رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1979ء سے لے کر 2022ء تک افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات میں ایک بڑی تبدیلی آ چکی ہے۔ ان 43برس میں پہلے ہم جہاد کے نام پر اپنے غریب علاقوں کے نوجوان ایکسپورٹ کرتے اور ڈالرز کماتے رہے۔ اب کھیل الٹا ہوگیا ہے‘ اب افغانستان سے طالبان یہاں لڑنے آرہے ہیں اور ہمارے ڈالرز افغانستان جا رہے ہیں۔ ہم نے ان 43برس میں اپنے وسائل کا رُخ افغانستان کی طرف کیے رکھا‘ خود کو یہ گولی دے کر کہ وہاں امن و امان قائم ہوگا‘ ہمارے لاڈلے کابل پر حکمران ہوں گے تو ہمارا مغربی بارڈر محفوظ ہوگا۔ مغربی بارڈر محفوظ ہونے کا مطلب تھا کہ ہم مشرقی بارڈر پر توجہ رکھ سکیں گے کیونکہ بھارت کے ساتھ ہمارا اَکھ مٹکا چلتا رہتا ہے۔ ہم نے مغربی بارڈر محفوظ کرنے کے چکر میں اپنا پورا معاشرہ تباہ کرا لیا۔ ہماری وجہ سے افغان معاشرہ بھی اس قدر تباہ ہو گیا کہ وہ خود کو اپنے گھروں میں محفوظ نہ پاکر پاکستان آگئے۔اب پاکستان اور افغانستان میں زیادہ فرق نہیں رہا۔ ہم اگر افغانستان کے کھیل میں حصہ دار نہ بنتے تو شاید افغان ایک دوسرے کے ساتھ اپنے سکور خود سیٹل کر لیتے۔ ہم نے سوچا نہیں‘ تاریخ میں یہی افغان ہندوستان اور آج کے پاکستان کے علاقوں کو فتح کرتے آئے اور یہاں صدیوں تک حکمرانی کی۔ اب اس صدی میں ہمارا زور چل رہا ہے تو کیوں نہ ہم بھی افغانوں پر سواری کر لیں۔ یوں ہم نے افغانستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کا پروجیکٹ تیار کیا اور پوری قوم اس کام میں جت گئی۔ پہلے ہم نے افغان معاشرے کو تباہ کیا تو جواباً وہ ہمارے ہاں آگئے اور انہوں نے ہمیں تباہ کردیا اور ہم نے خوشی سے خود کو تباہ کرایا۔ لاکھوں افغانوں کو پاکستانی شناختی کارڈز اور پاسپورٹس ایشوز کیے گئے۔ انہوں نے یہاں جائیدادیں خرید لیں۔ اس خطے کے لوگ پُرامن تھے‘جنگوں‘ لڑائیوں سے دور‘ لیکن سرحد پار سے کلاشنکوف آئی اور پھر ہیروئن کا کاروبار عروج پر پہنچا۔ اغوا برائے تاوان کا کام پہلے بھی ہوتا تھا لیکن پھر باقاعدہ بزنس بن گیا۔
خیبرپختونخوا کے ایڈیشنل آئی جی علی بابا خیل کا انٹرویو پڑھ رہا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اس وقت بھتے کی سب کالز افغانستان سے آرہی ہیں‘ خیبر پختونخوا اور دیگر علاقوں کے لوگوں کا جینا حرام ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے بگڑتے حالات کا پاکستان پر بُرا اثر پڑ رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک اسلام آباد میں افغان گینگز باقاعدہ آپریٹ کرتے تھے جو پولیس والوں کو نشانہ بناتے‘ گھروں میں ڈاکے مارتے اور لوٹ مار کرتے تھے۔ اب اس گینگ کے کچھ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ اُن میں سے اکثر موٹروے سے اسلام آباد آتے اور لوٹ مار کرکے چلتے بنتے ہیں۔ اب اسلام آباد کے اردگرد ایسی بستیاں بن چکی ہیں جہاں وہ وارداتیں کرکے چھپ جاتے ہیں جہاں پولیس نہیں جاسکتی۔موٹر ویز نے جہاں سفر آسان کر دیا ہے وہیں گینگز اور ڈاکوئوں کا کام بھی آسان ہوگیا ہے۔ آرام سے صبح ناشتہ کیا‘ گاڑی میں بیٹھے اور دو گھنٹے بعد اسلام آباد۔ یہاں پہلے لوکل آپریٹرز گھر تاڑ چکے ہوتے ہیں۔ آرام سے ڈاکا مارا اور پھر اسی موٹر وے سے واپس نکل گئے اور لنچ گھر پہنچ کر کیا۔ اس دوران اسلام آباد پولیس انہیں نہ کہیں روکتی ہے نہ ان کے سیف سٹی کیمرے کام کرتے ہیں۔
اب نیا سلسلہ شروع ہوچکا ہے‘ جب سے کابل پر طالبان کی حکومت آئی ہے پاکستان سے ڈالرز سمگل ہو کر سرحد پار جارہے ہیں۔ کرنسی ایسوسی ایشن کے ملک بوستان پریس کانفرنس میں کہہ رہے تھے کہ روزانہ ڈیڑھ کروڑ ڈالرز تو قانونی طور پر افغانستان جارہا ہے۔ روزانہ پندرہ ہزاربندہ سرحد پار کر کے جاتا ہے اور ہر ایک کو ایک ہزار ڈالرز لے جانے کی اجازت ہے۔ اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر ڈالرز سمگل ہورہے ہیں۔طالبان نے کمال ہمت اور پالیسی سے ڈالر کے ریٹ کو 88 افغانی پر روک رکھا ہے جبکہ ہم‘ جن کے ہاں سے ڈالرز وہاں جارہے ہیں وہاں پاکستان میں بینک کا ریٹ 225 روپے فی ڈالر تو مارکیٹ ریٹ 235/40 کے درمیان ہے اور اب تو سنا ہے بلیک میں زیادہ ریٹ پر مل بھی نہیں رہا۔یوں پاکستان سے جانے والے ڈالرز ان کی اکانومی کو سہارا دیے ہوئے ہیں اور ہماری اپنی اکانومی تباہ ہو گئی ہے۔ ایک سال پہلے تک جب امریکہ اور نیٹو وہاں موجود تھے تو پاکستان سے مزدور وہاں جا کر مزدوری کر کے افغانستان سے ڈالرز پاکستان لاتے تھے کیونکہ وہاں کام ملتا تھا۔لیکن پھر ہم نے خوشیاں منائیں کہ ایک قوم آزاد ہوگئی ہے اور ہمارا اس میں بڑا حصہ تھا۔ اب ہمارا ڈالر وہیں جارہا ہے۔ اگر ہم نے افغان طالبان کی فتح پر نعرے مارے تو پھر اب روتے کیوں ہیں کہ ہمارے ڈالر افغانستان سمگل ہورہے ہیں۔ افغان کرنسی ڈالر کے مقابلے میں نہیں گررہی بلکہ مستحکم ہے‘ ہماری کیوں گر رہی ہے؟ نیوکلیئر ملک کے پاس کھانے کو گندم ہے نہ سٹیٹ بینک کے پاس ایل سیز کھولنے کے لیے ڈالرز ہیں‘ لیکن ہماری بڑھکیں سنیں۔ پیاز تک منگوانے کے ڈالرز نہیں بچے لیکن ہمارے بیانات سنیں کہ فلاں دشمن کو تباہ کر دیں گے۔ گھر میں گھس کر ماریں گے۔دوسری طرف اگلے ہمارے گھر گھس گئے ہیں۔ مجھے حیرانی ہے کہ ہم اس لیول تک پہنچ چکے ہیں کہ ڈیفالٹ ہونے کی باتوں میں اب کوئی شک نہیں رہا لیکن ہم وہیں کھڑے ہیں۔ اب بھی اپنی بنیادی پالیسیوں میں تبدیلی یا سوچ کے قائل نہیں ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کوئی معجزہ ہوگا اور سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ شاید ہم سے پہلی قومیں بھی ایسے ہی تباہ ہوئیں کہ خیر ہے‘ کچھ نہیں ہو گا۔ مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ خدا اس کائنات کو چلانے کے لیے صرف ہمارے لیے اپنے طے کردہ اصولوں سے کیوں روگردانی کرے گا ؟ وہ کیوں ایسی قوم کواس صورتحال سے نکالے گا جو خود نہیں نکلنا چاہتی۔ ایک طرف یہ حالات ہیں دوسری طرف عمران خان اور شہباز شریف کا ٹی ٹونٹی میچ چل رہا ہے۔ اسحاق ڈار بڑے اہتمام سے لائے گئے تھے‘وہ کچھ دن بڑھکیں مارنے کے بعد اب غائب ہیں۔ پہلے مفتاح اسماعیل نے کھل کر بینکوں کو ڈاکے مارنے دیے‘ انہوں نے ڈالر کے ریٹ بڑھا کر ساٹھ ستر ارب کما لیے اور مفتاح صاحب ٹی وی پر بیٹھ کر ٹسوے بہاتے رہے جبکہ بینک لوٹتے رہے اور ڈالرز اوپر سے اوپر جاتا رہا۔اب ڈار صاحب کے دور میں ڈالرز کی سمگلنگ عروج پر ہے۔ مارکیٹ سے ڈالرز مل ہی نہیں رہے۔ ان کا اعتماد دیکھیں‘ وہ الٹا آئی ایم ایف کو تڑیاں لگا رہے ہیں۔
عمران خان کو ایک ہی فکر ہے اور ایک ہی کام ہے جو انہیں آتا ہے‘ وہ ہے لانگ مارچ‘ دھرنا اور لڑائی‘کہ اگر میں وزیراعظم نہیں تو پھر ملک چلے گا نہ اسمبلی۔ پہلے مرکز میں اپنی اسمبلی خود توڑ دی پھر پنجاب پہنچ کر اب اسے تڑا نے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ خیبرپختونخوا کی بھی خیر نہیں ہے۔ انہیں اس سے غرض نہیں کہ اکانومی تباہ ہورہی ہے تو ہونے دیں کیونکہ انہیں ہٹایا گیا تھا۔ انہیں ہٹانے والے وہی تھے جنہیں عمران خان نے خود بڑی شان سے پارلیمنٹ میں ووٹ ڈلوا کر توسیع دلائی تھی۔ اب ان سے لڑائی ہوگئی تو خان صاحب بدلہ پوری قوم سے لے رہے ہیں۔ ایک سپہ سالار اور وزیراعظم کی ذاتی دوستی میں ہونے والی لڑائی اس ملک کو بھاری پڑ رہی ہے۔ خان کی بلا سے کچھ بھی ہو وہ جلد از جلد دوبارہ وزیراعظم بن کر پنجاب کا صوبہ عثمان بزداراور گجر خاندان کے حوالے کرنے کے لیے بے چین ہیں تا کہ ان سب کی رکی ہوئی ذاتی اکانومی دوبارہ چل پڑے۔دوسری طرف زرداری اور شریف خوش ہیں کہ ملک کا بیڑا غرق ہوتا ہے تو ہونے دو‘ انہوں نے نیب مقدمات ختم کرالیے، سکینڈلز سیٹل کرا لیے‘ نیا چیئرمین نیب اپنی مرضی کا لگوا لیا‘ سلمان شہباز واپس آگئے، ڈار واپس، اگلی بار نواز شریف واپس، شہباز شریف اور حمزہ کے مقدمات ختم اور عوام جنہیں ان سب نے مل کر تباہ کیا‘ وہ خان ہو یا شریفس‘ ان کے حق میں نچ نچ کر حواس کھو بیٹھے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر