حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیجئے ایک اور برس گزرگیا، نئے سال کا پہلا دن ہے۔ بیتے برس کی یادوں کی راکھ کریدیں، حساب کیجئے، بچھڑ جانے والوں کے لئے نوحے اور بچ جانے والوں کے لئے؟فقیر راحموں نے مداخلت فرماتے ہوئے کہا ’’زندوں کے لئے مرثیہ خوانی کرلیجئے یہ بھی بس نام کے زندہ ہیں ویسے تو زندہ درگور ہیں‘‘۔
بیتا برس دلچسپ تھا ہر حوالے سے تبدیلی سرکار رخصت ہوئی۔ تجربہ کار آئے اور ’’مَت‘‘ ماردی۔ آڈیو لیکس نے سماں باندھے رکھا۔ فقط "مرشدہ” کی "پٙت” رول دی گئی۔ کہانیاں بہت ہیں قصے بھی۔ ریاست بچتی ہے یا سیاست؟ ویسے دونوں کی ضرورت کیا ہے۔
اس سے قبل آگے بڑھیں سید ابوالحسن امام علی ابن ابی طالبؑ کا ارشاد گرامی یاد کرلیتے ہیں۔ فرماتے ہیں ’’معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے ظلم پر نہیں‘‘۔ مجھ میں اس ارشاد گرامی سے انکار کی تاب نہیں پھر بھی کبھی کبھار نجف اشرف کی طرف منہ کرکے عرض کرہی دیتا ہوں ’’ایک نظر ادھر بھی‘‘
چند دن ہوتے ہیں ایک دوست کے دوست نے ہماری ایک تحریر پر داد دیتے ہوئے کہا شاہ جی نے خوب لکھا مگر تھوڑا سا مذہبی ٹچ دیا۔ عرض کیا مذہبی ٹچ والی بات تب درست ہوتی جب کسی بات کی تبلیغ کی ہوتی۔ یہاں تو فقط ایک ذات اقدسؑ کا ذکر ہے وہ بھی شکر گزاری کے جذبوں سے عبارت۔
چلئے ہم پچھلے برس کی باتیں کرتے ہیں۔ انجمن حشیشانِ پاکستان کے لطائف سے عبارت سال تھا۔ لطائف تو تجربہ کاروں کے بھی بہت ہیں اور ’’رخصت ہوئی‘‘ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے بھی۔ اچھی بات ہے لطائف کی بدولت جی بہلتا رہتا ہے ورنہ مسائل کا سورج تو اب سوا نیزے سے بھی نیچے ہے۔
ڈالر سے پیاز مہنگے ہیں۔ پہلے کہتے تھے موت سستی ہے اب وہ بھی مہنگی ہے۔ کفن دفن، مولوی کا ہدیہ، قبر کھدائی کا خرچہ، سوئم سات جمعراتیں پھر چہلم۔ زندہ رہیں تو کیا اور مرجائیں تو پچھلوں پر بوجھ۔
گزرے برس اظہار کے ایک اور طریقہ پر ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کی ہمارے ہمزاد نے،آج پھر ایک تازہ نظم عنایت کی ہے پہلے وہ پڑھ لیجے
’’اللہ سائیاں! ہک بیا سال لنگ گئے، اوہا آساں ہن تے امیداں، ہنڑوی، تیڈی تانگ ہے، آویں تاں کجھ، حال ونڈائوں، میں تیکوں ڈساواں، رتی ماشہ، بدلی نئیں تھئی، اوہا جھیڑے ہن جیہڑے ہمیش ہوندن، بانگاں ہن تے نمازاں، سارے سودے نقد و نقد ہن، ساڈا حال اوہا ہے جہڑا ایں توں پچھلے سال ہا، پندھ مکدا نئیں، بھک ڈانڑ آلی کار کھاندی ہے، مخلوق دیاں کُڑلاٹاں سنڑے ہا، ہک واری وت، کُن آکھ چا، یا وت حساب دے پتریں کو بھا لواڈے‘‘۔
ہم اس فرمائشی پروگرام سے آگے بڑھتے ہیں۔ کئی مہینوں سے امڑی سینڑ کے شہر نہیں جاسکا۔ دوست اور جنم شہر بہت یاد آتا ہے۔ کبھی کبھار جی چاہتا ہے کہ بس ساعت بھر ہی لگے اور امڑی کی تربت پر قدموں کی طرف بیٹھ کر حال دل سنائوں۔ حالِ دل جو امڑی کے سوا کسی کو نہیں سنایا جاسکتا۔
بیتے برس میں بھی ہم نے ہمیشہ کی طرح قلم مزدوری کی کتابیں پڑھیں دوستوں سے ملاقاتیں رہیں۔ مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال ہوا۔ دوست بڑی نعمت ہیں اگر ہوں تو۔
دل چاہتا ہے کہ گزرے برس کےسیاسی اتارچڑھائو کا تجزیہ کیا جائے پھر فقیر راحموں نے کہا یار شاہ اس سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے۔ بات اس کی درست ہے۔ روزی روئی کے سارے جھمیلے ہیں۔ یہ اور بات کہ تلخیٔ حالات میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔
کاش کسی طرح بچپن کے سنہری دنوں میں واپس پلٹا جاسکتا۔ مگر کاش ہم نے بھی وہ سنہری دن دیکھے ہوتے ۔ ہمارا تو بچپن بھی محنت مشقت کرتے بیت گیا۔ بے فکری کیا ہوتی ہے کبھی اس کا تجربہ نہیں ہوا۔ صبر کے خیمے میں شکر کی مالا جپتے ماہ و سال گزرے۔ ناتواں مخلوق اور کر بھی کیا سکتی ہے۔
ہم نے سنا تھا خالق اپنی تخلیق کو سنیت سوار کر رکھتا ہے۔ بس سنا ہی تھا۔ چونسٹھ برسوں کے سفر میں جو دیکھا وہ سنے ہوئے سے یکسر مختلف تھا اور ہے بھی۔
تقسیم شدہ سماج میں مزید تقسیم سے جنم لینے والی بدمزگیاں دیکھی اور محسوس کی جاسکتی ہیں۔ معاف کیجئے گا بیت جانے والا برس بھی بالائی سطور کی طرح ہی تھا کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو سمجھائوں کیسے۔
معمولات زندگی حسب سابق ہیں۔ زیادہ وقت لائبریری میں گزرتا ہے۔ کبھی کبھی لاٹھی ٹیکتے ہوئے سیڑھیاں اترتا ہوں تو بہت مشکل پیش آتی ہے۔
وہ دن اب بس یادوں کا حصہ ہیں جب لمحہ بھر میں سفر کی تیاری کی اور نکل کھڑے ہوئے۔ اب لائبریری سے نچلی منزل پر جانے کے لئے دس بار سوچنا پڑتا ہے۔ ابن انشا یاد آرہے ہیں۔ اس یاد آوری کی وجہ ان کی مشہور زمانہ غزل ہے
فرض کرو یہ جوگ بجوگ کا ہم نے ڈھونگ رچایا ہو
فرض کرو بس یہی حقیقت باقی سب کچھ مایا ہو
بس فرض ہی کیجئے کہ بہت خوش ہیں اس فرض کرنے کے سوا اور کریں بھی کیا۔
اس عالمِ ناپائیدار سے بنے یا نہ بنے نبھانا تو پڑتی ہے۔ نبھا ہی رہے ہیں۔ آنکھ سے اوجھل ہوئی ساعتوں کے قصے ہیں۔ بس ’’دکھ اور طرح کے ہیں دوا اور طرح کی‘‘۔ والا معاملہ ہے۔ گزرے سال کے آخری دن کی دوپہر میں یہ سطور لکھ رہا ہوں ۔ فقیر راحموں نے کئی بار توجہ دلائی کہ بے ربط تحریر ہے۔ ربط کہاں سے لائیں، جنسِ بازار تھوڑا ہی ہے ربط۔ اطمینان سے کشید ہوتا ہے۔
یہ جو عہد نفساں ہے مسلط ہے اس سے نجات کی صورت نہیں بن رہی۔ چارہ گر ہی کوئی نہیں کہ چارہ گری کرے۔ زیادہ تر لوگ اپنے عیب اٹھائے ریگزار حیات کا سفر طے کرتے ہیں۔ ہم بھی انہی میں سے ہیں۔ وہ جو کسی شاعر نے کہا تھا
’’اس آس پہ زندہ ہے اب تک تیرا شیدائی‘‘
آسوں اور امیدوں کے دفتر بھرے پڑے ہیں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں کبھی کبھی جی چاہتاہے کہ دور کہیں کھلی فضا میں ایک کھٹیا ہو اور بس۔ مگر زندہ رہنے کی ضرورتیں اس چاہے جانے سے سوا ہیں۔
ان ضرورتوں کو پورا کرتے صبح سے شام ہوجاتی ہے۔ فقیر راحموں نے مداخلت کرتے ہوئے کہا "شاہ تم کچھ نیا نہیں کرتے سبھی لوگ یہی کرتے ہیں اسی کو زندہ کہتے ہیں ‘‘۔
سچ ہی تو کہتا ہے ہم نے کون سا نیا کام کیا۔ سفید پوش والدین کی اولادوں کو یہی سب کرنا پڑتا ہے۔
ایک دن ایک دوست کہنے لگے شاہ جی سب نصیب کی باتیں ہیں۔ نصیب پر ان کی طویل تقریر سننے کے بعد کہا پھر عدل کیا ہوا؟ خیر چھوڑیئے ان باتوں میں کیا رکھاہے سوائے مایوسی کے۔ کتاب حیات کے اوراق الٹئے، حساب کیجئے، یہ بہت ضروری ہے۔ مرشدی بلھے شاہؒ کے بقول بس ’’ اِک بندے دا دل نہ توڑیں‘‘۔ شرف انسانی کا پہلا سبق یہی ہے۔
ایک سبق سید ابوالحسن امام علی ابن ابی طالبؑ نے بھی دیا۔ فرماتے ہیں ’’انسان اپنی زبان کے پیچھے پوشیدہ ہے‘‘۔
یعنی کلام کرنے سے شخصیت کھلتی ہے۔ چار اَور دیکھ لیجئے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجائے گی۔
جو برس بیت گیا وہ ان مہربان دوستوں کی وجہ سے بہتر بیتا جنہوں نے ہمیشہ کی طرح حوصلہ بڑھایا ساتھ دیا۔ شکر گزاری کے جذبات ہیں اور دعائیں۔ سفر حیات جاری ہے۔
ایک برس بیتا نئے برس کا پہلا دن ہے۔ بھلا دن بھی کبھی بدلے ہیں محض سورج و چاند کے چکر ہیں۔ کبھی کبھی تو اجلا دھوپ سے نکھرا دن بھی طویل سیاہ شب جیسا ہی ہوتا ہے۔
سچ یہی ہے کہ امیدوں اور خوابوں کی فصل کاشت کرنے کا فائدہ کوئی نہیں۔ کاشت کرتے ہوئے ہتھیلیاں زخمی ہوتی ہیں اور ان کے ٹوٹنے سے آنکھیں۔ آنکھوں سے یاد آیا سفید موتیا اتر رہا ہے آنکھوں میں۔ معالج کا کہنا ہے ابھی اسی طرح گزارا کیجئے،آپریشن وقت پر ہی ہوگا۔ کچھ عرصہ سے لکھنے میں دشواری ہورہی ہے۔ بہت جھک کر لکھنا پڑتا ہے۔
خیر یہ وقت بھی کٹ جائے گا۔ وقت ایک جیسا کہاں رہتا ہے۔ جو برس بیت گیا اچھا تھا۔ یہ برس بھی اچھا ہی ہوگا۔ دائمی جدائی کا داغ دینے والوں کے لئے دستِ دعا بلند کرتا ہوں۔ صاحبان حیات کو اللہ کی امان ہو۔
صبح سے چونسٹھ برسوں کا بہی کھاتا کھولے بیٹھا ہوں۔ گزرے ماہ و سال کی فلم دیکھتے کبھی مسکراتا ہوں کبھی آنکھوں میں نمی اتر آتی ہے۔ فقیر راحموں کہتا ہے ’’شاہ یہ جو بالائی سطور میں تم نے لکھا اس کا فائدہ ؟‘‘
عرض کیا بس دل کا بوجھ ہلکا کیا ہے۔ معاف کیجئے گا ایک بے ربط تحریر پڑھنے پر۔ چلیں ہم اور آپ دست دعا بلند کرتے ہیں لیکن کیا صرف دعائیں کافی ہیں؟ نہیں نا تو پھر اپنے اپنے حصے کی بات کیجئے، صدا بلند اور اپنے حصے کا سچ وقت پر بولئے، یہی حقِ زندگی ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ