محبوب تابش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مح
بچپنے میں جینے کے کئی خواب سہانے دیکھے۔خواہشوں کے کئی محل سرا بناۓ۔وقت کے ساتھ سارے ایک ایک کر کے دھڑام سے گرتے اور بکھرتے رہے کیا خواب کیا خواہشیں۔پھر اس کے بعد کتابوں اور دوستوں کا سہارا بچا جو ابھی تک قائم دائم ہے۔
جب سے حقیقت موت کا ادراک ہوا زندگی ہمارے لئے بہت بیکار کی کوئی شے معلوم ہونے لگی۔حیف ھے تو اس بات کا پھر بھی شوق ھے جئے جانے کا۔ شاید اس جئے جانے کی ایک بڑی وجہ بھی دوست اور کتاب ہوں وگرنہ یار جن کے متر و سجن مر جائیں جو شفقت پدری سے محروم ہوں جن کی مائیں عدم سدھار جائیں بھلا وہ بھی کوئی جیتے ہوتے ہیں۔
یہ تمہید طولانی بھی کار ذکر یک دوست و دوستی من آنجناب پروفیسر نجیب اللہ انجم ( میرے بچپن کا جیپا) پرنسپل گورنمنٹ بوائز ایف جی کالج اسلام آباد کہانی اس فرد فرید و فروزاں کی کچھ یوں ھے کہ ہم دونوں سرائیکی وسیب کی ایک نہایت دور افتادہ بستی کے مکیں اور لنگوٹیے ہیں۔ہمارے صغیر سن کے کئی بے ریا موسم محبتوں کے رس میں گندھے بصورت ایک جان دو قالب گزرے ہیں۔ وقت کا بے رحم و سفاک دھرا اس برق رفتاری سے چلا کہ ہم بہم سانس سانس جینے والے فراق کی وحشت ناک آندھیوں میں حالات کی فضا میں خار وخس کی طرح بہہ گئے۔
نجیب میڑک کا امتحان پاس کرنے کے بعد کوئٹہ چلا(کیونکہ ان کے سب سے بڑے بھائی تب کئی عشروں سے(اپنی نوکری کی غرض سے) کوئٹہ میں مقیم تھے۔یوں نجیب نے اپنی ایم ایس سی کی تعلیم کویٹہ ہی سے مکمل کی ۔ادھر ہم کالج میں داخل ہو کے بھی اپنے گاؤں کے مکیں رھے۔ گاؤں سے کالج روانہ کی بنیاد پر ہم شہر آتے جاتے۔اب نجیب ملاقات خطوں کے ذریعے رہتی یا پھر جب وہ سال میں ایک سے دو بار عیدوں پہ گاؤں آتا تو ملنا نصیب ہوتا۔یونیورسٹی سے فراغت کے ایک دو سال بعد ہی نجیب کی اسلام آباد کے ایک فیڈرل کالج میں بطور لیکچرار ریاضی تعیناتی ہو گئی ۔
اب ہمارےخطوں کو بلوچستان کے ہیبت ناک سنگلاخ پہاڑوں کے بجاۓ پوٹھوہار کے مرغزاروں کا سفر در پیش آگیا تھا مگر نجیب سے ربط و ملاقات کا سلسلہ نہیں ٹوٹا۔ اسلام آباد کی نوکری نے نجیب کو بہت جلد مزوج (شادی شدہ) کر دیا۔ اب ان کے شادی شدہ ہونے کو کوششیں کہ اپنی قسمت کو نجیب سے ملاقاتوں کا سلسلہ آہستہ آہستہ موقوف ہوتا گیا۔وقت نے ایک کروٹ بدلی تو عالم رنگ و بو کا تمام ناک نقشہ بدل کے رکھ دیا۔ہم تیرہ و سیاہ بختوں سے ملاقاتیں تو پہلے ہی چھن گئیں تھیں ۔نہ ہی کوئی خط رہا نہ خطوں والے۔اب وہ خطوں کی ملاقاتیں بھی قصہ پارینہ ہوئیں ۔اب تو نجیب گاؤں بھی کسی مرگ و شادی خاص میں آتا تو آتا ۔یا کبھی ہم اپنی آوارگی سے مجبور مارگلہ کی پہاڑیوں پہ جا نکلتے تو کوئی سبیل ملنے کی پیدا ہوتی۔ وقت کا بے لگام اسہپ بھلا کب کسی کے قابو میں آیا ہے ۔اس دوران ہم نے بھی کئی کام اور مقام بدلے مگر دوست نہیں۔اب حالات نے ہمارے ساتھ کچھ رعایت برتی لی کہ ہم سال میں کم سے کم ایک مرتبہ اسلام آباد ضرور جاتے تو عمومی قیام نجیب کے ساتھ ہی ہوتا۔وہاں ہماری سب سے بڑی عیاشی مختلف مقامات سے کتب کی خریداری ہوتی۔باوجودیکہ نجیب کو کتابوں سے بہت بڑا ھے مگر پھر بھی نہ صرف میرے ساتھ کتابوں کی تلاش کرتا بلکہ اکثر و بیشتر کتب خریدنے میں بھی میری دل کھول کے معاونت کرتا۔
یوں ہی حیات بے کار کے دن کٹتے چلے جا رہے تھے کہ باری باری ہم دونوں والدین ایسے بے لوث رشتوں سے محروم ہوۓ۔قدرت کو لگا کہ اس گھاؤ نے شاید ہمارا کچھ نہیں بگاڑا پھر ہم دونوں کو باری باری اپنے بڑے بھائیوں سے بھی محروم کردیا۔ابھی اس کی پوری طرح سے تاب ہی نہ لا پاۓتھے کہ ہر دو اپنے بہنوئی بھی گنوا بیٹھے۔بچپن سے اب تک کے سفر میں ہمارا بہت کچھ ایک سا اور مشترک ھے یہاں تک کہ صدمے بھی البتہ نجیب تو ماسٹرز کی ڈگری پاتے ہی سرکار کا نوکر ہوا اور ہم ڈاکٹریٹ کر کے بھی ابھی تک تو اس کے اہل نہ ہو سکے۔چند برس پہلے ہم بھی حبس دوام میں ا پھسے تو وہ اسلام آباد جانے والی سالانہ روایت بھی دم توڑ گئی۔امسال وقت کے بے قابو دھرے نے ہمیں پھر اسلام آباد پھینک دیا۔ وہاں اترے تو پیارے جیپے کی طرف سے گاڑی اور ڈرائیور ہمیں لینے کو پہلے سے موجود تھے۔اس رات نجیب کے گھر میں اس کے کچھ قریبی رشتے دار قیام پذیر تھے جس کی وجہ سے وہ ہمیں رات کو نہ ملے لیکن ہمارے قیام و طعام بہت ہی عمدہ اہتمام کر رکھا تھا انگلی صبح جب ہم ملے تو وہ مجھے اپنے کالج لے گئے۔یہاں میری ملاقات پہلی بار پرنسپل ایف جی بوائز کالج اسلام آباد پروفیسر نجیب اللہ انجم سے ہوئی۔تب مجھے کتنی خوشی ہوئی ‘ میری اس خوشی کے بیان کو سارے الفاظ روکھے سوکھے پھیکے اور ادھورے ہیں۔کیونکہ میرے سامنے اس خدائی ریاست کے سب سے مرکزی شہر کے ایک وفاقی سرکاری کالج میں میرا لنگوٹیا بطور پرنسپل بیٹھا ہوا تھا۔
میں ایک مرتبہ پھر کوہ سیلمان کے دامن میں سانس لیتی ڈیرہ غازی خان کی بے امان بستی میں پہنچ گیا جہاں ہم کبھی کندھوں پہ تو کبھی گدھوں پہ پانی بھر کر لا رھے تو کبھی لکڑیاں چننے جا رھے تو کبھی گھاس کاٹ رھے تو کبھی ساتھ والے گاؤں میں چکی سے اٹا پسوا کر لا رہے ہیں کبھی گندم کی کٹائی میں جٹے ہیں تو کبھی اپنے دیسی کھیلوں میں مشغول و منہمک۔ہاں مگر آج میرا یار اس ویرانے اور اجاڑ بن سے ننگ پاؤں چل کر کتنی مسافت کر چلا تھا اور وہ بھی محض محنت ومیرٹ کے بل پر یہ الگ سے خوشی کی بات تھی۔ میں آج جس قدر اپنی ذاتی ناکامیوں پہ ملول و افسردہ ہوں اس سے کہیں بڑھ کر اپنے یار کی کامیابیوں پر خوش و نازاں ہوں ۔
میرا بہت ہی پیارا جیپا ( پرنسپل نجیب اللہ انجم) آپ کے لئے بہت ساری نیک خواہشات
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر