ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رحیم یار خان میں اموات ہوئیں، صوبائی اور مرکزی حکومت نے کوئی نوٹس نہ لیا جبکہ عالمی ادارہ صحت کی ٹیم رحیم یار خان پہنچ گئی، سانحہ کی المناک داستان یہ ہے کہ بستی بہرام لغاری میں ایک ہی خاندان کے 11 لوگوں کی اموات ہوئی ،فوت ہونے والوں میں زیادہ تر چھوٹے بچے تھے ، جن کی عمریں 18 سال سے کم تھیں۔یکے بعد دیگرے اموات کی وجہ سے علاقہ میں صف ماتم بچھ گئی، خاندان کے غم کی تو کیفیت بیان کرنا مشکل ہے البتہ جنازوں کے موقع پر کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو نم نہ ہو۔ علاقے سے وسیب میں جونہی یہ بات پھیلتی گئی پورا وسیب دکھ اور صدمے سے دو چار ہوتا گیا۔ سوشل میڈیا پر سب سے پہلے بعد ازاں مقامی اخبارات میں خبریں آئیں لیکن یہ بھی ہے کہ الیکٹرانک میڈیا نے بہت دیر کر دی، جب غیر ملکی میڈیا سے رپورٹ نشر ہوئی تو پھر دیگر پاکستانی چینلز بھی اس طرف متوجہ ہوئے۔ وہاں ہم نے جب کیفیت جانی تو بتایا گیا کہ بستی بہرام لغاری میں سب سے پہلے آٹھ سالہ سلمٰی کو بخار ہوا، اُس کو صبح بخار ہوا اور شام کو وہ دم توڑ گئی۔ لواحقین اس کی تدفین کر کے واپس آئے تو ایک اور خاتون زبیدہ کو بھی بخار ہو چکا تھاوہ چند گھنٹوں بعد وہ بھی انتقال کر گئی،اگلے کئی دنوں یہ سلسلہ جاری رہا۔ بتایا گیا کہ ایک کو دفن کر کے آتے تو دوسرا بیمار ہو جاتا، خاندان کے گیارہ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ انتقال کرنے والوں میں والوں میں پانچ بہن بھائی اور قریبی عزیز شامل ہیں، ان میں خواتین اور بچوں کی تعداد زیادہ ہے ۔ شیخ زید ہسپتال کے ترجمان ڈاکٹر الیاس احمد نے بتایا کہ اسی علاقے سے ہمارے پاس گیارہ مزید افراد ہسپتال میں داخل ہوئے، ان مریضوں میں بھی پانچ خواتین، چار بچے اور دو مرد شامل ہیں، ان مریضوں کو خصوصی طور پر الگ آئسولیشن وارڈز میں رکھا گیا ۔ صرف 12 دنوں میں ایک ہی خاندان کے 11 افراد کی موت واقع ہونے سے علاقے میں خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے ،کمشنر بہاولپور راجہ جہانگیر انور نے بتایا کہ اس واقعے پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے ، محکمہ صحت کو ہدایات دیدی گئی ہیں اور وہاں میڈیکل کیمپ لگا کر تمام افراد کی سکریننگ کی گئی ہے، وزیر اعلیٰ نے بھی لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ واقعہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وسیب کے جاگیر داروں اور سرمایہ داروں میں سے ابھی تک لواحقین کی اشک شوئی کیلئے کوئی نہیں آیا، رحیم یار خان تین صوبوں کا سنگم ہے، بڑے بڑے جاگیردار اور سرمایہ دار یہاں موجود رہتے ہیں ، عرب شیوخ بھی شکار کیلئے یہاں آتے ہیں مگر غریبوں کا کسی کو احساس نہیں۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ وسیب کو سابقہ جاگیرداروں کے ساتھ ساتھ نئے جاگیرداروں نے بھی برباد کیا ، استحصالی قوتوں کی خوشامد میں یہ جاگیرداروں سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ رحیم یارخان کی جغرافیائی و ثقافتی حیثیت کے ساتھ ساتھ اس کی زرعی حیثیت بھی مسلمہ ہے۔ یہ بر صغیر جنوبی ایشیاء کا واحد ضلع ہے جہاں سات شوگر ملیں کام کر رہی ہیں ، عرب شیوخ تلورکے شکار کے علاوہ ’’تتلیوں ‘‘کے شکار کیلئے بھی یہاں آتے ہیں اور وسیع سرمایہ خرچ کرتے ہیں ۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ وسیب کو اس کا حق دیا جائے ۔ رحیم یارخان کو جاننے کیلئے اس کا پس منظر جاننا ضروری ہے، رحیم یارخان کا پہلا نام ’’ نوشہرہ ‘‘ تھا ، یہ ضلع خانپور کا چھوٹا سا قصبہ تھا، 1751ء میں اس کا قیام عمل میں آیا۔ 1880ء میں ریلوے لائن بچھائی گئی تو ’’ نوشہرہ ‘‘ اسٹیشن کا نام نواب آف بہاولپور نے اپنے مرحوم بیٹے رحیم یارخان کے نام پر رکھا اور 1881ء میں خانپور کی ضلعی حیثیت ختم کر کے رحیم یارخان کو ضلع کا درجہ دے دیاگیا۔ 1905ء میں ٹاؤن اور 1923ء میں رحیم یارخان کو میونسپل کمیٹی کا درجہ ملا اور اسی سال رحیم یارخان کو سیراب کرنے والا پنجند ہیڈ ورکس مکمل ہوا اور رحیم یارخان پر آبادکاری کی یلغار شروع ہوئی، انگریزوں کی سرپرستی میں ہونے والی آبادکاری میں مقامی لوگوں کو بری طرح نظر انداز کیا گیا ۔ 1927ء میں رحیم یارخان میں محکمہ آبپاشی کے دفاتر اور انہار کالونی قائم ہوئی۔ 1948ء میں رحیم یارخان میں عباسی ٹیکسٹائل ملز اور 1952ء میں بہت بڑا صنعتی پلانٹ لیور برادرز کے نام سے قائم ہوا۔ ملازمتوں میں مقامی لوگوں کو نظر انداز کیا گیا جس سے مقامی تنزلی اور باہر سے آنے والے ترقی کرتے گئے۔ ان زیادتیوں اور حق تلفیوں کا ذمہ دار جو بھی ہو، بہرحال مقامی لوگوں کو اس کا رنج ہے، حق تلفی کی چھوٹی سی چنگاری بھی شعلے کی شکل اختیار کر جاتی ہے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ مقامی لوگوں سے مساوات پر مبنی منصفانہ سلوک کیا جائے اور ان سے امتیازی سلوک ختم کیا جائے۔ رحیم یار خان میں چولستان کا صحرا موجود ہے،ملکی اور غیر ملکی شکاریوں نے چولستان کو نوگوایریا بنارکھا ہے، وہ لوگ جوکہ صدیوں سے چولستان میں آباد ہیں ان کی زندگی اجیرن بنادی گئی ہے، بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں جانے کیلئے اجازت نامہ طلب کیا جاتا ہے ، اس سے بڑا ظلم کیا ہوسکتا ہے کہ چولستان سے جن لوگوں کا دور دور تک واسطہ نہیں اور جو چولستان کے اصل حسن کی بربادی کے ذمہ دار ہیں ان کو ہر طرح کے غیر قانونی شکاراور چولستان میں داخلے کی اجازت ہے جبکہ چولستان کے اصل وارثوں پر طرح طرح کی پابندیاں ہیں۔ ضلع رحیم یار خان کے مسائل آج بھی حل طلب ہیں، خان پور کیڈٹ کالج، مزدوروں کیلئے سوشل سکیورٹی ہسپتال کی تعمیر کے منصوبہ سالہا سال سے تاخیر کا شکارہیں، انڈسٹریل اسٹیٹ کے فیزون کی تعمیر بھی مکمل نہیں ہوسکی۔ خان پور، لیاقت پور اور صادق آباد ٹی ایچ کیو ہسپتالوں کے توسیعی منصوبے بھی تاخیرکا شکار ہیں۔ضلع کی چاروں تحصیلوں میں کھیل کے میدانوں کا بھی فقدان ہے ، شیخ زید ہسپتال فیز ٹو سمیت دیگر منصوبے نامکمل ہیں جو سالہا سال سے پائپ لائن میں ہیں ۔ چنی گوٹھ تا براستہ خان پور دو رویہ موٹروے کی تعمیر، چاچڑاں کوٹ مٹھن کے درمیان دریائے سندھ پر ریلوے بریج اور خان پور چاچڑاں ریلوے لائن بحالی منصوبوں سمیت خان پور ضلع بحالی بارے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
یہ بھی پڑھیے
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر