حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوہفتے قبل ہمارے ملتانی برادرِ عزیز شاکر حسین شاکر نے اپنی نئی تصنیف ’’علی منزل‘‘ بھجوائی۔ ملتانی کی کتاب ملتانی کے لئے اور ذکر خیر بھی ملتان کی "علی منزل” کا۔
ارادہ یہی تھا کہ کسی تاخیر کے بغیر کتاب پڑھ لوں اور رسید لکھوں لیکن فقط ارادے سے کیا ہوتا ہے۔ غم روزگار کے جھمیلے عارٗضہ قلب کے ساتھ دو تین چھوٹی چھوٹی بیماریاں۔ کچھ دوسرے مسائل یہی وہ مسائل ہیں جن کی وجہ سے پچھلے ڈیڑھ دو ہفتے سے صرف مزدوری کرتے جی جارہا ہوں۔
خیر آیئے ’’علی منزل‘‘ کی باتیں کرتے ہیں۔ کتاب پڑھتے ہوئے مجھے اپنی امڑی سینڑ کا پرورنق گھر یاد آگیا۔ کبھی اس کا صحن اور دلان دونوں نماز فجر کے بعد سے نماز مغربین کے بعد تک آباد رہتے تھے گھر کے مکین اور امڑی سینڑ کی عقیدت مند خواتین سے۔
پھر ایک دن امڑی سینڑ دنیا سے رخصت ہوگئیں اور گھر کے دروازے بند ہوگئے۔ اب اس پرانے گھر کے مکین کبھی کبھار ملتے ہیں لیکن امڑی جائیوں کے گھروں میں۔
شاکر حسین شاکر کے تعارف کے حوالے بہت ہیں۔ وہ ادیب ہیں، شاعر، ریڈیو اور ٹی وی پروگراموں کا میزبان۔ معروف تقریبات کے ناظم (سٹیج سیکرٹری) اور کالم نگار ہیں۔ ملتان کی تاریخ پر گہری نظر ہے۔
شہر کی علمی ادبی اور سیاسی و سماجی تقریبات کی رونق۔ ایسی رونق کہ ان کے بغیر کوئی محفل سجتی ہی نہیں۔
ملتان اور سرائیکی وسیب کا تقریباً ہر شخص اس بات کا دعویدار ہے کہ شاکر حسین شاکر اسے بہت عزیز رکھتے ہیں۔ ان کے چہرے پر سجی دائمی مسکراہٹ میں بجلی کے وولٹیج کی طرح چونکہ کمی بیشی نہیں ہوتی اس لئے ہر ملاقاتی وہ خاص ہو یا عام ہوتا خاص ہی ہے۔
’’کتاب نگر‘‘ حصول رزق کا دنیاوی بہانہ ہے ورنہ حقیقت میں یہ شاکر حسین شاکر کا آستانہ ہے۔ میں محبت سے اسے "آستانہ عالیہ کتاب نگر شاکریہ و حسینیہؑ ” کہتا لکھتا ہوں۔
ہم ایسے ملتانی جب اپنی جنم بھومی اور پیاروں کی زیارت کے لئے مسافت کے کشٹ اٹھاکر ملتان جاتے ہیں تو آستانہ عالیہ کتاب نگر شاکر حسینیہؑ پر حاضری لازم سمجھتے ہیں۔
یہ واحد آستانہ ہے جہاں عقیدت مندوں کو گدی نشین کے حضور کچھ پیش نہیں کرنا پڑتا الٹا گدی نشین آنے والوں کی تواضع کرتا ہے اور حسب توفیق کوئی کتاب رسالہ بھی عنایت کرتا ہے۔
"علی منزل” بارے مشہور ہے کہ یہ 1947ء کے بٹوارے سے قبل وی پی سنگھ کی خاندانی حویلی تھی۔ وی پی سنگھ بھارت کے وزیراعظم کے منصب تک پہنچے تھے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ علی منزل کے نئے باسیوں میں سے ہر ایک اپنے اپنے شعبہ کا باکمال انسان ہوا۔
ملتانیوں کو پروفیسر حسین سحر مرحوم تو نہیں بھولے ہوں گے۔ پروفیسر حسین سحر صاحب ہمارے شاکر حسین شاکر کے چچا تھا۔ ویسے وہ ہماری عمر کے ملتانیوں کے لئے علم و ادب کا آفتاب تھے۔
دنیا کی ریت پریت یہی ہے کہ گھر بنتے ہیں مکینوں سے۔ علی منزل بھی ایک گھر تھا۔ مکین تو بامروت، علم دوست، مجلسی اور مہمان نواز تھے ہی ان مکینوں کے مہمان بھی شاندار رہے۔
ایک گھر جہاں آپ نے زندگی بیتائی ہو چراغوں کے جلنے او سورج کی روشنی میں جمی مجلسوں سے فیض پایا ہو۔ ادب آداب، جینے کے ہنر آگے بڑھنے کا سلیقہ اور زندگی بنانے کے ہنر سیکھے ہوں وہ کیسے بھول سکتا ہے۔
ماں باپ کا گھر بھی بھلا کوئی بھولتا ہے۔ میں تو اب بھی اپنے قیام ملتان کے دنوں میں ایک آدھ بار اپنی امڑی سینڑ کے گھر (یہ گھر اب نئی عمارت کے ساتھ مالکوں کا ہے) کی دیواروں کو بوسہ دے آتا ہوں اس دوران آنکھوں میں اترتے آنسو اپنے چہرے پر ملتا رہتا ہوں ۔
کسی بھرے پُرے گھر مکین بدلتے ہوئے حالات اور ضرورتوں کے پیش نظر جب پرانے گھر سے نئے گھروں کی طرف ہجرت کرتے ہیں ان کی حالت کیا ہوتی ہے اور پرانے گھر بارے ان کی یادیں کیسی ’’علی منزل‘‘ کو پڑھ کر آپ ان جذبات، محبتوں، رفاقتوں، رشتوں کے ماہ و سال کو محسوس کرسکتے ہیں۔
’’علی منزل‘‘ محض ایک گھر کی کہانی نہیں رشتوں، محبتوں، وضعداری، تربیت، رکھ رکھائو اور مکینوں کی وسعت قلبی کی داستان ہے۔
یہ داستان ملتان کی تاریخ کا زندہ حصہ ہے اور اس بات کا ثبوت بھی کہ نئے ماحول میں رچنا بسنا کیسا ہوتا ہے۔ شاکر حسین شاکر سے میری محبت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کا خاندان ملتان کے معروف اور تاریخی اہمیت کے حامل چوک خونی برج کے علاقے سے 1981ء میں چاہ بوہڑ والہ ریلوے روڈ ملتان منتقل ہوا۔
خونی برج چوک سے یاد آیا اس کی تاریخی اہمیت یہ ہے کہ اسی مقام پر سکندر اعظم ایک معرکہ میں لگنے والے تیر سے گھائل ہوا تھا یہی گھائو پھر اسے موت کی وادی میں لے گیا۔
ایک اور حوالہ یہ ہے کہ چوک کے ساتھ فصیل کی ایک برجی کے احاطے سے دسویں محرم الحرام کو شاگرد کا مشہور تعزیہ اٹھتا ہے۔ اپنی بناوٹ کے حساب سے وہ کاریگری کا اعلیٰ نمونہ تو ہے ہی لیکن ملتان کی تاریخ کا حصہ بھی ہے۔ استاد اور شاگرد کے تعزیوں کا ذکر کئے بغیر کوئی ملتان کی تاریخ لکھے تو سمجھ لیجئے اس نے ملتان نہیں دیکھا بس کتابوں میں پڑھا اور سفرنامہ یا تاریخ لکھ ڈالی۔
’’علی منزل‘‘ پر لکھی گئی شاکر حسین شاکر کی کتاب کی 35 پرتیں ہیں۔ آپ انہیں 35ابواب کہہ لیجئے۔ ہر باب میں ایک داستان ہے ہر سطر آپ کو ایسے ساتھ باندھ کر رکھتی ہے جیسے آپ خود اسی داستان کے ایک کردار ہوں۔ کم از کم مجھے تو ایسا ہی لگا۔ ہوسکتا ہے کہ اس میں میرے ملتانی ہونے کا کردار ہو۔
گھر اور یادیں ہر شخص کا سرمایہ ہوتی ہیں مگر ہم ملتانیوں کے رنگ ڈھنگ نرالے ہیں ہر دو معاملوں میں ہمیں تو ملتان سے باہر ملتانی مل جائے تو اسے خوش ہوتے ہیں ۔ جیسے ملتان پردیسی بچے کو دلاسہ دینے خود چل کر آگیا ہو۔
اسی ملتان کی ایک ’’علی منزل‘‘ کی داستان پڑھتے جنم بھومی سے بچھڑے ملتانیوں کی آنکھیں نہ بھر آئیں یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ ’’علی منزل‘‘ کی ورق گردانی کرتے ہوئے کئی بار آنکھیں بھیگ گئیں۔
میں نے خود کو ملتان کی سڑکوں اور گلیوں میں گھومتے محسوس کیا دوستوں سے ملا۔ امڑی سینڑ کی تربیت کو بوسہ دیا۔ چوک خونی میں بوہڑ کے قدیم درخت کے سائے میں بیٹھے آلو چھولے والے سے "آلو چھولے بھیں” کھائے۔ حاجی یارو کا فالودہ یاد آیا۔ مامے مودی کے دال ’’مُنگ بھی۔
’’علی منزل‘‘ کہنے کو ایک کتاب ہے پر سچ پوچھیں تو یہ آئینہ داستاں ہے۔ ملتانی اسے پڑھتے وقت بار بار اپنا چہرہ دیکھتا ہے۔ داستان کے اتار چڑھائو کے ساتھ چہرے کے تاثرات ایسا لگتا ہے ہر لفظ اور سطر نے دل پر دستک دی اور روح کو سیراب کیا۔
شاکر حسین شاکر حرفوں کا کوزہ گر ہے اسے حرفوں کی بُنت میں مہارت ہے اخباری کالم ہو، خطبہ استقبالیہ لکھے یا کتاب لفظ تاثیر کھوتے بالکل نہیں۔ ’’علی منزل‘‘ میں شاکر نے علی منزل کے مکینوں سے ملاقاتیں کرائیں اور مہمانوں سے بھی اس کے ساتھ ساتھ اس نے پڑھنے والوں کو ملتان کی شہر بھی کرادی ۔
’’علی منزل‘‘ لکھتے ہوئے شاکر نے صرف علی منزل اور اس کے مکینوں سے ہی نہیں ملتان سے بھی انصاف کیا۔ اپنے بزرگوں اور ہمجولیوں کا ذکر کرتے ہوئے یقیناً اس کی آنکھیں بھی بھیگی ہوں گی تبھی تو پڑھنے والے کی آنکھیں بھی بھیگیں۔
مجھے لگتا ہے میرے رخصت ہوجانے کے بعد کوئی دوست میری بیٹیوں سے یہ ضرور کہے گا ’’بیٹا ذرا وہ کتاب لانا جو شاہ جی آخری دن میں پڑھ رہے تھے میں بھی اس کتاب کے دو صفحے پڑھ لوں‘‘۔
یہ احساس یوں ہوا کہ شاکر نے اپنے دادا جان کے وقت رخصت پر موجود حاجی اسماعیل صاحب کی ایک بات کا ذکر کیا ’’حقہ تازہ ہورہا تھا چلم کے کوئلے دہکائے جارہے تھے، حاجی برکت علی مرحوم کے بیٹوں نے حقہ تازہ کرنے والے نوجوان سے پوچھا حقہ پینے والا تو چلا گیا پھر حقہ تازہ کیوں کررہے ہو؟
نوجوان کی آنکھوں میں آنسو تھے اس نے اوکاڑہ سے آئے ہوئے حاجی محمد اسماعیل کی طرف اشارہ کرکے کہا ان بزرگوں کے لئے ‘ ۔ اتنے میں حاجی اسماعیل بولے
"آج میں حاجی برکت علی کے نام کا علی منزل میں حقہ کا آخری کش لگانا چاہتا ہوں‘‘۔
آخری کش۔ آخری بات، آخری سانس، آخری ورق، آخری غم، ہر گزر گئے لمحے کے ساتھ سب کچھ آخری ہی تو ہے۔
’’علی منزل‘‘ کا باب باب اور سطر سطر شاکر کی اپنے بزرگوں ہمجولیوں اور علی منزل سے محبت کا ثبوت ہے۔ علی منزل کے مکین اپنے اپنے نئے آشیانیوں میں اٹھ گئے۔ ایک نسل کے بعد دوسری نسل نے معمولات زندگی سنبھال لئے۔ یہی زندگی کے طریق ہیں وقت کہاں رکتا ہے۔ زندگی آگے بڑھتی ہے۔
البتہ شاکر حسین شاکر نے ’’علی منزل‘‘ لکھ کر یادوں کویکجا کردیا۔ میں ایک بار پھر ’’علی منزل‘‘ پڑھوں گا مجھے اس کی ہر ہر سط سے اپنی امڑی سینڑ کے شہر کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ میں ملتان اور ملتانیوں کے لئے اپنی محبت میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ مزید گرمجوشی محسوس کرتا ہوں اور ہر بار ملتان اور ملتانیوں کے آباد و شاد رہنے کی دعا کرتاہوں ۔
کیوں نہ کرو، ہمارے لئے ملتان ہی تو جہان ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر