حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام بارگاہ کے مرکزی صحن کے دائیں طرف بنے کمروں میں ایک تو لنگرخانہ (کچن) ہے دوسرا نشستی کمرہ تیسرے میں بھی یقیناً کچھ تو ہوگا تبھی تالا لگا ہوا تھا۔ لنگرخانے والا کمرہ درمیان میں ہے۔ دھند اور سردی دونوں جوبن پر تھے ایک نوجوان عزیز نے میری لنگرخانے سے ملحقہ کمرے کی طرف رہنمائی کی، بولے انکل سردی بہت ہے آپ اس کمرے میں بیٹھ جائیں۔
فرشی نشست جمائے صاحبان کےقریب ہی عزیزم نے میرے لئے کرسی رکھ دی ۔ تین افراد پہلے ہی کمرے میں موجود تھے یقیناً شہر دار اور شناسا ہوں گے۔ ایک اجنبی ان کے درمیان آبیٹھا لیکن ان کی گفتگو جاری رہی۔
گفتگو کا کوئی ایک موضوع نہیں تھا۔ موسم کی سختی مہنگائی سے پیدا ہوئے مسائل اور کچھ ہلکا پھلکا غیبت پروگرام۔ اچھا یہ آجکل کی عمومی نشستوں کے من بھاتے موضوع ہیں۔ آج کے ہی کیا جب سے ہوش سنبھالا ہے شادی بیاہ کی تقریبات ہوں یا سوئم و چہلم کے اجتماعات، قرآن خوانی، وعظ اور مجلس سے زیادہ لوگ اِدھر اُدھر منڈلیاں لگائے جی کے پھپھولے پھوڑتے دیکھائی دیتے ہیں۔
اس روز بھی کچھ ایسے ہی صورتحال تھی۔ دائیں طرف کے تین کمروں سے آگے چھتے برآمدے میں چولہے میں لکڑیاں جلائے ایک گروپ مصروف گفتگو تھا۔ کافی دیر سے ان کی گفتگو سن رہا تھا جب ایک نوجوان عزیز تیزی سے میری طرف آئے اور بولے انکل سردی بہت ہے ” گوگل بابا ” کے مطابق دھوپ ایک بجے کےبعد نکلے گی مولوی صاحب بھی پونے بارہ بجے رونق منبر ہوں گے آپ ادھر کمرے میں بیٹھ جائیں۔
پہلے سے یبٹھے تین حضرات اپنی گفتگو میں مگن تھے البتہ ان میں سے ایک نے میرے ہاتھ میں سگریٹ دیکھ کر ایش ٹرے بڑھادی۔
چند لمحوں بعد گفتگو کا رخ اس مرحوم کی ذات کی سمت مڑگیا جس کے سوئم کے لئے اجتماع تھا۔ ایک صاحب بولے، عارف شاہ اتنا شریف اور وضعدار شخص تھا ایک دن بازار سے گزرتے ہوئے میری دکان پر رک گیا ہم باتیں کررہے تھے اتنے میں شاہ جی نے تیزی سے میری دکان میں داخل ہوکر بازار کی طرف پیٹھ کرلی۔ میں نے حیرانی سے پوچھا شاہ جی کیا ہوا۔
مسکراتے ہوئے بولے یار ’’وہ‘‘ اپنے والد سمیت سامنے سے آرہا ہے تمہیں تو پتہ ہی ہے اس نے میرے سات لاکھ روپے دینے ہیں پتہ نہیں کیا حالات ہوں میں نہیں چاہتا مجھے دیکھ کر شرمندہ ہو اس لئے راستے سے ہٹ گیا۔
اس پر دوسرے دو صاحبان نے بھی تین چار افراد کے نام لئے جنہوں نے مرحوم کا قرضہ دینا تھا۔ یہ اچھی خاصی رقم تھی۔ مجھے یاد آیا کہ ایک دن قبل لائبریری پارک میں مرحوم کی نماز جنازہ سے قبل ان کے بھائی کی جانب سے اعلان کروایا گیا کہ اگر کسی کا مرحوم و مغفور سے مالیاتی حساب ہو تو وہ مجھ سے رابطہ کرے میں حاضر ہوں۔
مرحوم کے مزاج اور حالات سے آگاہی کی وجہ سے یہ تو مجھے معلوم ہی تھا کہ وہ کسی کے مقروض نہیں تھے البتہ یہ بھی جانتا تھا کہ ان کے آبائی شہر میں ان کے کچھ کاروباری اور ذاتی دوست ان کے مقروض ہیں لیکن نماز جنازہ کے وقت کسی مقروض میں اخلاقی جرات نہیں ہوئی کہ آگے بڑھ کر کہے کہ ہم مرحوم کے زیربار (مقروض ہیں)۔
اب امام بارگاہ ملحقہ کے کمرے میں بیٹھے افراد کی گفتگو اور مقروضین کے ناموں اور ان کے ذمہ رقم نے دکھی کردیا۔ میں سوچتا رہا کہ آدمی بھی کیا چیز ہے اکثر احساس اور شرف انسانی دونوں سے محروم ہوتا ہے پھر بھی دعویٰ کرتا ہے کہ اسے انسان سمجھا جائے۔
یہاں ساعت بھر کےلئے رکئے۔ یہ 1990ء کی دہائی کے دوسرے برس کا کوئی دن تھا۔ مجھے مغلپورہ لاہور میں ایک جنازے میں شرکت کے لئے جانا پڑا۔ نماز جنازہ سے قبل اعلان ہوا کہ مرحوم کا کسی سے کوئی لین دین ہو تو ورثاء حاضر ہیں۔
اس اعلان کے بعد ایک صاحب آگے بڑھے انہوں نے مرحوم کے چودہ پندرہ برس کے صاحبزادے اور والد بزرگوار دونوں کے ہاتھ پکڑے اور کہا میں نے مرحوم کی کچھ رقم ادا کرنی تھی نصف رقم یہ حاضر ہے باقی کی نصف رقم کے تین چیک ہیں براہ کرم ہر دو ماہ بعد تاریخ کے مطابق ایک چیک کیش کروالیجئے گا
کل رقم بارہ لاکھ روپے تھی۔ مرحوم کے والد بولے "میاں صاحب میرے صاحبزادے نے دس بارہ روز قبل اس رقم بارے آگاہ کرتے ہوئے بتایا دیا تھا اور تاکید کی تھی کہ یہ رقم نہ لی جائے کیونکہ وہ اس نے اپنے دوست کی مدد کے لئے دی تھی ” ۔
وہ صاحب بولے جن حالات میں مدد کی تھی وہ یقیناً بہت برے تھے لیکن اب حالات بہتر ہیں اور میری والدہ کا حکم بھی یہی ہے کہ پیسے دے کر آنا۔ میں پوری رقم کاروبار سے نکال کر دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ چند لمحوں میں معاملہ طے ہوگیا۔ مرحوم کے والد بولے چیک واپس رکھ لو صاحبزادے یہ رقم اپنے کاروبار میں استعمال کرتے رہو اور جو جائز منافع ہو وہ بچوں کو بھجواتے رہنا۔
یہ واقعہ مجھے چنیوٹ کی امام بارگاہ مہاجرین قصر زین العابدینؑ کے ایک کمرے میں ہوئی گفتگو کے دوران بھی یاد آیا تھا۔ ایک بار جی چاہا کہ گفتگو کرنے والوں کو یہ سنائوں پھر عدم تعارف کی بیگانگی مانع ہوگئی۔
مرحوم سید عارف رضا زیدی رشتے میں میرے ہم زلف تھے مگر تھے دوستوں چھوٹے بھائیوں اور بیٹوں کی طرح عزیز۔ اپنے آبائی شہر چنیوٹ میں وہ اپنی ملنساری اور دوست نوازی کی بدولت خاصے معروف تھے۔
پچھلے چند ماہ سے علیل اور لاہور میں مقیم تھے۔ گزشتہ اتوار اور سوموار کی درمیانی شب خالق حقیقی سے ملاقات کے لئے اپنے پیاروں اور احباب کے درمیان میں سے خامشی کے ساتھ رخصت ہوگئے۔
آٹھ ماہ قبل معمولی بخار کی شکایت ہوئی ابتدائی علاج معالجے اور ٹیسٹوں کی بدولت ڈاکٹروں نے علاج شروع کردیا۔ پچھلے آٹھ ماہ کے دوران مرحوم کے جتنے ٹیسٹ ڈاکٹرز نے کروائے جتنی ادویات لکھیں اور جتنی بیماریاں بتائیں بہت دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ابتدائی تشخیص ہی درست نہیں تھی مریض کو تجربہ گاہ بنالیا ڈاکٹروں نے ورنہ جو تشخیص 8ماہ بعد کرکے زندگی کے باقی ماندہ دن گن کر بتادیئے گئے وہ پہلے کیوں نہ ہوپائی؟
لاریب میں ایک قلم مزدور ہوں طبی ماہر نہیں۔ طبی ماہرین سے کوئی تنازع بھی نہیں لیکن پچھلے آٹھ ماہ کے شب و روز میں اپنے عزیز کو بیماری کے حوالے سے جن مراحل سے گزرتے دیکھا ان کی بدولت یہ کہہ لکھ سکتا ہوں کہ ابتدائی کیا دوسری اور تیسری تشخیص بھی درست نہیں تھی ہاں یہ جو وفات سے چند دن قبل تشخیص ہوئی اور معالج نے جس طرف رہنمائی کے ساتھ جس خطرے سے آگاہ کیا یہی تشخیص درست تھی۔
آٹھ ماہ کے دوران اڑھائی تین اور ساڑھے تین ہزار روپے فی معائنہ فیس لینے والے ( ہر ہفتے میں دو ڈاکٹروں کے پاس دو دو وزٹ ) ڈاکٹرز کیوں اصل بیماری نہ جان پائے۔ کم از کم میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں ۔
یہ درست ہے کہ معروف متھ یہی ہے کہ ہر انسان کا ایک وقت مقرر ہے اس وقت مقررہ سے چند ساعت کم یا زیادہ زندہ رہنا ممکن نہیں۔
پھر بھی کسی مریض کے لواحقین اور خود مریض کو اگر درست تشخیص کے ذریعے بیماری بارے علم ہو تو اذیت کم ہوسکتی ہے ۔ جو بات سید عارف رضا زیدی کی وفات سے چار دن قبل معلوم ہوئی وہ اگر چار ماہ پہلے علم میں آتی تو یقیناً لواحقین بھاگ دوڑ کرتے مزید بہتر معالجین کو دیکھاتے۔
عارف رضا زیدی ڈاکٹروں کے لئے تو ایک مریض تھا ان کی تشخیص اور ادویات دونوں سے اسے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ہم دل کی تسلی کے لئے کہہ سمجھ لیتے ہیں کہ وقت رخصت یونہی لکھا تھا "اجل آئی اور لے اڑی” ۔
یہاں کس کو رہنا ہے۔ دنیائے سرائے میں دائمی قیام کس کا ہوتا ہے۔ مرحوم ایک ملنسار محبتی دوست نواز اور مجلسی آدمی تھے اپنی زندگی میں انہوں نے دو تین کاروبار بھی کئے مگر دریادلی اور اعتماد دونوں کے ہاتھوں گھاٹے میں رہے۔
حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوئے ان کے چہرے پر سجی مسکراہٹ برقرار رہی۔ وفات سے چند دن قبل سوچا گیا کہ انہیں چنیوٹ لے جایا جائے ممکن ہے وہ اپنے دیرینہ دوستوں اور پرانے ماحول میں خود کو بہتر محسوس کرسکیں۔
چنیوٹ جانے کا سن کر وہ بھی خوش تھے اس دوران میں لائبریری کی طرف جانے کے لئے ان کے کمرے کے سامنے گزرتا تو وہ اپنی اہلیہ، بھانجے یا بھتیجے میں سے کسی ایک کو یہ ضرور کہتے حیدر بھائی سے کہو میں بس دو تین دن میں واپس آجائوں گا۔
پچھلے دس بارہ برسوں کے دوران عارف رضا نے اپنی واپسی کے لئے جس تاریخ کا وعدہ کیا اس میں تاخیر نہیں ہوئی تھی لیکن اب وہ واپس نہیں آنے کے۔ اجلے نتھرے مسکراتے یار باش عارف رضا زیدی اس جہاں کی طرف چل دیئے جہاں سے کوئی نہیں پلٹتا۔
مرحوم کے دوستوں کا حلقہ جتنا وسیع تھا دسترخوان بھی ہمیشہ اتنا ہی وسیع رہا۔
بلدیاتی سیاست کے انتخابی معرکے میں بھی ایک دوبار اترے۔ عصری سیاست سے خاصی دلچسپی تھی۔ پچھلے عشرے ڈیڑھ عشرے سے صوفیائے کرام کی خانقاہوں پر حاضری دینے کے ساتھ بعض امور میں ان کی پیروی بھی کی۔
عارف رضا رخصت ہوئے دائمی مسکراہٹ چہرے پر سجائے انہوں نے سفر حیات طے کیا۔ یہاں کس کو رہنا ہے۔ ہاں یہ دکھ ضرور ہے کہ اگر ڈاکٹر صاحبان کی ابتدائی تشخیص درست ہوتی تو ان کا زیادہ بہتر علاج ہوپاتا۔ حق تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، آمین۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر