دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

35برس قبل کی ایک روشن دوپہر کی یادیں۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فقیر راحموں کا کہنا ہے کہ ’’شاہ بڑے سیانے ہوگئے ہو عین اُس دن کالم لکھنے سے رخصت لیتے ہو جب موضوعات کا انبار ہو‘‘۔ سچ پوچھیں ایسا نہیں ہے۔ چار اَور جو ہورہا ہے وہ میں بھی دیکھ رہا ہوں۔ اخلاقیات کے لمبے لمبے بھاشن ہیں۔ نجی زندگی پر سماجی اقدار و روایات کے لیکچر۔ کچھ خوف خدا کی دعوت اور یہ بھی کہ عیبوں پر پردہ ڈالنا ثواب ہے ۔
ان ساری باتوں گھاتوں اور بھاشنوں سے اس قلم مزدور کو رتی برابر بھی دلچسپی نہیں۔ یہ سوچنے کی زحمت بھی نہیں کہ مالکوں کی لیبارٹری نے کیا تخلیق کیا۔ خود مالکوں کی اپنی سوچ کون سا ستاروں پر کمند ڈالنے والی رہی ہے۔
ہمارے چار اور سے ہی تواٹھے ہیں کسی دوسرے سیارے سے نہیں آئے یہ مالک ۔ بس ہم میں سے ہر شخص ظاہراً حاجی ثنا اللہ ہے اور باطنی طور پر عمران ہاشمی۔ "عمران ہاشمی بھارتی فلموں کے معروف اداکار ہیں اور اپنے ذوق و تجاوزات کے شوق کی وجہ سے مشہور بھی ” ۔
ہم اس سے انکار نہیں کرسکتے کہ ضرورتیں دیوتا ایجاد کرواتی ہیں۔ قدیم اور جدید دانشوروں کا ایک حلقہ تواتر کے ساتھ یہ رائے رکھتا ہے کہ خدا خوف کی صورت ہے۔ سادہ ترجمہ یوں کرلیجئے کہ ’’خوف نے خدا بنایا‘‘۔ لازم نہیں ہم اور آپ اس سے سوفیصد اتفاق یا اختلاف کریں۔
’’اُسے‘‘ سمجھنے کے معاملے میں ہر شخص اپنے شعور کا مظاہرہ کرتا ہے۔ شعور کے بغیر تسلیم و رضا الگ معاملہ ہے۔ کیا ہم یا کوئی جسے شعور کے بغیر تسلیم و رضا سمجھ رہے ہیں اس نے خود کسی شعور سے چلیں یہاں شعور کو دعوت کہہ لیجئے۔ دعوت پر لبیک کہنے کا کہا۔ یہ دعوت کیسی ہے۔ اسے تسلیم کرنا تسلیم و رضا کی دعوت پر عمل ہے ؟ اسے غالباً مذہبی فہم کہتے ہیں۔
بہت سال ہوتے ہیں میں نے فقیر راحموں سے پوچھا "یار قدیم کیا ہے خوف یا خدا؟” فقیر ر احموں نے ترنت جواب دیا
"شاہ، تم مجھے شہید کرواکے مزار بنانا چاہتے ہو تاکہ روزی روٹی لگی رہے” ۔ پھر ہم دونوں ہنس پڑے۔
وجہ یہی تھی کہ دونوں کے قدیم ہونے کے حق میں دلیلوں کے درجنوں کے انبار ہیں۔ ان انبار سے ہی یہ بحث شروع ہوئی تھی کیا ہدایت پہلے آسکتی ہے۔ اس وقت جب طالب ہدایت ہی موجود نہ ہوں، یا لازم ہے کہ طالب ہدایت ہوں تو دعوت ہدایت آتی ہے۔ دفتر کے دفتر بھرے پڑے ہیں ان بحثوں سے، اڑھائی تین عشرے قبل ہمارے عالم دین دوست، سراج الدین علوی مرحوم نے ایک دن ہم دونوں کی بحث میں مداخلت دوستاں کرتے ہوئے کہا کہ
’’کیا ضروری ہے کہ اس سوال پر بحث کی جائے؟
عرض کیا، مولانا پھر خالق کو اوپر والا خانہ خالی رکھنا چاہیے تھا یا اس میں ایسا سافٹ ویئر فٹ کرنا چاہیے تھا جس کی کمان چوتھے پانچویں آسمان پر بیٹھے فرشتوں کے پاس ہوتی۔ انسان وہی کرتا ہے جس کی کمان ملتی۔
عین ان سموں فقیر راحموں نے قبلہ سراج الدین علوی مرحوم سے کہا
’’حضرت انسانی جسم مینول گاڑی ہے اسے چلانے والے کو پتہ ہے کہ کس پرزے سے کیا کام لینا ہے۔ یہی انسان آگے بڑھ رہا ہے وہ آٹومیٹک گاڑی بنالے گا۔ ایک دن تخلیق پر بھی قادر ہوگا‘‘۔
علوی صاحب کہنے لگے لازم ہے کہ آدمی عطاکردہ حدود میں رہے۔ عرض کیا، حدود عطاہوں تو زندگی مشینری جذبوں سے بندھی ہوگی۔ عقل بتاتی ہے کہ حدود ہو یا ارتقائی عمل ہر دو بارے انسان اپنے فہم کے مطابق فیصلے کرتا اور آگے بڑھتا ہے۔
ایک خوبصورت نشست تھی۔ علوی صاحب روایتی مسیتڑ مولانا نہیں تھے ملتان روڈ کی نیم پختہ ایک آبادی کی مسجد کے پیش نماز تھے مگر مطالعہ و مشاہدہ بے پناہ، اس پر سننے کا حوصلہ کمال کا تھا۔
ان سے لاہور آمد کے اوائل برسوں میں تعارف ہوا اور سانحہ ارتحال تک قائم رہا۔ کبھی کبھی وہ میرے دفتر تشریف لے آتے تو دفتر کے ساتھیوں کے لئے ان کی آمد باعث حیرت ہوتی۔ ظاہر ہے کہ ہفتہ روزہ ’’رضاکار‘‘ کے دفتر میں مولانا سراج الدین علوی کی آمد عجیب ہی لگتی ہوگی سبھی کو لیکن وہ اپنی ذات میں بڑے وضعدار اور دوست نواز شخص تھے۔
خیر ہم اس دن کی نشست پر بات کررہے تھے۔ تب میں نے ان سے سوال کیا، علوی صاحب چلیں یہ بتائیں معرفت قرآن یہ کہنا ’’دو جماعتیں ہیں حزب اللہ اور حزب الشیاطین۔ انسان کاملاً آزاد ہے جس مرضی جماعت کا حصہ بنے‘‘ (مفہوم عرض کیا ہے قارئین)
یہاں یہ کیوں نہیں کہا گیا کہ تم صرف حزب اللہ کے لئے خلق کئے گئے ہو، ضمنی سوال یہ ہے کہ محض دو جماعتوں کا ذکر اور نعمتوں و سزا وار ہونے کے حوالے سے باتیں یہ تو کاملاً آزاد ہونے کی بات سے یکسر مختلف ہیں۔
شاہ جی آپ کہنا کیا چاہتے ہیں انہوں نے پوچھا۔ قبل اس کے کہ میں اپنی بات وضاحت سے عرض کرتا فقیر راحموں نے کہا یار علوی صاحب فقط دو میں سے ایک جماعت کا انتخاب آدمی کو مجبور محض نہیں بنادیتا ہے۔
اگر دو میں سے ایک جماعت کا انتخاب ہی کرنا ہے تو پھر تحقیق و جستجو سے پالینے اور شکر گزار ہونے کی دعوت کیوں؟ انسانی عقل ایک دو باتوں کی پابند ہوگی تو کامل آزادی کیسی؟ جبکہ اہل دانش کہتے ہیں آزادی فطرت سلیم ہے۔
علوی صاحب گویا ہوئے، دو راستوں یا جماعتوں کی نشاندہی کرکے دعوت فکر دی گئی ہے جبر نہیں کیا گیا۔ عرض کیا فقط دو راستوں یا جماعتوں کے حوالے سے ہی غوروفکر اور انعامات و سزاواری بذات خود کامل آزادی کی نفی ہے۔ یہ تو مجبور محض والی بات ہی ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ خالق تخلیق کا برا نہیں سوچتا۔ فقیر راحموں نے پھر سے میدان میں چھلانگ لگائی بولا علوی صاحب تو جو لوگ کہتے ہیں کہ طبقات و مال و قدرت کی برتری اور محرومی امر رہی ہے کیا وہ درست کہتے ہیں؟
علوی صاحب بولے ایسا نہیں ہے طبقاتی یا مال و اختیار کی برتری و محرومی انسانوں کے اپنے پیدا کردہ جھمیلے ہیں۔ یہ جو ہر بات میں امر ربی کی صدا ہے اصل میں یہ طبقاتی استحصال کو دوام دینے کا ذریعہ ہے۔ خالق نے کہیں نہیں کہا کہ انسان بہتر سے بہتر کی تلاش میں جدوجہد نہ کرے۔
فقیر راحموں نے کہا اس کا مطلب یہ ہوا کہ قناعت دو طرح کی ہے۔ اولاً یہ کہ نعتموں سے تجاوز نہ کرنا قناعت ہے۔ دوسری قسم طبقاتی استحصال کو برداشت کرتے رہنا اور گاہے جی کو بہلانے کے لئے یہ کہہ دینا کہ سب اللہ کی مرضی ہے ہم تو بس اسی پر قناعت کو ضروری سمجھتے ہیں۔
علوی صاحب بولے ہاں ایسا ہی ہے لوگ جرأت رندانہ سے محرومی کو امر ربی سے باندھ کر سستی قناعت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ درست نہیں۔
درست یہ ہے کہ انسان اپنے حالات کوبہتر بنانے کے ساتھ ساتھ ماحول اور نظام کو بہتر بنانے میں بھی اپنا حصہ ڈالے۔ فرار کو صبر یا قناعت کا نام دینا غلط تھا اور غلط ہی ہوگا۔
پڑھنے والے آج کے کالم کی بُنت پر حیران ہوں گے۔ خیال یہی تھا کہ اخلاقیات کے ہیضہ برداروں پر کالم لکھا جائے کہ کیسے کل ان کے نزدیک ایک بات ایمان کا ساتواں رکن ہوتی ہے اور اگلے دن جب خود پر پڑے تو اخلاقیات کے بھاشن دینے بیٹھ جاتے ہیں لیکن خیال پر یادوں کی دستک سبقت لے گئی
ایک دوپہر سبجی محفل کی باتیں یاد آگئیں۔ یاد پڑتا ہے یہ سال 1987ء کا کوئی دن تھا۔ بہت خوشگوار اور نعتموں سے بھری دوپہر تھی۔
عموماً مذہبی طبقہ خصوصاً پیش نماز حضرات اتنے وسیع القلب نہیں ہوتے ۔ ان کی تنگ نظری بھی تو اس ماحول اور معاشرے کی دین ہی ہے۔ ہمارے چار اور کون سا روشن خیالی کے ڈنکے بج رہے ہیں۔
ہمارے بعض آزاد خیال دوست احباب بھی شُدمذہبیوں کی طرح تنگ نظر ہیں وہ بھی اپنی بات کو حرف آخر سمجھتے ہیں۔ اپنی فہم سے مختلف آراء رکھنے والے کو برداشت نہیں کرتے۔
میرے ایک عالم دین دوست نے ایک بار جب وہ میری والدہ محترمہ کے سانحہ ارتحال پر تعزیت کے لئے تشریف لائے تو دوران گفتگو اچانک بولے، شاہ جی میں تمہاری ہدایت و نجات کی ہمیشہ دعا کرتا ہوں۔ مجھے فوراً احساس ہواکہ مولانا کہنا کیا چاہ رہے ہیں۔
سو جھٹ سے عرض کیا حضور ہم بھی دعاگو ہی رہتے ہیں جناب کی حق پروری کے لئے مگر لگتا ہے دونوں کی دعائیں پہلے آسمان سے قبل ہی حادثے کا شکار ہوجاتی ہیں۔ مولانا نے قہقہ بلند کیا بولے تم نہیں سدھرو گے۔ ان کے ہمراہی البتہ بٹربٹر دیکھتے رہے کہ یہ کیا ہورہا ہے۔
مرحوم سراج الدین علوی کی یادوں کی دستک آج اصل میں اس لئے بھی شدید ہوئی کہ وہ ایک دلچسپ جملہ کہا کرتے تھے کہتے تھے
’’برصغیر کے مسلمان زندہ تو محمد بن قاسم اور محمود غزنوی کی طرح رہنا چاہتے ہیں لیکن موت شہدائے کربلا جیسی چاہتے ہیں‘‘۔
علوی صاحب کی اور بھی دلچسپ اور فکر سے بھری باتیں ہیں افسوس کہ بھری جوانی میں ٹریفک کے ایک حادثے میں دنیا سرائے سے سال 1993ء میں رخصت ہوگئے۔ زندگی کے معاملات کو کھلی آنکھوں سے دیکھنے کے عادی تھے۔
ایک دن فقیر راحموں نے کہا یار علوی اپنی باتوں سے تو مولوی نہیں لگتے۔ بولے، میں نے اپنی والدہ کے حکم پر بی اے کے بعد دینی مدرسہ میں تعلیم حاصل کی۔ میرے لئے ممکن ہی نہیں تھا کہ والدہ حضور کے حکم کو بجالانے سے انکار کرتا میرا قبلہ کعبہ میری والدہ حضور ہیں۔
ان کی مسجد کے حجرے میں اوپر نیچے رکھی کتابیں ذوق مطالعہ کی گواہ تھیں۔ ورنہ کہاں مسیتڑ مولوی اور کہاں نیاز فتح پوری کی کتب یا سید سبط حسن کی ’’موسیٰ سے مارکس تک‘‘ اور ایسی دیگر تصانیف۔
حق تعالیٰ مغفرت فرمائے اس مردِ آزاد کی۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author