نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ماریوپوزو کا ’’گاڈ فادر‘‘||محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی لاہور میں مقیم سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں،ان کے موضوعات میں سیاست ، حالات حاضرہ ،سوشل ایشوز،عسکریت پسندی اورادب شامل ہیں۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ کوئی تیس پینتیس سال پہلے کی بات ہے، ان دنوں کراچی چکر زیادہ لگتے تھے ۔ صدر، کراچی میں پرانی کتابوں کی ایک دکان تھی ، وہاں اکثر چکر لگتا اور حسب استطاعت کچھ نہ کچھ لے لیتے۔ وہیں پر پہلی بار ایک انگریزی ناول گاڈ فادر کو دیکھا۔ اس ناول کا تذکرہ سنا تھا، اس پر بنی فلم کو دیکھا تو نہیں تھا، مگر واقف تھا کہ بڑی مشہور فلم ہے۔کسی پرانے ڈائجسٹ میں ناول کا ایک حصہ ترجمہ شدہ پڑھا تھا۔ ناول پیپر بیک میں تھا بلکہ پیپر بیک کیا ، درحقیقت نہایت گھٹیا پرنٹنگ اور گھٹیاکاغذ کے ساتھ مقامی سطح پر تیار کردہ تھا۔ ناول لے آیا اور پڑھنا شروع کر دیا۔ انگریزی ناول زیادہ نہیں پڑھے تھے، سڈنی شیلڈن کے دو تین ناول ہی پڑھے تھے یا پھر پائولو کوہیلو کا ناول الکیمسٹ پڑھنے کا موقعہ ملا تھا۔ ماریوپوزو کے لکھے ناول گاڈ فادر نے بڑا متاثر کیا۔ ایسا لطف آیا کہ اس کی فضول پرنٹنگ کے باوجود اسے خاصا عرصہ اپنے پاس رکھا، دو تین بار پڑھا، حتیٰ کہ اس کی جلد ٹوٹ گئی اور کئی صفحات بیچ سے نکل گئے ۔ برسوں بعد میں جب صحافت کی غرض سے لاہور کا رخ کیا اور اردو ڈائجسٹ میں کام شروع کیا تو ہر اتوار کو انارکلی کے باہر پرانی کتابوں کے بازار چکر لگاتا رہتا۔ وہیں سے گاڈ فادر کا ایک اور نسخہ خریدا، یہ بھی پیپر بیک تھا، مگر باہر سے شائع کردہ تھا، ا س لئے کوالٹی کچھ بہتر تھا۔ یہیں سے ایک روز پائولو کوہیلو کے ایک ساتھ چار پانچ ناولوں کے پیپر بیک ملے تھے۔ گاڈ فادر ناول مختلف وجوہات کی بنا پر میرے دل کے قریب رہا ہے، اس پر بنی فلم بھی کئی بار دیکھی، کم از کم سات آٹھ بار۔ فکشن کا میں طالب علم ہوں، کوشش کرتا ہوں کہ ہمارے مقامی اور بین الاقوامی ادبی شاہکار پڑھے جائیں۔ میرے آل ٹائم فیورٹ گارشیا مارکیزہیں، ان کے بعد اب ترکیہ کے اورحان پاموک کا اسیر ہوں۔حوزے سارگوما ، میلان کنڈیرا،نجیب محفوظ،گنتر گراس اور یشار کمال بھی پسند ہیں۔ ہاروکا موراکامی کے اب تک دو ناول (کافکا برلب ساحل، نغمہ مرگ)پڑھے ہیں، اسماعیل کدارا کا صرف ایک ناول دو نیم اپریل ہی پڑھا، مگر دونوں ناول نگاروں کے سحر میں گرفتار ہوگیا۔مغربی ادب کے حوالے سے حسن عسکری صاحب کے تراجم بھی پڑھے۔ اس سب کچھ کے باوجو د مجھے ماریو پوزو بطور ناول نگار بہت پسند ہے، اگرچہ ممکن ہے اسے عظیم ادیبوں کی صف میں شامل نہ کیا جاتا ہو۔ گاڈ فادر کے اردو میں دو تراجم پڑھے، ایک ڈائجسٹوں کے لئے لکھنے والے معروف لکھاری اور ترجمہ نگار محمود احمد مودی نے کیا۔ مودی صاحب بطور رائٹر پسند ہیں، ان کی لکھی سلسلہ وار کہانی سرکش جاسوسی ڈائجسٹ میں چھپتی رہی۔ محمود احمد مودی اچھا ترجمہ نگاربھی ہیں، گاڈ فادر کا بھی انہوں نے اچھا ترجمہ کیا، مگر نجانے کیوں ناول کے کچھ حصے چھوڑ گئے۔ یوں سمجھئے کہ ایک تہائی یا پندرہ بیس فیصد کے قریب ناول ترجمہ ہی نہیں کیا، ممکن ہے پبلشر کا دبائو ہو جو ضخیم کتاب چھاپنے کے حق میں نہ ہو۔ یہ مگر زیادتی اور ظلم تھا۔ ایک اور ترجمہ بھی ہوا ، اسے بھی دیکھا، وہی حرکت، ادھورا ناول۔ ممکن ہے یہ گاڈ فادر پر بنی فلم کی وجہ سے ہوا۔گاڈ فادر سیریز کی پہلی فلم جس میں مارلن برانڈو نے ڈان ویٹو کارلیون کا کردار ادا کیا، اس میں ڈائریکٹر فرانسس فورڈ کپولا نے ناول کے کچھ حصے لئے اور ایک بھرپور کہانی بنا کر لافانی قسم کی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم بنا دی۔ فلم کی گنجائش چونکہ کم ہوتی ہے، اس لئے بعض چیزیں چھوڑنا پڑیں۔ ان میں سے ویٹو کارلیون کے بچپن کی کہانی تھی ۔ وہ کیسے اٹلی چھوڑ کر امریکہ آیا اور یہاں کیسے جگہ بنائی۔ ابتدا میں تین رکنی گینگ بنا اور پھر ایک وقت آیا کہ وہ نیویارک کا سب سے طاقتور ڈان بن گیا، ڈان ویٹو کارلیون۔ فرانسس کپولا کو چھوڑی گئی کہانی ہمیشہ چبھتی رہی اور پھر اس نے گاڈ فادر ٹو میں یہ کہانی شامل کی ،اور بعض دیگر چیزیں جوڑ کر ایک اور اچھی فلم گاڈ فادر ٹو بنائی جس نے آسکر جیتا۔ گاڈ فادر تھری دراصل ویٹو کارلیون کے بیٹے مائیکل کارلیو ن کے انجام کی کہانی ہے۔یہ بھی بڑی عمدہ فلم ہے، اس کے اختتامی حصے میں نامور اداکار الپچینو جس نے مائیکل کارلیون کا کردار ادا کیا، اس نے کمال کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ فورڈ کپولا نے تو چلو گاڈ فادر ٹو بنا کر ویٹو کارلیون کے پس منظر والی کہانی استعمال کر ڈالی، ہمارے وہ اردو ترجمہ نگار جنہوں نے گاڈ فادر کا ادھورا ترجمہ ایک مکمل کتاب بنا کر چھاپ ڈالا، ان سے کون حساب لے گا؟ خوش قسمتی سے معروف اشاعتی ادارے بک کارنر، جہلم نے گاڈ فادر کا نیا ترجمہ شائع کیا ہے۔ یہ ترجمہ معروف صحافی، اینکر اور کالم نگار رئوف کلاسرا نے پچیس تیس سال پہلے کیا تھا، جب وہ یونیورسٹی سے فراغت پا چکے تھے۔رئوف کلاسرا ایک محنتی اور ہنرمند تخلیق کار ہیں، نوجوانی میں اس بڑے ناول پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں،انہوں نے مگر ایسا کر دکھایا۔ کلاسرا نے بالزک کا ایک ناول بھی تب ترجمہ کیا تھا۔گاڈ فادر کا ترجمہ اس زمانے میں شائع ہوا،پھر آئوٹ آف پرنٹ ہوگیا۔ چند سال پہلے اسلام آباد کے ایک ادارے نے اسے چھاپا، وہ ادارہ پچھلے سال ختم ہوگیا۔ اب یہ ترجمہ نظرثانی اور چند اہم اضافوں کے بعد بک کارنر جہلم نے اپنے مخصوص حسین طباعت کے ساتھ شائع کیا ہے۔ رئوف کلاسرا نے کمال یہ کیا کہ اس ترجمہ کے ساتھ دو بڑے عمدہ اور اہم مضامین شامل کر دئیے۔ پہلا گاڈ فادر فلم کے لیجنڈری ڈائریکٹر اور سکرین پلے رائٹر فرانسس فورڈ کپولانے ناول کے مصنف ماویوپوزو اور اپنی فلم میکنگ کے حوالے سے لکھا۔ اس میں کپولا نے دلچسپ یادیں شیئر کیں۔ وہ لکھتے ہیں ،’’ میں نے فلم کے لئے نوٹس بناتے ہوئے ایک سین میں لکھا جب ڈان کا دست راست کلیمنز ا ڈان کے بیٹے مائیکل کو ایک ترکیب سمجھا رہا ہوتا ہے، میں نے لکھا پہلے آپ ساسیج کو برائون کرتے ہیں اور پھر ٹماٹر شامل کرتے ہیں۔ ماریوپوزو نے اس پر کراس لگایا اور لکھا، ’’گینگسٹربرائون نہیں کرتے، وہ سیدھا فرائی کرتے ہیں۔‘‘ ناول گاڈ فادر کے بہت سے فقرے بڑے مشہور ہوئے، انہیں بے شمار بار ادبی حوالے سے اورزندگی کے دیگر پہلوئوں سے بھی بہت سو ں نے نقل کیا۔کپولا کے مضمون سے پتہ چلا کہ ماریو پوزو نے اپنی والدہ کے کردار اور شخصیت کو سامنے رکھ کر ڈان ویٹو کارلیون کا کردار تراشا تھا اور وہ لافانی ہوجانے والے فقرے دراصل ان کی والدہ کہا کرتی تھیں،جیسے’’ میں اسے ایسی پیش کش کروں گا کہ وہ انکار نہیں کر سکے گا ی‘‘ا ’’انتقام وہ ڈش ہے جو بہتر ہے ٹھنڈی کر کے کھائی جائے‘‘ یا پھر یہ کہ’’ اپنے دوستوں کو قریب رکھو مگر دشمنوں کو قریب تر‘‘، اسی طرح یہ جملہ بھی خوبصورت ہے ،’’ جو انسان اپنی فیملی کے ساتھ وقت نہیں گزارتا وہ اصیل انسان نہیںہوسکتا۔‘‘ پاکستان میں گاڈ فادر کا ایک مشہور حوالہ میاں نواز شریف کے خلاف پانامہ کیس میں آیا جب جسٹس آصف کھوسہ نے فیصلہ لکھتے ہوئے ابتدا میں فرانسیسی ناول نگار بالزاک کا ایک فقرہ لکھا، جسے گاڈ فادر ناول میں ماریو پوزو نے اپنے ناول کا پہلا جملہ یا ابتدائیہ بنایا تھا، وہ جملہ ہے’’ ہر بڑی دولت کے پیچھے جرم چھپا ہوتا ہے‘‘(Behind Every great fortune there is a crime )۔ یہ جملہ میڈیا نے مشہور کر دیا اور یہ تاثر دیا کہ جج صاحب نے میاں نواز شریف کو گاڈ فادر سے تشبیہہ دی ہے، ماویو پوزو کے ناول میں گاڈ فادر اگرچہ مختلف حوالہ ہے ۔ اطالوی کلچر میں یہ رواج رہا کہ بچے کے والد کا دوست یا کوئی اور قریبی رشتے دار بچے کا گاڈ فادر کہلاتا ہے، اطالوی کہاوت کے مطابق کہ زندگی اتنی دشوار ہے کہ اوپر گاڈ ہے مگر زمین پر ایک گاڈ فادر بھی ضروری ہے۔یعنی گاڈ فادر ایک مہربان شخص ہوتا ہے جو اپنے گاڈ سن یا گاڈ ڈاٹر کا خیال رکھتا ہے۔ ڈان ویٹو کارلیون ایسا ہی ایک گاڈ فادر تھا، اگرچہ اس کے بیٹے مائیکل کارلیون نے اپنے بہن کی اولاد کا گاڈ فادر ہونے کے باوجود غداری پر اپنے بہنوئی کو قتل کرا دیاتھا۔ گاڈ فادر کے نئے شائع کردہ ترجمہ میں ایک اور مزے کا مضمون ماریو پوزو کے بیٹے نے اپنے عظیم لکھاری والد کے حوالے سے لکھا۔ اس میں دلچسپ باتیں ہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ میرے والد کے لکھے دو ناول ناقدین نے تو پسند کئے مگر مالی فائدہ نہیں ملا۔ وہ مقروض تھے اور انہیں احساس تھا کہ کچھ بڑا کر کے دکھانا ہے۔ اسی جذبے سے اپنے تہہ خانے میں بیٹھ کر وہ ناول گاڈ فادر لکھتے رہے ، جب بچے شور کرتے تو ماریو پوزو کہتے ، شور مت کرو، میں ایک شاہکار ناول لکھ رہا ہوں۔ بچے اس پر ہنستے اورمزید شور کرتے۔ یہ ناول گاڈ فادر مگرواقعی بیسٹ سیلر اور شاہکار ثابت ہوا۔ دو برسوں میں اس کی نوے لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں، نیویارک ٹائمز کی بیسٹ سیلر لسٹ پر یہ سرسٹھ ہفتے رہا، جو بڑی بات سمجھی جاتی ہے۔ آج گاڈ فادر کی کروڑوں کاپیاں بک چکی ہیں، کئی زبانوں میں یہ ترجمہ ہوا۔ اردو زبان میں پہلی بار یہ ناول مکمل حالت میں اچھے ترجمہ کے طور پر شائع ہوا ہے۔رواں سال کے آخری مہینے کی اچھی ادبی خبر مجھے تو یہی لگی۔

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

About The Author