نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سچ تو یہ ہے ۔۔۔۔۔؟ ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کڑواسچ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کی مروجہ سیاست کے سارے رنگ ڈھنگ صرف شخصیات کی ذاتی انا کی تسکین سے عبارت ہیں۔ قائدین کی زبان دانیوں اور ان کے محبین کا مخالفین بارے شوروغول ہر دو مسائل کے حل میں ہرگز معاون نہیں بن سکتے۔ بادی النظر میں سماجی اقدار و اخلاقیات اور جمہوری روایات کی پاسداری کی امید بے معنی لگتی ہے پھر بھی یہ عرض کیا جانا مبنی برحقیقت ہے کہ سیاسی قائدین کو سنجیدگی کے ساتھ ملکی حالات، مسائل اور مشکلات پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے۔

وزیراعظم نے اگلے روز کہا کہ

’’8ماہ کی حکومت 30سال کی خرابیاں ختم نہیں کرسکتی‘‘۔

انہیں یاد دلایا جانا چاہیے کہ اولاً تو یہ عرصہ 30نہیں 32برس ہے دوسرا یہ کہ 30برسوں میں حکمران اتحاد کی دو بڑی جماعتیں لگ بھگ 18برس اقتدار میں رہیں۔ 10برس جنرل پرویز مشرف اقتدار میں رہے اور پونے 4برس عمران خان اقتدار میں رہے۔

اس طور یہ خرابیاں انہی ادوار میں ہی پیدا ہوئیں۔ بہتر ہوگا کہ اس عرصہ کے دوران اقتدار میں رہنے والی جماعتیں اور شخصیات اپنے اپنے حصہ کی ذمہ داری قبول کریں گو ہمارے ہاں اپنی پالیسیوں اور غلطیوں سے پیدا ہوئے بگاڑ کا کھلے دل سے اعتراف کرنے کا چلن کبھی بھی نہیں رہا پھر بھی امید کا دامن چھوڑے بغیر توقع کی جانی چاہیے کہ آج نہیں تو کل سیاسی قائدین کو یہ احساس ہو ہی جائے گا کہ ان کی پالیسیوں اور طرز سیاست دونوں کے مثبت نہیں منفی نتائج برآمد ہوئے اور آج ملک جن عذابوں سے دوچار ہے اس کا ذمہ دار کوئی تنہا شخص ہے نہ جماعت۔

البتہ یہ امر اپنی جگہ درست ہے کہ ان گزرے 32-30 برسوں کے دوران فیصلہ کن حیثیت رکھنے والی اسٹیبلشمنٹ کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ انتخابی مینجمنٹ اور سیاسی جماعتوں کو توڑ کر ریاستی طاقت سے نئی جماعت بنوانے اور حاکمیت اعلیٰ کی ڈوریں اپنے ہاتھ میں رکھنے کے ان کے شوق نے مسائل ہی نہیں گہرے گھائو بھی لگائے۔

اب بھی ماضی کی طرح ایک دوسرے کو مسائل کا ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اصلاح احوال کی صورت تلاش کی جائے تاکہ مسائل کے انبار کے نیچے سسکتے عام آدمی کو زندگی کے باقی ماندہ سانس لینے میں دشواری نہ ہو۔ روزانہ کے اخبارات کے ذریعے ملک کی بڑی چھوٹی سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ اور دوسرے درجہ کی قیادت کے جو زریں خیالات عوام الناس تک پہنچتے ہیں انہیں پڑھ کر فشار خون بلند ہی ہوتا ہے۔

کیا مجال کہ ان میں سے کسی نے ماضی کے تجربات و حوادث اور اپنی حکومتوں کے ادوار میں ہوئی ناکامیوں سے سبق سیکھنے کی ضرورت محسوس کی ہو۔

ملک میں اس وقت بحران ہی بحران ہیں اور مسائل ہی مسائل۔ عام آدمی کی حالت دن بدن خراب تر ہوتی جارہی ہے۔ طبقاتی خلیج بڑھ رہی ہے۔ لوگوں کے لئے دو وقت کی روٹی کا سامان کرنا ازبس مشکل ہوگیا ہے۔

سیلاب سے مل کا ایک تہائی حصہ زیرآب آجانے کی وجہ سے متاثرہ علاقوں کے لگ بھگ 80فیصد حصے پر گندم کی نئی فصل کاشت نہیں ہو پائی ۔ دوسری جانب دیگر اجناس کی کاشت بھی متاثر ہوئی جس سے جنم لینے والا مہنگائی کا سیلابِ بلا رکتا ہوا دیکھائی نہیں دے رہا۔

صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ےہ کہ پیاز 250روپے کلو ہے اور آٹا 140رپے۔ دیگر اشیاء کے داموں کا بھی یہی حال ہے۔ ان حالات میں کیا لوگوں کے لئے یہ ممکن ہوگا کہ وہ محض اپنے محبوب قائدین کے بیانات سے پیٹ بھرلیں؟

یقیناً کرپشن کے علاوہ بھی چیلنجز ہیں اہم ترین مہنگائی، غربت اور بیروزگاری میں اضافہ اور معاشی ابتری ہے۔

یہاں غور طلب امر یہ ہے کہ ان چیلنجز سے عہدہ برآ ہونے کی حکمت عملی کیا ہے؟ دوسری جانب چاروں صوبوں میں الگ الگ مسائل بھی ہیں۔ مثلاً خیبر پختونخوا میں اہم ترین مسئلہ مالیاتی وسائل میں کمی ہے۔ حکومت کے لئے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی جوئے شیر لانے کے مترادف بنی ہوئی ہے۔ پنجاب میں جہاں وزیراعلیٰ نے اپنے آبائی ضلع کے ترقیاتی کاموں کے لئے 100ارب روپے کے فنڈز مختص کئے اور چند ماہ میں کروڑوں روپے کے حکومتی کمرشل (رنگین) اشتہارات سے تشہیر کا سامان کیا، بعض محکموں کے پنشنروں کو دو سے تین ماہ پنشن نہیں ملتی۔

بزرگ پنشنرز دربدر ہیں ان کی کہیں شنوائی ہوتی ہے نہ کوئی یہ سوچنے کی زحمت کرتا ہے کہ اگر اپنی پوری عمر ملازمت کو دینے والے ان پنشنروں کا مسئلہ حل نہ ہوا تو کیا ہوگا۔

بلوچستان حکومت وعدوں کے مطابق سیلاب متاثرین کو امداد نہیں دے پائی۔ ترقیاتی منصوبوں پر کام کی رفتار دعوئوں کے برعکس ہے۔

اسی طرح سندھ میں سیلاب متاثرین کے سنگین مسائل ہیں۔ صوبائی دارالحکومت میں لگ بھگ چالیس بیالیس برس سے رینجرز کے پاس کلی اختیارات ہیں اس کے باوجود آبادی کے حوالے سے ملک کے سب سے بڑے شہر میں سٹریٹ کرائم کی شرح ہمیشہ سے بلند ترین ہے۔

ان مسائل سے پیدا ہوئی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے آسمان سے فرشتے نہیں اتریں گے۔ منتخب حکومتوں اور انتظامی شعبوں کے ذمہ داروں کو اپنے اپنے فرائض بجا لانا ہوں گے۔

اس پر ستم حالیہ دہشت گردی کی لہر کا پھیلائو ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی اپنی ہم خیال اور اتحادی تنظیموں کے تعاون سے باردیگر اہداف کے حصول کے لئے سرگرم عمل ہے۔ حالیہ عرصہ میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان سمیت بعض دوسرے علاقوں میں دہشت گردوں کی کارروائیوں سے پیدا ہوعدم تحفظ کے احساس کو یکسر نظرانداز کیونکر کیا جاسکتا ہے۔

یہ امر اپنی جگہ درست ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے محکموں اور سکیورٹی فورسز کی مربوط کاروائیوں سے یہ تاثر پیدا نہیں ہوسکا کہ امن دشمن ریاست کے مقابلہ میں زیادہ طاقتور ہیں اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردوں کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے جس یکجہتی کی ضرورت ہے اسے نظرانداز کیا جارہا ہے۔

بیرونی قرضوں کا حجم ہی مان نہیں کہ گردشی قرضہ بھی 25سو ارب تک پہنچ گیا ہے۔

عمران خان 2018ء میں اقتدار میں آئے تو وہ 9سو ارب کے گردشی قرضے کو کرپشن کا نتیجہ قرار دیتے نہیں تھکتے تھے لیکن ان کے دور میں اس میں 16سو ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے اس طرح ان کی حکومت نے ماضی میں لئے گئے کل بیرونی قرضوں کے 40فیصد کے مساوی قرضے پونے چار برسوں میں لئے۔ ہماری دانست میں بزرگ سیاستدان سابق وزیراعظم اور ق لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین کی یہ بات سوفیصد درست ہے کہ ’’سیاسی و معاشی استحکام کے لئے، سبھی اکٹھے نہ ہوئے تو تباہی مقدر ہے، سیاسی استحکام نہ ہوا تو عالمی مالیاتی اداروں سے قرضوں کی مد میں مزید ایک دمڑی بھی نہیں مل پائے گی‘‘۔ کیا ہی اچھا ہو کہ سیاسی قائدین، چودھری شجاعت حسین کے اس انتباہ اور مشورے ہر دو کو سنجیدگی سے لیں اور باہمی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر لوگوں کی مشکلات کو دور کرنے کے ساتھ ان چیلنجز سے عہدہ برآ ہوں جو دن بدن بدترین ہوتے جارہے ہیں۔

یہ عرض کرنا بہت ضروری ہے کہ زبانی جمع خرچ اور وعدے وعید سے کچھ نہیں ہونا۔ ارباب سیاست و اقتدار کو اپنی اپنی جگہ ان سارے معاملات کو سنجیدگی کے ساتھ لینا ہوگا۔

انہیں یہ امر بطور خاص مدنظر رکھنا ہوگا کہ ان کی سیاست کا میدان اور اقتدار کی راج دھانی یہی مملکت ہے خاکم بدہن اگر مسائل حل نہ ہوئے، سیاسی اور معاشی عدم استحکام اسی منہ زوری سے آگے بڑھتے رہے تو اصلاح احوال کی کوئی صورت بن پائے گی نہ سیاسی عمل آگے بڑھ پائے گا۔ فیصلہ سیاسی قائدین نے کرنا ہے کہ انہیں اپنے اپنے مفادات عزیز ہیں یا ملک اور عوام؟

یہ بھی پڑھیں:

About The Author