یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوبرُو لڑکیوں، سمجھ دار عورتوں اور شفیق خواتین کی تحریروں پر تبصرہ کرنا یا حتیٰ کہ تبصرے سے کنارہ کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔ مگر میرے پاس چند کتب پڑھنے کے لیے جمع ہو چکی تھیں، اس لیے باری باری یہ کرنا ہی پڑ رہا ہے۔
سیدہ شہناز نقوی کی کتاب نیل گگن کے تلے میں اُن کا ایک افسانہ Withdrawal ہے۔ جسے اُنھوں نے انگلش میں اس طرح ڈبو کر لکھا ہے جیسے ہماری عام گفتگو میں ’’مقامی‘‘ زبانیں بھی گھسی ہوتی ہیں۔ (مگر وہ حکمرانوں اور موجدوں کی زبانیں نہیں، اور اُن سے رعب بھی نہیں پڑتا نا!) محترمہ کا کہنا یہ ہو گا کہ بھئی پروفیسر کردار جیسے عام طور پر گفتگو کرتے ہیں کہانی میں بھی اُنھیں ویسے ہی گفتگو کروانی چاہیے۔ ایگزاسٹ فین کے بغیر کمرے میں ایگزسٹ کرنا، ڈیوائیڈ سے ایوائیڈ کرنا، ڈیٹرمین کرنا کہ ڈیٹرجنٹ سے دھلائی کیوں نہ ہو۔ کیا ہم یہ سب الفاظ نہیں بولتے؟ خیر بولتے تو اور بھی بہت کچھ ہیں۔ بس عضو اور پستان کے عام بولی والے الفاظ ہرگز نہیں لکھیں گے۔ استغفراللہ۔
ہماری شاید ہی کسی دکان یا کاروبار کا نام اُردو میں ہو۔ ملک شاپ، جنرل سٹور، ڈینٹنگ اینڈ پینٹنگ، جلال سنز، امتیاز سٹور، سپر مارٹ، ہائپر سٹار، سکول، روڈ سے لے کر لپ سٹک، الاسٹک، سٹیتھوسکوپ، سینیٹری پیڈز، ساکس (جمع ساکسیں)، شرٹ، شوز اور انڈرویئر تک اور شیو سے لے کر بَرا تک سبھی کچھ تو انگلش میں ہے۔ ہم گفتگو بھی نیم انگلش میں کرتے ہیں۔ ’’کچن میں چکن کو میرینیٹ کرنے کے لیے رکھا ہے، گیس پریشر کم ہے، اُف بہت سفوکیشن ہے۔‘‘
ہماری ساری بیماریوں کے نام انگلش میں ہیں، بالخصوص جن کا تعلق پوشیدہ اعضا اور غذا ہضم کرنے کے نظام سے ہے۔ تھروٹ انفیکشن ہو یا گائنی پرابلم، لارج انٹسٹائن میں سوزش، اووری میں سسٹ، بلڈپریشر ہو یا پیریڈز کی گڑبڑ، سبھی کچھ تو انگلش میں بیان ہوتا ہے۔ اب کانسٹی پیشن کو قبض بتائیں تو اگلے بندے کو سارے مسئلے کی ’’جڑ‘‘ کا اندازہ ہو جاتا ہے، جیسے سسٹر کو بہن کہنے سے بہن کی گالی ذہن میں آتی ہے۔ بیوی کہنے سے لگتا ہے کہ رات کو ساتھ سوئے ہوں گے، اِس لیے ’’فیملی‘‘ یا ’’بیگم صاحبہ‘‘ مناسب ہے نا! پیشاب آنا غیر علمی اور واش رُوم جانا مہذب ہے۔
کیا ہم سوچنے اور تخلیقنے بھی انگلش میں لگے ہیں؟ کیونکہ انگلش تو سب کی اچھی ہے، اُردو سب کی ’’سو سو۔‘‘ کیا ہم شاید ادب میں تخلیقی اظہار کے لیے انگلش کا سہارا لیے بغیر نہیں رہ سکتے؟ اور اگر یہ سہارا نہ لیں تو کیا ثواب ملے گا؟ مجھے نہیں معلوم۔ میں نے لیٹرینوں کی دیواروں سے لے کر غیر ملکی ادب اور ادویات کے ’لٹریچر‘ تک مختلف چیزیں پڑھی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ تخلیقیت کو زبان پر قربان نہیں کیا جا سکتا، چاہے زبان کو تخلیقیت پر قربان کر دیں۔ لیکن اگر آپ کپ میں سیگریٹ بجھائیں گے تو چائے ایش ٹرے میں ملے گی۔
اِس تخلیقیت کو creativity کہیں گی شہ ناز نقوی صاحبہ؟ الفاظ خیال کے پیکر ہوتے ہیں۔ عشق، پیار محبت، موہ love سے مختلف ہیں، رنج و الم اور دکھ بھی اینگزائٹی اور pain سے الگ شخصیت رکھتے ہیں۔ سیدہ اور مادام ایک نہیں۔ نیل گگن تلے کا ’’گگن‘‘ اور چیز ہے، اور بلیو سکائی اور چیز۔ نہیں؟ کوئی بھی دادا جان کے کتبے پر ’’نائس انسان‘‘ نہیں لکھوائے گا۔
زبان ایک نازک اور قابلِ غور معاملہ ہے۔ ہم اِسے نہیں یہ ہمیں استعمال کرتی ہے۔ استعمال ہوں، لیکن زبان کے ہاتھوں، نہ کہ بولی کے ہاتھوں۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر