ویسے ہم نے انہیں 55سال قبل دریافت کیا تھا۔ سکول کے دنوں میں بچوں کی جو ابتدائی کہانیاں لکھیں وہ اسی نام سے لکھی تھیں۔ اگر خود ہمیں اپنا نام رکھنے کا اختیار ہوتا تو فقیر راحموں ہی رکھتے۔
ہمیں اس نام سے سرائیکی وسیب کی مٹی، تہذیب و ثقافت اور تاریخ کی سوندھی سوندھی خوشبو آتی ہے۔ پوری کی پوری مقامیت ہے اس میں اور انفرادیت بھی۔
خیر پچپن سال قبل جب سے یہ دریافت ہوئے تب سے ہمارے گلے کا ہار ہیں۔ ہار بھی احترام میں لکھا ہے ورنہ ڈھول ہی ہیں ہم جیسے سیدھے سادھے اور قدامت پسند خاندان کے بالک کو گمراہ کرنے میں ان کا بہت زیادہ کیا کامل ہاتھ ہے۔
ان کے زمینی و آسمانی جھگڑوں میں ہم بلاوجہ فریق کے طور پر رگیدے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہ ہم جنرل ضیاء الحق کو محمود غزنوی ثانی سمجھتے تھے وہ تو فقیر راحموں نے ہمیں ان کی اردن میں ڈالی گئی فلسطینیوں کے خلاف واردات بارے مطلع کیا تب ہم نے سوچا کہ اگر واقعی وہ بلیک ستمبر کے دو کرداروں میں سے ایک ہیں (دوسرے کردار خاقان عباسی مرحوم تھے) تو پھر کیا ہوا۔
بادشاہوں کی خوشنودی کے لئے لشکری افسروں نے کیا کیا نہیں کیا اور خود بادشاہوں نے کیا نہیں کیا۔ وہ تو ہمارے لڑکپن اور جوانی کے اولین محبوب ادیبوں میں سے ایک ابن انشا نے لکھا تھا ’’اورنگزیب عالمگیر اتنے باصفا اور دیندار تھے کہ انہوں نے کوئی نماز قضا کی نہ تہجد چھوڑی اور الحمدللہ باپ اور بھائیوں سے بھی پورا پورا انصاف کیا‘‘۔
ابن انشا کی اس بات نے ہمیں حیران و پریشان کردیا کیونکہ نصابی کتب اور اساتذہ نے تو بتایا تھا کہ اورنگزیب عالمگیر ایک سچے دین دار اور قناعت پسند حکمران تھے وہ ٹوپیاں سیتے پھر انہیں دہلی کی بادشاہی مسجد کے باہر نماز جمعہ سے قبل سٹال لگاکر فروخت کرتے تھے اسی آمدنی سے گزراوقات تھی لیکن جب ابن انشا کے خیالات ان کے بارے میں پڑھے تو پریشان ہوکر سوچا اب کس کی بات مانی جائے۔ تاریخ اور استادوں کی یا ابن انشاء کی؟
اس پریشانی کو دور بلکہ دفع دور کرنے کے لئے تاریخ کے اوراق کھنگالے تو سمجھ میں آیا حد سے زیادہ دینداری کی تبلیغ کرانے والے بادشاہ ہوں یا کوئی اور وہ اصل میں اپنے جرائم کی پردہ پوشی کے لئے مذہب کی آڑ لیتے ہیں۔
معاف کیجئے گا بات کچھ دور نکل گئی۔ اب اورنگزیب عالمگیر مرحوم یا ان کے ان ہمدردوں سے شکوہ کیا کریں جو انہیں ایک دیندار فرض شناس اور عوام پرور بادشاہ کہتے لکھتے ہیں۔
ہمارے ایک دوست مسعود اکرم خدا ان کی مغفرت فرمائے کہا کرتے تھے اگر مغلوں کی تاریخ میں اورنگزیب عالمگیر نہ ہوتے تو متحدہ ہندوستان میں قیامت تک سب اچھا رہتا۔
مسعود اکرم بھی اصل میں فقیر راحموں کے ہی ہم خیال تھے یعنی ہماری طرح انجمن محبان دارا شکوہ کے جماندرو رکن رکین۔ بات فقیر راحموں کی ہورہی تھی ہم نے تو ایک بار پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے وردی پوش سربراہ کے نام کھلے خط میں یہ تک لکھ دیا تھا کہ ماضی میں ہم نے اسٹیبلشمنٹ اور اس کے طبلچیوں کی جتنی بھی مخالفت کی وہ ان کے پڑھائے سکھائے پر کی ورنہ ہم تو اپنے والد بزرگوار کے سابق محکمے سے بہت ’’زیادہ‘‘ محبت کرتے ہیں۔
اس محبت میں ہم نے جو بھوگ بھوگے وہ ان کے بہکائے پر بھوگے۔ خیر اصل قصہ بہرحال یہی ہے کہ فقیر راحموں کو الگ کردیں تو شاہ جی کا کچھ بچتا نہیں۔
وہ پڑھاکو آدمی ہیں کتابیں پڑھ کر ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ درست بلکہ حرف بحرف درست ہے اور یہاں مصنف نے ڈنڈی ماری۔ تاریخ ان کی اچھی ہے۔ مطلب یہ کہ تاریخ پر ان کا تقابلی مطالعہ ہمارے بہت کام آتا ہے۔ ایک اور فائدہ ان کی یاری و دلداری کا یہ ہوا کہ دنیا کے پیچھے بھاگنے کی بجائے کتابوں سے دوستی کرلی۔
یہ الگ بات ہے کہ ہماری خاتون اول کو ہمیشہ یہ شکوہ رہا بلکہ اب بھی ہے کہ ہم فضول خرچ بہت ہیں کتابوں پر پیسے خرچ کرتے ہیں اچھا کہنے کو وہ یہ بھی کہتی ہیں سگریٹوں پر اڑائے پیسے جمع کئے ہوتے تو مشکل میں کام آجاتے مگر اس کا کیا کریں کہ جب بھی مشکل پڑی فقیر راحموں کے سجن بیلی بھاگ کر مدد کو آگئے۔
اس کا ساتھ غنیمت ہے۔ اتنا غنیمت کے کیا بتائوں اور لکھوں اس وقت بھی موصوف چوکڑی جمائے کتاب سنبھالے صوفے پر جلوہ افروز ہیں۔ ہم نے یہ کالم لکھنا شروع کیا تو بولے شاہ جی آج کیا لکھنا ہے۔
عرض کیا میر احمد کامران مگسی کی ایک فرمائش کا جواب۔ بولے اچھا ہے ضرور لکھو بڑے بلکہ اپنے عصر کی نابغہ روزگار شخصیت کا فرزند ہے علم دوست اورترقی پسند بھی ہے۔ وہ مزید تعریفوں پر مُصر تھے کہ ہم نے انہیں بتادیا کہ کامران میاں کہتے ہیں کسی دن فقیر راحموں کوساتھ والے کمرے میں سلاکر خود کالم وغیرہ لکھیں تاکہ ہم جان سکیں کہ شاہ جی کیا لکھتے ہیں۔ اس جواب پر ان کے چہرے پر جو رونق ناچی اس کا لفظوں میں بیان بہت مشکل ہے۔
بس یہ کہتے ہوئے کتاب کی طرف متوجہ ہوگئے ’’اچھا وہ بھی جانتے ہیں کہ شاہ اس فقیر کے بغیر کچھ بھی نہیں‘‘۔
یہ فقیر راحموں ہی ہے جس کی وجہ سے ہمیں پچھلی نصف صدی سے لوگوں کی کڑوی کسیلی باتیں سننا پڑتی ہیں۔ اس کا ہر کام الٹ ہے۔
خیر بہت سارے شوق مشترکہ بھی ہیں انہیں اور ہمیں مرشد بلھے شاہؒ محبوب ہیں اور مرشدوں کا مرشدؐ بھی اور ان کا مرشد اعلیٰؐ بھی۔ کتابیں پسند ہیں پڑھنے میں ہم بخیلی نہیں کرتے جو کتاب مل جائے پڑھ لیتے ہیں۔ دوست مشترکہ ہیں بلکہ ان کے دوستوں کا حلقہ وسیع ہے۔
فقیر راحموں کی طرح ہمیں پیروں اور مخدوموں کے مقابلہ میں ملامتی صوفیاء محبوب ہیں۔ فقیر اندر سے نیم نیم پپلا بھی ہے۔ پیپلزپارٹی کے لئے اس کے نرم گوشے کی وجہ سے ہمیں لوگوں کی باتاں سننا پڑتی ہیں ان دنوں تو کچھ زیادہ سننا پڑرہی ہیں کیونکہ ہمارے بہت سارے عزیز و رشتہ دار اور انقلابی و نیم انقلابیوں سمیت محبان مختار ملت وغیرہ وغیرہ بنی گالوی ہوچکے اور یہ بنی گالوی عزیز رشتہ دار دوست انقلابی و نیم انقلابی ہوں یا محبان مختار ملت یہ سارے ہمیں اکثر اوقات سمجھاتے رہتے ہیں کہ عمران خان نے نئی نسل کو شعور دیا ہم موروثی سیاست کے ناقد ہیں۔
میں نے ایک دن اپنے ایک عزیز سے کہا مورثیت تو آسمانی مذہب کا خاصا ہے پھر بھی اگر مولوی کا بیٹا مولوی، ڈاکٹر کا ڈاکٹر فوجی کا فوجی بننا چاہتا ہے اور بنتا بھی ہے تو سیاستدان کے بیٹے یا بیٹی سیاستدان بنتے ہیں تو برائی کیا ہے۔
کہنے لگے ان کا تجربہ کیا ہے۔ قبل اس کے کہ میں جواب دیتا فقیر راحموں بولے یار اگر تجربہ ہی شرط ہوتا تو تمہارے تبدیلی قائد صاحب کرکٹ میچوں کی کمنٹری میں کیوں ناکام رہتے۔
سیاست چیز دیگر است۔ خیر عین ممکن تھا کہ پھڈا ہوجاتا ہم نے موضوع بدلنے میں عافیت جانی۔ فقیر راحموں کو ایک ہی وقت میں اے این پی، پیپلزپارٹی اور قوم پرست پسند ہیں۔ کبھی کبھی میں انہیں بتاتا ہوں کہ قوم پرستوں کی اکثریت پیپلزپارٹی کی مخالف ہے جواب ملتا ہے یہی تو شخصی آزادی ہے۔
آج کل فقیر راحموں کے ایک دوست پیر ضامن علی شیرازی اور اس میں اکثر پانی پت کی تیسری جنگ چھڑی رہتی ہے۔ فقیر جتنا پیپلزپارٹی کا حامی ہے پیر شیرازی اس سے ارب ہا درجہ زیادہ بنی گالوی ہے۔
بات شروع ہوئی تھی فقیر راحموں کو دوسرے کمرے میں سلاکر خود سے کالم لکھنے کی۔ بات بلکہ فرمائش اچھی ہے پوری کیسے کریں اس کے بغیر تو ہم ’’ککھ‘‘ کے نہیں یہ ساری "ٹورٹھار ” اسی کے دم سے ہے۔
البتہ فقیر کو ایک شکوہ رہتا ہے وہ یہ کہ حالات حاضرہ اور تاریخ و ادیان پر میں اس کا انٹرویو نہیں کرتا۔ وہ جب بھی ایسی فرمائش کھڑکاتے ہیں عرض کرتا ہوں ابھی مجھے شہادت کا شوق نہیں چرایا۔
اس جواب پر فقیر کی پھرکی گھوم جاتی ہے۔ گھومتی ہے تو گھومتی رہے اب صرف اس کا شوقِ انٹرویو پورا کرنے کے لئے تو ہم شہادت کو گلے لگانے سے رہے۔
پھر بھی سوچتے ہیں کہ ان کے انوکھے خیالات کو جمع شمع کرکے ان پر کالم لکھ ہی دیں اس کے بعد جو ہوگا دیکھا جائے گا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر