نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

زبان کے گھائو ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دجلہ کے مغربی کنارے مصلوب ہوئے اور پھر جلائے گئے حسین بن منصور حلاجؒ نے کہا تھا

’’میں نے محبت کے سمندر میں تیرنا نہ چھوڑا۔ موج مجھے اوپر اٹھاتی ہے اور نیچے لے آتی ہے۔ موجوں نے بسا اوقات مجھے اوپر اٹھایا۔ بس اوقات میں نے غوطہ لگایا اور دور تک نکل گیا۔ پھر محبت مجھے ایک ایسے مقام پر لے آئی جس کا کنارہ کوئی نہیں تھا‘‘۔

محبت کے سمندر کا کنارہ بھلا کہاں ہوتا ہے اک لہر اسی میں سے گزرتی ہے ۔ ہر پل نئی بات۔ ہر بات نئی ہوتی ہے۔ باتیں پرانی کب ہوتی ہیں۔ باتیں، محبت اور کتاب، ہر پل نئے اسرار، زندگی یہی ہے۔ اس کے سوا زندگی میں اور ہے کیا۔

مجھے بزرگوں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے۔ آدمی سن سکتا ہو تو دیواریں اپنی کہانی سنائی ہیں۔ تاریخ رویوں، دیکھنے اور نظرانداز کرنے کی ساری کہانی کیا ان درودیوار کے بغیر مکمل ہوسکتی ہیں جو تاریخ کی گواہی ہوں۔

بات محسوس کرنے، سمجھنے اور پانے کی ہے‘‘۔

زندگی کے صحرا میں آرزرئوں کے تعاقب میں کیا فقط پانے کے لئے آبلہ پائی ہوتی ہے۔ وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے کیا اس کی صبح صرف بھرے پُرے شہروں میں طلوع ہوگی؟ ایسا بھلا کبھی ہواہے کہ سوال ہو اور جواب نہ ملے۔ بس دونوں گڈمڈ نہ ہوں۔

پرانے مقامات سے گزرتے ہوئے ان کی قدامت کس سے پوچھی جائے۔ درودیوار سے یا تیزی سے اِدھر اُدھر جاتے لوگوں سے جو اپنے عہد سے ہی بے فکر یا بیزار دیکھائی دیتے ہوں؟

فقیر راحموں کے بقول یہ بھی تو ایک سوال ہے‘‘اسے پانے کی طلب میں ہوا سفر تھکانے والا نہیں ہوتا۔ یار کے کوچے کی سمت تو آدمی بڑھتا رہتا ہے۔ قدم قدم دم بدم۔ آرزوئیں تمام ہوں یا خاک اس کا حساب کیوں رکھا جائے‘‘۔

ان سموں مجھے "عنترہ” یاد آئے۔ اس نے کہا تھا

’’یاد کرو وہ وقت، جب سارے اہل قبیلہ، میری آڑ لیتے تھے۔ نیزوں سے بچنے کے لئے، میں کبھی تلواروں اور نیزوں سے جھجک کر پیچھے نہیں ہٹا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس گھمسان میں، میرے لئے پیش قدمی کی راہ تنگ ہوگئی تھی‘‘۔

پیش قدمی کی راہ جتنی تنگ اور عدو کا لشکر کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو آگے تو بڑھنا ہی پڑتا ہے، یہی حقیقت ہے۔ بس گاہے ہم حقیقت کو بھول جاتے ہیں، کبھی ایسا بھی ہوا کہ بھوک اور پیاس اذیت ناک ہوئے۔

گاہے نظرانداز کئے جانے کے دکھ نے دبوچنے کی کوشش کی۔ کب کبھی ایسا ہوا تو میں نے ہمزاد سے کہا، یار فقیر، زندگی ہو تو بھوگ بھی ہوتے ہیں اور روگ بھی۔ قبرستانوں میں آسودہ خاک ہوئوں کو ان دونوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔

بہت سال ہوتے ہیں جب میں نے لکھا تھا

’’لازم ہے کیا جسے چاہا جائے اسے پا بھی لیا جائے۔ ہر چیز کا وقت مقرر ہے” ،

تحریر ان لفظوں تک پہنچی تو ایک سوال آن موجود ہوا۔ ’’وقتِ مقرر‘‘ کون لکھتا ہے؟ فقیر راحموں نے کہا شاہ، آدمی سب خود لکھتا مٹاتا اور بناتا ہے۔ بس کامرانی سے دامن بھرتا ہے ناکامیوں کا دوش ’’کسی‘‘ اور پر‘‘۔

کیا مطلب میں نے پوچھا۔ اس نے کہا، "یار یہ زاہدوں جیسی باتیں نہ کیا کرو جو نیکی پر اتراتے ہیں اور خرابی کو مقدر کا لکھا کہتے ہیں۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ حرم میں جانے کی توفیق عطا ہوئی، میخانہ میں شیطان بہکاکر لے گیا‘‘۔

پسندوناپسند کیا ہے آدمی صاف پانی پینے کے لئے چشمہ پر رُکتا ہے۔ پیاس سے جان نکل رہی ہوتو پھر چشمے اور جوہڑ کا فرق کہاں رہتا ہے۔ سچ یہی ہے کہ پانے کے لئے تلاش لازمی ہے۔ ’’وہ‘‘ اور کامیابی دونوں ہماری دہلیز تک چل کر نہیں آتے۔

بیت چکی ساعتوں میں سے کسی ایک ساعت میں فقیر راحموں سے پوچھا تھا آدمی کو سب سے زیادہ کس چیز سے بچنا چاہیے؟ اپنے مرشد کریم کی خانقاہ میں بیٹھے فقیر راحموں نے آہستہ سے کہا

’’شاہ، ’’آدمی کی آبرو پر کمینگی کا داغ نہیں ہونا چاہیے، ظاہروباطن ایک جیسا رہے اور بھائیوں کا گوشت مرغوب نہ ہو‘‘۔ کبھی کبھی یہ فقیر راحموں عجیب و غریب باتیں کرنے لگتا ہے۔ جب کبھی ایسا ہوتاہے تو میں اسے خاموشی سے دیکھتا اور سعادت مندوں کی طرح اس کی باتیں سنتا رہتا ہوں۔

خاموشی بھی ایک طرح کی ریاضت ہی ہے۔ پورا سچ یہی ہے کہ آدمی خوبیوں اور خامیوں سے گندھا ہوا ہے۔ یہاں کچھ ایسے بھی ہیں جو صرف خوبیوں کو پسند کرتے ہیں۔ دوست کو تو دونوں یعنی خامیوں اور خوبیوں کے ساتھ قبول کرنا اور ساتھ رکھنا چاہیے۔

بات یہاں تک پہنچی تو یاد آیا، زُہیر نے کہا تھا

’’کتنے ہی خاموش لوگوں کو تو دیکھتا ہے، جو تجھے بھلے لگتے ہیں۔ ان کی کمی بیشی کا احوال تو گفتگو پر ہی کھلتا ہے‘‘۔

معاف کیجئے گا، آدمی ہے کیا۔ آگ، پانی، مٹی، بس یہی فقط۔ لیکن اسی آدمی کی زبان سے لگا زخم برچھی کے زخم سے زیادہ گہرا اور دیرپا ہوتا ہے۔ زبان سے لگائے گھائو بہت مشکل سے بھرتے ہیں۔ زبان اور رفتار دونوں پر آدمی قابو رکھے تو یاد کیا جاتا ہے۔ ورنہ یہاں لاکھوں آئے اور چلے گئے کیا سبھی یاد ہیں یا سبھی بھلادیئے گئے۔

آیئے پھر حسین بن منصور حلاجؒ کو ملتے ہیں۔ حلاجؒ کہتے ہیں

’’تو مجھے اپنا دیوانہ بنارہا ہے، ذکر نے ہوش نہیں اڑائے، میرا دل ذکر سے اٹکا ہوا ہے۔ ذکر تو وسیلہ ہے جو تجھے میری نظروں سے پوشیدہ کردیتا ہے۔ جب میرے ذہن سے میرے افکار اسے گھیرلیں‘‘۔

بات کچھ آگے بڑھ پائی تو فقیر راحموں نے کہا شاہ

’’آدمی ہے، زبان تعارف ہے، کامیابی اور ہلاکت خیزی دونوں اس کی مرہون منت ہیں‘‘۔

حلاجؒ کہتے ہیں ’’میں نے ادیان کے بارے میں گہرے تفکر میں تحقیق کی، اور انہیں کئی شاخوں والی جڑوں کی طرح پایا۔ کسی سے اس کے دین اور عقیدے کے بارے میں سوال مت کرو، یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے۔ تمہارا سوال اذیت سے بھرا ہے ۔ کسی کو اس کی جڑ سے جدا کرنا درست نہیں ۔ آدمی اس کے لئے سرگرداں رہتاہے۔ جیسے جیسے معنی آشکار ہوں گے وہ جان لے گا‘‘۔

ہمارے استاد مکرم مگسی صاحب مرحوم فرمایا کرتے تھے، جستجو مکمل ہونے پر سوال مکالمے کی بنیاد رکھتے ہیں۔ درست بات یہی ہے، جستجو مکمل ہوگی تو درست یا غلط آشکار ہوگا۔ بنا جستجو کے درست و غلط کی گردان بذات خود غلط ہے۔

میاں محمد بخشؒ کہتے ہیں ’’اس نے عشق کے بیوپار میں نگینے بیچ کر دکھ کمائے تھے‘‘۔

فقیر راحموں ایک دن کہہ رہا تھا ’’تسخیر کا جنون درست نہیں‘‘۔ تب پھر یہاں محمد بخشؒ یاد آئے کہتے ہیں

’’دنیا تو ایک قدیم باغ کی صورت ہے نت نئے پھول کھلتے ہیں۔ کچھ تو ان میں کھلتے رہتے ہیں کچھ کھلتے ہی توڑ لئے جاتے ہیں لیکن باغ اپنی جگہ رہتا ہے‘‘۔

کبھی کبھی اس دانشمند پر حیرانی ہوتی ہے جس نے کہا تھا ’’اس دنیا سے جی لگانا درست نہیں، یہ وہ دلہن ہے جس نے لاکھوں خاوند کئے اور سب کو کھاگئی‘‘۔

پتہ نہیں کیوں یہ کہا۔ دنیا ڈائن تھوڑا ہی ہے۔ بے لگام خواہشوں کی ڈائن تو اس سے سوا ہے۔

وارث شاہؒ کہتے ہیں،” کانوں میں چھید کرالینے اور بُندے پہن لینے سے فقیر نہیں بن جاتا، فقیری کے لئے اپنے ذاتی اوصفات کی نفی لازم ہے‘‘۔

مرشد کریم سیدی بلھے شاہؒ نے کہا

’’محبوب کا ورد کرتے اب ہم خود ہی محبوب ہوگئے، اب کس کو محبوب کہیں، ہجرووصال دونوں سے بے نیازی نے ہمیں خود سے ملادیا۔ اس سے ملاقات سے پہلے میں سوچتا ہی رہتا تھا کہ میں آخر ہوں کون؟‘‘

مرشد فرماتے ہیں

’’الف ‘‘ سے ہی میرا دل لہو رنگ ہے میں اس کے رنگ میں رنگا ہوا ہوں۔ مجھے ’’ب‘‘ کی خبر نہیں۔ بس ایک ’’الف‘‘ پڑھ لو پھر اسے سمجھو اگر تم الف کو سمجھ نہیں پارہے تو سر پر عذابوں کی گٹھڑی اٹھائے جلادوں جیسی شکل ہوجائے گی‘‘۔

سلطان باہوؒ کہتے ہیں

’’بے ادب لوگوں کو ادب کے مقام و مرتبہ کی بھلا کیا خبر، وہ تو اپنی ذات کے اسیر ہیں، یہ جو ’’میں‘‘ ہے سارا جھگڑا اسی کا ہے بس توں ’’میں‘‘ کو مار پھر ادب کا قرینہ آئے گا‘‘۔

’’کچھ لوگ بھی بہت عجیب ہوتے ہیں علم صرف اس لئے حاصل کرتے ہیں تاکہ امرا اور ان جیسوں کو متاثر کرسکیں۔ بھلا ایسے علم کا کیا فائدہ۔ خراب دودھ کو جتنا مرضی ابال لیجئے فائدہ کچھ نہیں اس میں سے مکھن نہیں نکالا جاسکتا‘‘۔

سلطان باہوؒ ہی کہتے ہیں ’’خستہ دلوں کو راضی رکھنا سالوں کی عبادت سے افضل ہے‘‘۔

یہاں تک لکھ پایا تھا کہ فقیر راحموں نے متوجہ کرتے ہوئے کہا ’’شاہ، یہ جو دیدار یار کی آرزو ہے اس کے لئے اپنی ذات کی نفی لازم ہے‘‘۔

مجھے حسین بن منصور حلاجؒ یاد آگئے۔ حلاج کہتے ہیں ’’ہم ہوں یا تم، ہم ہیں تم ہو، تم ہو کہ ہم، ہم ہی ہم ہیں یہ بتائو کہ تم کہاں ہو‘‘۔

مرشد کریم سیدی بلھے شاہؒ کہتے ہیں ’’ملائوں اور برہمنوں نے ہمیشہ لوگوں کو ڈرایا کہ تمہارے رخصت ہونے والے سخت عذابوں سے دوچار ہیں انہیں عذابوں سے نجات دلانے کے لئے ’’جتن‘‘ کرو۔ جتن اصل میں دونوں کا کاروبار ہے اور شکم سیری کا ذریعہ‘‘۔

بے حساب موسم بیت گئے باقی کتنے رہ گئے لیکن اصل سوال تو یہ ہے کہ آدمی کو اپنے ہونے کا حق ادا کرنا ہے یا بس ہونے کا احساس دلانا ہے؟

چلئے ہم اور آپ اس سوال پر غور کرتے ہیں، سوال ہی تو زندگی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author