ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم ہو سارے کے سارے لکیر کے فقیر، پیسے کمانے کی مشینیں، ڈیفنس اور دوسری پوش ہاؤسنگ ایریاز میں کوٹھیاں تعمیر کرانی یا خریدنی ہیں، اعلی فرنیچر اور دو چار نوکر رکھنے ہیں، مہنگی اور دلکش و آرام دہ گاڑیاں استعمال میں لانی ہیں، بچے باہر پڑھانے ہیں، اپنے جیسوں میں ان کے رشتے کرانے ہیں اور پھر وہی وہ بھی یہی چکر چلائیں گے۔
مگر دنیا کا جو بہت بڑا ادیب تھا فیور دستوئیفسکی، اس کا بھائی انقلابی تھا۔ لیکن یہ تھا مرگی کا مریض، اسے بھی فائرنگ سکواڈ کے آ گے کھڑا کر دیا گیا تھا، بندوقیں بلند ہوئی تھیں لیکن داغے جانے سے پہلے زار کے حکم کی وجہ سے مرنے سے بچ گیا تھا۔ مرگی کم ہو گئی مگر بلا کا جواری بن گیا اور بہت ہی بلا کا لکھاری، لکھ کے کماتا اور کھیل کے ہار جاتا، اس نے لکھا کہ موت سے پہلے کیسا محسوس ہوتا ہے مگر کرداروں کی زبانی۔
ہوا یوں کہ ڈیفنس لاہور کے جس گھر میں میرا کئی ماہ سے قیام ہے۔ اس کے سامنے والی سڑک کے اس طرف کی دوسری کوٹھی کے مالک کا جوان بیٹا جس کے دو بچے تھے اپنی پراڈو میں کروڑ سے کچھ کم رقم لے کے، باپ کے کہنے پہ کسی کو دینے نکلا مگر دوسری ہی گلی میں اس کی گاڑی کھڑی تھی اندر سے لاکڈ۔ وہ گولی کھا کے لاش بن گیا تھا۔ رقم ویسی کی ویسی گاڑی میں تھی اور ایک پستول تھا۔ اغلب یہی ہے کہ اس نے خود کشی کر لی، کیوں؟ معلوم نہیں۔
تعزیت کو آنے والوں کی گاڑیوں سے گلی بھری ہوئی تھی، کل بھی اور آج بھی۔ ساتھ کے آمنے سامنے والوں نے اپنی کوٹھیوں کے دروازے کھول دیے تاکہ تعزیت کے لیے آنے والوں کو تکلیف نہ ہو۔
تکلیف تو اسے تھی جس نے جانے میں عافیت جانی۔ تو آج میں ان کاروں اور لوگوں میں سے گزر کے اسی سڑک پہ سیر کرنے نکلا، جہاں سننے کے مطابق وہ مرا تھا۔ ذیلی سڑک ہے۔ سنسان تھی۔ پہلے تو سوچا کہ کنپٹی میں سوراخ سے خون بہاتا جوان بھوت نہ دکھائی دے جائے۔ پھر سوچا ممکن ہے حلق میں گولی ماری ہو۔ کنپٹی ہو یا حلق، بس آہنی نالی محسوس ہوئی ہوگی، انتہائی خوف سے تھوڑا سا ہاتھ کانپا ہو گا، وہ لمحہ پھلانگ کے گھوڑا دبا دیا اور سوچ کے سارے سنٹر منقطع، روح نکل گئی، روح بھٹک گئی، بھوت بن گئی اور اصل میں وہ رہا ہی نہیں اور میرا پہلا قہقہہ بلند نہ ہو سکا کہ بس اتنی سی بات سارا کروفر اڑنچھو۔
عید میلاد النبی ہے، امراء نے کوٹھیوں کو برقی قمقموں سے، اسی بلاک کی اسی گلی میں جہاں شاید بھوت بچ رہا ہو، اس طرح سجایا ہے جیسے بیک وقت بیاہ کی دو چار تقریبات برپا ہونی ہوں، کچھ میں تو پنڈال سجے ہیں، کرسیاں بھی ہیں، آرائشیں ہیں، تاکہ پتھر کا تکیہ بنانے والے، کوٹھری میں قیام رکھنے والے اور سادہ ترین ملبوس اور کالی کملی والے رحمت اللعالمین کا یوم ولادت منائیں مگر یہی لوگ جو استحصال، منافع خوری تاحتی سود اور کیا معلوم کن کن طریقوں سے کروڑوں کماتے ہیں مجال ہے مانگنے والے کو چند روپے بھی دے دیں۔ میرا دوسرا قہقہہ بلند ہوتے ہوتے رہ گیا۔ کیا پتہ؟
خالد فارمیسی سے 28 روز کے لیے فشار خون کم رکھنے کی دوا لے کے نکلا تو دروازہ کھول کے نکالنے والے نے اللہ حافظ کہا، ظاہر ہے یہ اس کی ڈیوٹی کا حصہ تو شاید ہو لیکن اس کی خواہش ہوگی کہ کوئی نظر کرم کر دے۔ ہزار روپے سے بچے ایک سو دس میں سے میں نے دس کا سوچا کہ چھوٹا نوٹ ہے لیکن سو دینے کا میں نے بھی نہیں سوچا۔ دور چلا گیا تو اپنی ہی حر کت پہ کڑھتا آ رہا تھا۔ کم مائیگی کے سبب ہی سو کی ”خطیر“ رقم خیرات نہ کرنے کا جی چاہا ہو گا نا کہیں درون دماغ سے۔
موت پہ تعزیت والی گلی مڑنے سے پہلے جی نے کہا بس کچھ عرصہ بعد ہن برسنے لگے گا۔ دیکھنا اللہ کرے گا، وارے نیارے ہو جائیں گے۔ یہاں تیسرا قہقہہ نکلنے سے پہلے گلوگیر سا کر گیا کہ میں ہوں کیا نہ تم لکیر کے فقیر امراء جیسا اور نہ فیودر دستوئیفسکی جیسا۔ یہ پیسہ آئے تو سہی پھر دیکھنا۔ ہا ہا ہا ہا
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ