دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ریپسٹ بنا دولہا اور منصف نکاح خواں! ||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

کیا اس شخص کو شوہر کے روپ میں دیکھ کر وہ دن رات مصلوب نہیں ہو گی؟ جو شخص کل تک درندہ تھا پلک جھپکتے میں ایک ہمدرد شوہر اور شفیق باپ کیسے بنے گا؟

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا بگڑے گا کسی کا اگر کچھ بھی فرض کر لیا جائے؟ ہاں کچھ بھی۔ فرض کرو ہم کیٹ ونسلیٹ ہوں یا پھر فرض کرو قرہ العین حیدر ہوں۔ فرض کرنے سے اگر بات بن جائے تو کیا ہی مزا ہے۔ ابن انشا بھی تو یہی سوچ کر ایسی خوبصورت نظم لکھ گئے ؛

فرض کرو ہم اہل وفا ہوں، فرض کرو دیوانے ہوں
فرض کرو یہ دونوں باتیں جھوٹی ہوں افسانے ہوں
فرض کرو یہ جی کی بپتا جی سے جوڑ سنائی ہو
فرض کرو ابھی اور ہو اتنی آدھی ہم نے چھپائی ہو
جی چاہتا ہے کہ ہم بھی کچھ فرض کریں۔ کچھ دیوانگی، کچھ فرزانگی، کچھ چھپائیں، کچھ بتائیں۔

تو چلیں جی فرض کر لیں کہ ہم گونگے اور بہرے ہیں۔ بھئی نہیں ہیں تبھی تو فرض کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ باہر کی دنیا ہمارے لیے خاموش چاہے رم جھم ہو یا پتوں کی کن من، لہروں کی اٹکھیلیاں ہوں یا ہواؤں کا شور، ایک لمبی چپ۔ شور سننے کو ملتا ہے ہمیں لیکن اندر سے۔ خود ہی سنو، خود ہی جانو، خود سے ہی سوال و جواب، کبھی ہنسو، کبھی روؤ۔

آنکھوں کی زبان پڑھنی آتی ہے ہمیں، کون کیا کہنا چاہتا ہے؟ سب سمجھ میں آتا ہے۔ مہربان، دوست، ہمدرد، ترس کھاتی ہوئی، موقع پرست، ظالم، جنسی بھوک سے بھری، دشمن۔ کس کا ہاتھ مدد کے لیے اور کس کا ہاتھ موقعے کی تلاش میں سانپ کی طرح رینگتا ہوا؟

جب زبان ساتھ نہ ہو تو کس کو بتایا جائے، کیسے سمجھایا جائے کہ ہمسائے میں رہنے والا جنسی درندہ ہے، بس موقع چاہیے اسے۔

فرض کریں کہ کسی دن موقع اس کا دوست بن جائے اور ہمارا دشمن، تنہائی ایسی ہو کہ سایہ بھی ڈرے۔ ایسے میں ہمسایہ گھر میں کودے اور ہاتھ پاؤں باندھ کر ہمارا ریپ کر ڈالے۔ ایسی نظروں سے مت دیکھیے جناب اور توبہ استغفار کا ورد بھی کیوں؟ جب ہمارے ارد گرد کوئی نہ کوئی لڑکی ہر وقت ریپ ہو سکتی ہے تو ہمارے فرض کرنے میں کیسی قباحت؟

ہمارا رونا پیٹنا، آنسو، ہاتھ جوڑ کر گونگی منتیں کچھ بھی اس کا دل نہ پگھلا سکیں، وہ ہاتھ پاؤں باندھے ہمارے اور جی بھر کے بربریت کا کھیل کھیلے۔

فطرت کیوں رحم کھائے ایک عورت پہ؟ آسمان کیوں جوش میں آئے؟ جب زمین پہ رہنے والا انسان اپنے جیسی انسان پہ رحم نہ کھا سکے۔ ریپ کے بعد کیا ہوتا ہے؟ وہی جو جنسی عمل کے بعد ہوتا ہے۔ اس شخص کی اولاد پیٹ میں آ ٹھہری بنا ہماری مرضی، بغیر کسی تعلق و رشتے کے۔

ہمیں کیسے پتہ چلتا، خاموش دنیا میں رہتے ہوئے ان اسرار و رموز کو کیسے سمجھتے؟ اماں تب سمجھیں جب وقت کی رفتار تیز ہو چکی تھی۔ اماں نے پوچھا اشاروں میں، کس کا؟ ہم نے بتایا انگلی اٹھا کے، اس کا۔

دنیا میں آ گئی اس کی اولاد اور وہ ماننے سے بھی انکاری۔ مرد ہوتا تو قبول کرتا نا۔ ویسے مرد ہوتا تو ایک عورت کی کمزوری سے فائدہ ہی کیوں اٹھاتا؟ انکار کیا اپنے ہی نطفے کو اپنی اولاد ماننے سے۔ ہمیں ہنسی آ گئی۔ جوش جوانی، مردانگی کا دعوی اور اولاد کو اولاد بھی نہ مانو۔ تم قتل کرو ہو یا کرامات کرو ہو۔

اور کسی کو رحم آئے یا نہ آئے، سائنس ایسے موقعوں پہ عورت کا ساتھ خوب دیتی ہے۔ سو دیا ہمارا بھی۔ ڈی این اے نے جھوٹ کا پول کھول دیا اور بچے کا نامعلوم باپ یک دم معلوم ہو گیا۔ اس دن دل کھول کر ہنسے ہم۔ نہ جانے کیسی ہنسی تھی جس میں آنکھوں سے پانی بہتا تھا، شاید کچھ پڑ گیا تھا آنکھ میں۔

کہانی کا اگلا موڑ یہ ہے کہ بچے کا ابا جیل جا پہنچا اور تب اس کی کھوئی ہوئی یادداشت واپس آ گئی۔ ڈی این اے تو پہلے ہی بتا ہی چکا تھا اب زبان سے اقرار ہوا تو لوگوں کو میرے کہے پہ اعتبار آیا۔ وہ عورت جو زبان نہ ہوتے ہوئے بھی سچ بول رہی تھی اس کا سچ اس وقت تک جھوٹ ہی رہا جب تک ظالم کا جھوٹ سچ میں نہیں بدلا۔ بدلا؟ یا سائنس نے بدلنے پہ مجبور کر دیا۔

اولاد سب کو پیاری ہوتی ہے چاہے کیسی بھی ہو؟ ریپسٹ کو عمر قید ہوئی تو اس کے ابا بے قرار ہوئے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بیٹا بھری جوانی میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے جا بیٹھے؟ جی ہاں، وہی جوانی جس سے اس نے نہ جانے کتنی عورتوں کی کوکھ کو بیج ڈال کر زرخیز بنایا اور منہ چھپا کر چلتا بنا۔

نہ جانے ہر ریپسٹ کے ابا اپنی اولاد کے کارناموں کو کس طرح حلق سے اتارتے ہیں؟ یا شاید اسی تھیلی کے چٹے بٹے ہوتے ہوں گے تبھی تو دیدہ دلیری سے بیٹے کی پشت پناہی پہ ہر وقت تیار۔ بھلا مرد بچے کو کیا شرم؟ ایسی چھوٹی موٹی غلطیاں تو ہوتی رہتی ہیں، ان سے کیا گھبرانا؟

ریپسٹ کے ابا نے علاقے کے شرفا کے سامنے درخواست رکھی کہ بچے کو باپ کی ضرورت ہے، شرفا کو بھی خیال بھا گیا کہ ہاں چاہیے تو۔ کسی نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ ڈی این اے کے نتیجے سے پہلے جیل میں بند ابا اسی بچے کے وجود سے بھی انکاری تھا۔ گونگی بہری عورت کا کہا کیوں مانتے شرفا اور بچے کے ابا اور دادا؟

اب سب مل کر آ پہنچے ہمارے کسی رشتے دار کے پاس کہ ابا تو تھے نہیں۔ کہنا تھا جس نے گونگی کو حاملہ کیا نکاح کے بغیر ہاتھ پاؤں باندھ کر اپنی ہوس کو ٹھنڈا کیا، اب وہی شخص اسے بیوی بنانا چاہتا ہے، ناجائز بچہ جائز بنے گا اب۔

رشتے داروں کی مراد بھر آئی، کون بوجھ اٹھاتا گونگی کا اور ساتھ میں بچے کا۔ ہاں ہاں ضرور، مجرم شرمندہ ہے اب، غلطی سدھارنا چاہتا ہے۔

سوچا نہیں کسی نے بھی کہ کیا غلطی سدھارنے سے جرم کی نوعیت بدل سکتی ہے؟ ریپ تو ریپ ہے اور ریپ کا نتیجہ بچے کی صورت میں۔ کیا سوچے سمجھے جرم کا کفارہ بھی عورت ادا کرے؟

کیا اس وقت کا زخم بھر سکتا ہے جب گونگی ہاتھ جوڑ کر رحم مانگتی تھی اور وحشت اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر ناچتی ہوئی اس کے جسم کو ریزہ ریزہ کرتی تھی؟ کیا وہ بھول سکتی ہے اس وقت کی چیخ پکار، خوف، اپنی ذات کی نفی؟

کیا اس وقت کی اذیت زائل ہو سکتی ہے جب گونگی کا پیٹ پھولتا جاتا تھا اور لوگوں کی زبانیں انگارے اگلتی تھیں؟
وہ لمحے کیسے بھلائے جا سکتے ہیں جب گونگی اپنی انگلی سے ظالم کی طرف اشارہ کرتی تھی اور لوگ اس کی طرف پتھر اچھالتے تھے؟

وہ اذیت جو اس شخص کی اولاد پیدا کرتے وقت گونگی نے سہی۔ جسمانی اذیت کو ایک طرف رکھیے، لیکن اس ذہنی اذیت کو کیسے بھلائے گی وہ جو ولدیت کا خانہ خالی رکھے جانے پہ ہوتی تھی؟

کیا اس شخص کو شوہر کے روپ میں دیکھ کر وہ دن رات مصلوب نہیں ہو گی؟ جو شخص کل تک درندہ تھا پلک جھپکتے میں ایک ہمدرد شوہر اور شفیق باپ کیسے بنے گا؟

گونگی نے سب کچھ سہا، ڈی این اے کروایا، عدالت گئی، کیس لڑا اور اب جب مجرم کی سزا شروع ہوئی تب یکایک اسے خیال آیا کہ اس سے غلطی سرزد ہوئی۔عبرت کا مقام یہ ہے کہ یہ خیال نہ صرف اسے آیا بلکہ پشاور ہائی کورٹ کے معزز جج صاحبان کو بھی جنہوں نے اس درخواست کو منظور کرنے کا حکم سنایا ہے۔

کہتے ہیں قانون اندھا ہوتا ہے، علم نہیں تھا کہ قانون کے رکھوالے بھی۔

کورٹ کے خیال میں وہ رات ریپ کی نہیں بلکہ شب عروسی تھی جس میں دلہن کے ہاتھ پاؤں رسی سے باندھ کر تعلق قائم کیا گیا تھا۔ کورٹ کے خیال میں اگر اس شادی کی ترتیب کچھ الٹ پلٹ ہو گئی ہے تو وقت کا پہیہ پیچھے گھمانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ کورٹ کے خیال میں ایک عورت کو زبردستی حاملہ کرنے کے بعد ہر چیز بدل سکتی ہے اگر ریپسٹ سہرا باندھ کر آ جائے اور ریپ ہوئی عورت کو گلے سے لگا لے۔

مردوں کے بنائے ہوئے اس نظام میں عورت کی عزت، انا، خودداری، اذیت، رنج، غم، رسوائی، بدنامی، الزام تراشی، سنگ باری، خواہش، چاہت، انکار۔ کسی چیز کی کوئی اہمیت نہیں۔

اہم ہے تو صرف ایک بات کہ مرد کیا چاہتا ہے؟

Anger as Pakistan court frees rapist after he agrees deal to marry his victim: The Guardian

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author