دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مُودا کنجر کون تھا؟||یاسر جواد

ضیا شاہد بھی کاریگر آدمی تھا۔ تین چار ماہ میں ہی ضیاشاہد اور اکبر علی بھٹی کے اختلافات ہو گئے تو وہ الگ ہو گیا اور اپنا اخبار ’’خبریں نکالنے کا فیصلہ کیا۔ 1992ء کے آغاز میں ایک شادی ہال میں 1100 لوگوں کا ٹیسٹ لیا۔ فدوی بھی اُن ٹیسٹ دینے والے نوجوانوں میں شامل تھا۔ اخبار نکلا تو پیشانی درمیان میں کرنے کے پروگرام بنتے رہے۔

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1970ء یا 1980ء کی دہائی میں صحافت کیسی تھی، یہ مجھے براہِ راست نہیں معلوم۔ 1990ء کی دہائی کی متعلق کچھ حد تک معلوم ہے۔ پہلے روزنامہ جنگ اور نوائے وقت ہی مرکزی دھارے کے اردو اخبارات تھے، جبکہ ڈان اور دی نیشن کو انگلش صحافت میں ستون کی حیثیت حاصل تھی۔ بہت جلد اخبارات کی ریل پیل ہو گئی جس کی بڑی وجہ کمپیوٹر کی سہولت تھی۔ اردو اخبارات میں ہیئت اور کنٹنٹ کے حوالے سے بہت تجربات ہوئے، مگر کافی حد تک ناکامی ہوئی۔ ان تجربات میں ضیاشاہد کا بہت ہاتھ تھا۔
ضیا شاہد نے اخبار کی پیشانی کو دائیں طرف کی بجائے وسط میں لانے کو ایک انقلاب سمجھا۔ جعلی ادویات کے سکینڈل میں شہرت پانے والے نیم خواندہ اکبر علی بھٹی کے ساتھ مل کر ’’پاکستان‘‘ نامی اخبار نکالا۔ کسی نے اکبر علی بھٹی سے اُس کی تعلیم پوچھی تو اُسے ساتھ لے کر نیوز روم میں گیا اور ایک سب ایڈیٹر سے اُس کی ڈگری پوچھی۔ پھر دو تین سے اور بھی پوچھا، ’’کاکا، کیہ تعلیم اے تیری؟‘‘ سب نے جواب دیا، ’’ایم اے۔‘‘ اکبر علی بھٹی نے سوال کرنے والے سے کہا، ’’یہ ساری میری ہی ڈگریاں ہیں۔‘‘ وہ کاریگر آدمی تھی۔
ضیا شاہد بھی کاریگر آدمی تھا۔ تین چار ماہ میں ہی ضیاشاہد اور اکبر علی بھٹی کے اختلافات ہو گئے تو وہ الگ ہو گیا اور اپنا اخبار ’’خبریں نکالنے کا فیصلہ کیا۔ 1992ء کے آغاز میں ایک شادی ہال میں 1100 لوگوں کا ٹیسٹ لیا۔ فدوی بھی اُن ٹیسٹ دینے والے نوجوانوں میں شامل تھا۔ اخبار نکلا تو پیشانی درمیان میں کرنے کے پروگرام بنتے رہے۔
خبریں اخبار نے دوشیزہ ’’ش‘‘ کے ساتھ زنا کی خبروں اور قبضہ مافیا کے خلاف حصہ داری کی ’’جنگ‘‘ کے علاوہ ہیرامنڈی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو بھی خصوصی اہمیت دی۔ وہاں کی یونین کا سربراہ مُودا کنجر نامی شخص تھا جس کے کئی طویل انٹرویو ریکارڈ کر کے ضیا شاہد نے کیسٹیں اپنے پاس محفوط کر لیں۔ اُس انٹرویو کے کچھ حصے ’’چلائے‘‘ اور دھمکانے میں استعمال بھی کیے گئے۔ سننے میں آیا کہ مُودے کنجر کے مطابق بازار میں ضیا الحق کی اولاد بھی تھی۔ واللہ اعلم۔
یہ ایک انحطاط اور تنزلی کا عروج تھا۔ مُودے کنجر کی طاقت نے قلم کا روپ دھارا اور قلم کی طاقت کنجر بن گئی۔ انگلش میں Conjuror کرتب دکھانے والے کو کہتے ہیں۔ پنجاب کے کنجر بھی کرتب ساز تھے۔ کنجر، نٹ، بازی گر اور بھاٹ ملتے جلتے پیشے اور ذاتیں تھے۔ لاہور میں اِن کا ایک ٹھکانہ داتا صاحب کے قریب تھا۔ غالباً بھاٹوں کی نسبت سے ہی لاہور کے بھاٹی دروازے کا نام پڑا۔ خالص کنجر کچھ آگے مینارِ پاکستان کے سائے میں ٹکسالی گیٹ میں مرکوز ہو گئے۔ بادشاہی مسجد کے ساتھ سے ہو کر ایک راستہ وہاں سے علامہ اقبال کے مزار پر نکلتا ہے۔
صحافت اور کنجروں یا Conjurors کا دور پورے زور شور کے ساتھ جاری ہوا۔ ان میں سے بیش تر کو اکمل شہزاد گھمن نے اپنی گراں قدر کتاب ’’میڈیا منڈی‘‘ میں جگہ دی ہے۔ شاید اکمل نے جان بُوجھ کر پورے قبیلے کی ہم شناخت ہستیوں کو ہی موضوع بنایا اور اُن کے مفصل انٹرویوز کی کیسٹیں ریکارڈ کر کے لکھیں۔ گھمن صاحب کراہت محسوس نہیں کرتے۔ وہ پردہ پوشی بھی کرتے ہیں۔ لیکن اُنھیں صحافت کے گٹر میں اُترنے پر داد دینی چاہیے۔ اُنھوں نے Conjurors کو ڈاکومنٹ کیا ہے۔ اُنھوں نے ہمارے موجودہ گھٹیا صحافت کی جڑوں کو کھوجا اور ڈاکومنٹ کیا۔
نوٹ: یہ کتاب غیر تنقیدی ہے۔ مگر یہ تنقیدی رائے بنانے میں آپ کو مدد دیتی ہے۔
کتاب فکشن ہاؤس نے شائع کی۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author