ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر 5 جولائی 2015 کی مگر تازہ
وسعت نظر
ڈاکٹر مجاہد مرزا
چین سکوں کی تلاش کیوں ؟
یہ بھی کوئی زندگی ہے، کمپویٹر کے ساتھ چپکے رہنا۔ انٹرنیٹ میں وہ کیا ہے جو پڑھا نہ گیا ہو اب تک۔ نئی تحقیق روز تو سامنے آتی نہیں۔ موسیقی، فیلم سبھی کچھ اس چھوٹی سکرین پر۔ فنکاروں اور اداکاروں کے جثے ذہن میں مکمل کیے جاتے ہیں۔ کوئی سماجی تحرّک بھی تو نہیں ہے۔ سیاست بھی سکڑ کر مونیٹر پر لکھنے ، پڑھنے، رائے دینے، رائے موصول ہونے تک محدود ہو چکی ہے۔ گھر سے نکل کر اکیلے کہاں جائیں؟ پارک میں، شہر میں لیکن وہاں کوئی شناسا نہیں۔ میوزیم یا آرٹ گیلری بھی آدمی کتنی بار دیکھ سکتا ہے؟
سچی بات ہے کہ مجھے نہیں معلوم شاید آپ سب کی زندگیاں اسی طرح سکڑ چکی ہوں لیکن ہم جو دو دوست آپس میں اس قسم کی باتیں کر رہے تھے جو سچ کے سوا کچھ نہیں وہ اس ملک میں نہیں رہتے جہاں وہ پیدا ہوئے تھے یعنی ملک عزیز پاکستان میں۔ وہ اب جہاں ہیں یہ ملک دوسرے پاکستانیوں کے لیے غیر ملک ہے۔ اس کے برعکس اتنا عرصہ یہاں بسیرا کرنے کے بعد ہمیں اپنا ملک غیر ملک لگنے لگا ہے۔
ہم دونوں اس غیر ملک میں لوٹ کر اسے پھر سے اپنا ملک سمجھنے کی کوشش کرنے کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔ معاملہ یہ ہے کہ دور کے ڈھول سہانے لگا کرتے ہیں۔ ہم جیسے لوگ جو دوسرے ملکوں میں جا کر ان ملکوں کو اپنا ملک سمجھنے کے مخمصے سے باہر نہیں آتے اور جس ملک کو چھوڑ کر آئے تھے، اس ملک میں معاملات کو ویسا ہی سمجھتے ہیں یا کچھ کچھ ملتے جلتے جیسے وہ ہوا کرتے تھے، وہ شاید امید اور یاد ماضی کے گرداب کے ساتھ جھوجھ رہے ہوتے ہیں۔
لگتا ہے جیسے جس جگہ کو سالہا سال پہلے چھوڑ کر آئے تھے وہاں باغوں میں جھولے پڑے ہیں۔ الہڑ لڑکیاں بسنتی کپڑے پہنے پینگیں جھونٹ رہی ہیں۔ نوجوان پتنگ اڑا رہے ہیں اور پیچ لڑا رہے ہیں۔ بزرگ آسمان کی جانب منہ کیے چارپائیوں پر بیٹھے حقے گڑگڑا رہے ہیں اور بوڑھیاں ان کے قریب پائنتیوں کی جانب بیٹھی گلوریاں چباتے ہوئے چھالیا کتر رہی ہیں۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ سب کچھ بدل چکا ہے۔
کنزیومر سوسائٹی اور انتہا پسندی نے مل کر رویے بدل ڈالے ہیں، میل جول کے انداز اور کر دیے ہیں۔ لاہور شاہدرہ سے رائے ونڈ تک پھیل چکا ہے۔ لوگ بکھر چکے ہیں۔ مصروفیت نہ بھی ہو تب بھی مصروف ہونے کا تصور کرتے ہیں۔ کسی کو فون کیے بغیر اور طے کیے بغیر ملنا نہ صرف یہ کہ ممکن نہیں ہے بلکہ اکثر لوگ برا بھی مناتے ہیں۔ کبھی خوشدلی کے ساتھ کبھی منہ ٹیڑھا کرکے کہہ ہی دیتے ہیں،”یار فون تو کر لیا ہوتا، اگر میں گھر نہ ہوتا تو”۔ بات تو ان کی درست ہوتی ہے۔
ہم جب یہاں سے واپس پاکستان جاتے ہیں تو اصل میں وہاں مہمان ہوتے ہیں۔ اپنے گھر والوں کے بھی، یاروں دوستوں اور شناسا افراد کے بھی۔ اس لیے میل ملاقات میں ہمارے ساتھ کچھ حد تک رعایت برتی جاتی ہے۔ مگر پھر بھی معاملہ کوئی اتنا سیدھا نہیں ہوتا۔ میں جب بھی پاکستان گیا اور جس شہر میں بھی گیا۔ ایک دو بار سبھی دوست کہلانے والوں اور بہتر طور پر شناسا لوگوں کو دو بار نہیں تو ایک بار ضرور فون کر لیتا ہوں۔ میں نے تجربے کے طور پر ایک ایک ماہ انتظار کرکے دیکھا ہے، شاید ہی کسی کا فون آتا ہو۔
ایسا نہیں ہے کہ لوگ سردمہر ہو گئے ہیں۔ بات یہ ہے کہ اتنے عرصے میں مصروفیات، ملاقاتیں، دوستیاں، مفادات سبھی کچھ تو بدل گیا ہوتا ہے۔ مجھے ان سے گلہ نہیں مگر میں یقینا” بائیس پچیس سال پہلے کے سے تعلق کی توقع کر رہا ہوتا ہوں چنانچہ میں غلط ہوتا ہوں۔
آپ کسی بھی جگہ جاتے ہیں تو اپنے اثاثے اور وسائل کے ساتھ جاتے ہیں۔ آپ کی پذیرائی بھی آپ کے اثاثے اور وسائل کے مطابق ہوتی ہے۔ یہ اثاثے اور وسائل مادی اور روحانی یا علمی و عملی دونوں طرح کے ہوتے ہیں۔ اسی لیے تو غالب نے کہا تھا ع کعبہ کس منہ سے جاؤ کے غالب۔ کعبے والا بھی آپ کے اثاثے اور وسائل دیکھ کر متوجہ ہوتا ہے لوگ تو پھر لوگ ہیں۔
جی ہاں میں تو بھول ہی گیا تھا کہ اصل سوال تو یہ ہے کہ "چین سکوں کی تلاش کیوں؟”۔ آئیے پہلے طے کر لیتے ہیں کہ چین و سکوں کس چڑیا کو کہتے ہیں؟ چین سکوں ماسوائے اطمینان کے اور کسی چیز کو نہیں کہا جاتا۔ البتہ مطمئن ہونے کے پیمانے نسبتی ہیں۔ مثلا” ایک حساس شاعر کبھی مطمئن نہیں ہوتا یا دوسرے لفظوں میں درد دل رکھنے والا کوئی بھی انسان۔ ایک اطمینان بدنی ہوتا ہے کہ آپ کے پاس ایک مناسب گھر ہو ، اپنا نہ سہی، کرائے کا سہی لیکن اس کا کرایہ ادا کرنے میں پریشانی لاحق نہ ہوتی ہو مطلب یہ کہ آمدنی کا مناسب ذریعہ بھی ہو اور حیر سے وہ ذریعہ مستقل بھی ہو۔ اچھا ہے کہ آپ کی آل اولاد بھی ہو اور وہ آپ کے حساب سے نیک اور بھلی بھی ہو۔ لفظ نیک پر چونکیے مت، نیک کا مطلب اچھے اطوار کا مالک ہونا اور خلیق ہونا ہونا ہے، ایسے افراد جن سے کسی کو گذند نہ پہنچے نیک کہلاتے ہیں اور وہ آپ کا خیال بھی رکھ سکیں۔ اولاد نہ ہو تو کم از کم بیوی ایسی ہو جو ڈھلتی عمر میں بھی آپ کو اور آپ کے مسائل کو سمجھتی ہو اور ان دونوں کے ساتھ ہم آہنگ اور متوازن ہونے کا ہنر جانتی ہو۔
پھر ایک اطمینان ذہنی یا روحانی ہوتا ہے۔ یہ ہر ایک کا اپنا اپنا ہے کوئی دولت کی فراوانی سے مطمئن ہوتا ہے کوئی شہرت کی بلندیوں سے اور کوئی خود کو پہچانے جانے سے۔ آپ جو کچھ کہتے ہیں، لکھتے ہیں وہ اس لیے ہوتا ہے کہ لوگ اسے سنیں اور پڑھیں۔ اختلاف کریں ، اتفاق کریں۔ آپ کی بات نسبتا” زیادہ درست ہو تو اس کو نہ صرف مانیں بلکہ اس پر عمل بھی کریں اور آپ کو تسلیم بھی کریں یعنی تعظیم تو کریں ہی توصیف بھی کر دیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔
بہت مختصر اور بہت حد تک غیر واضح طور پر یہ بتانے کے بعد کہ چین سکون کیا ہوتا ہے اب یہ دیکھتے ہیں کہ اسے پانے کی جستجو کیوں ہوتی ہے؟ یہاں آتی ہے بات تسکین قلب کی۔ تسکین قلب دل کے مطمئن ہو جانے کو کہا جاتا ہے۔ اگر آپ کو مادی اور روحانی دونوں نوع کے اطمینان میسر آ جائیں تو آپ خود کو دنیاوی جنت میں محسوس کرنے لگیں گے۔ آپ کے تکلم میں ٹھراؤ آ جائے گا۔ آپ کی آنکھوں میں تبسم مہکتا ہوا دکھائی دے گا اور آپ سے ہم کلام ہونے والا نہ صرف خود اطمینان محسوس کرے گا بلکہ آپ سے "چین سکوں” پانے کا نسخہ بھی دریافت کرے گا جبکہ آپ مسکرا کر کہہ دیں گے ع :
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر