ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پکاسو کی انگلیوں سے کھینچی آڑی ترچھی لکیریں کینوس پر اگر رقص کریں تو ایسا ہی لگے گا نا کہ رنگوں کے نرت بھاؤ اور مصور کی دیوانگی مجسم ہو گئی۔ جسے دیکھ کر سحر میں گرفتار، جب چاہو بات کرو، جب چاہو دیکھو، جس طرف سے بھی دیکھو، بس دیکھتے ہی رہو۔ مائیکل اینجلو کی چھینی پتھر تراشے تو فیصلہ کرنا مشکل کہ پتھر زیادہ حسین یا سنگتراش کا فن۔
کیا ہو اگر زندہ انسانی جسم کے ساتھ ہتھوڑی و چھینی کا کھیل کھیلتے کوئی نظر آنے لگے تو؟ انسانی رگوں کے ساتھ ایسی چھیڑ چھاڑ کہ بال برابر رگ یا پٹھا کاٹو اور خون کی بوند تک نہ نکلے۔ یہ تبھی ممکن ہے اگر اوزار قابو میں رہیں ہاتھ کے اور ہاتھ کہنا مانے آنکھ کا اور آنکھ پر حکم چلائے وہ جو سخت ہڈی کے خول میں بند بیٹھا ہے، یعنی دماغ۔ اگر ان سب کی وجہ سے سب کچھ ٹھیک چلتا رہے، خون آپے سے باہر نہ ہو تو بھئی آپریشن کے دوران گپ شپ کرنے کا لطف ہی الگ ہے۔
آنکھ جھکی جھکی، ہاتھ چاقو تھامے چیر پھاڑ میں مصروف اور زبان ایک سے ایک نئی بات نکالتی ہوئی۔ کبھی لپک کر مشرق کو نکل جائے تو کبھی شمال کو دوڑے، ابھی یہاں، پھر وہاں، اے لو یہ گئی وہ گئی۔ روکو روکو اسے، ابھی تو پچھلی بات پوری نہیں کی۔ کبھی نقاب کے پیچھے ہلکی سی ہنسی اور کبھی اونچا قہقہہ۔
وہ تو شکر ہے کہ مریض کو سلا رکھا ہے ورنہ ڈر کر بھاگ ہی جائے کہ یہ گپ گپوڑیاں ہو رہی ہیں یا آپریشن، مجھے تو مار ڈالیں گے یہ لوگ۔ یہ تو سنجیدہ ہی نہیں، سوچ ہی نہیں رہے کہ چیر پھاڑ کر رہے ہو، زبان کو کچھ دیر تالہ لگاؤ۔
کیا کریں اب اگر باتیں یاد آ جائیں تو؟ چھوٹی چھوٹی باتیں، عام سی، جو شاید کبھی ویسے کہی نہ جائیں۔ شاید کورونا کے مریض کا آپریشن کرتے ہوئے تو کہنا اور بھی ضروری ہوجاتا ہے، کیا خبر کل ہم ہوں نہ ہوں۔
ساتھ کھڑی نرس اگر پشپا ہو تو راجیش کھنہ کی یاد تو آئے گی نا۔ جب وہ اپنی ہیروئن کو انتہائی رومانوی انداز اور گہری آواز میں مخاطب کرتے ہوئے کہتا پشپا، تو ہال میں بیٹھی فلم دیکھنے والی سب پشپاؤں کا دل تو دھڑکنا بھول جاتا ہو گانا۔ یہی سوچ کر دل لگی پر من اتر آتا ہے، آواز کو گہری بناتے ہوئے کہتی ہوں، پشپا ذرا قینچی تو پکڑانا جس سے وہ بے اختیار شرما جاتی ہے، جانتے ہوئے بھی کہ وہ کہیں نہیں ہے یہ اس کی آواز کی پرچھائیں ہے۔
آپریشن کے دوران ہونے والی پیچیدگیوں کی ٹینشن سے نمٹنے کا طریقہ ہے یہ بھی۔ دو ٹریک چلاؤ ذہن میں، ایک کورونا مریض کے لیے فکرمند اور دوسرا دھیان بٹاتا ہوا، یہ کہتا ہوا کہ کورونا کی جنگ میں ہم ہاریں گے نہیں۔
کیرالہ کی خاموش طبع نرسیں زیادہ باتیں نہیں کرتیں لیکن کبھی کبھی ہلکی سی آواز میں پوچھ بیٹھتی ہیں کہ تم نے کیسے اور کہاں اتنی ہندی فلمیں دیکھ لیں؟ لو جی بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا، ایک اور موضوع مل گیا کہ کیسے انٹرنیٹ سے پہلے وی سی آر پر فلمیں دیکھی جاتی تھیں۔ وی سی آر گھروں میں تو تھا نہیں سو کرائے پر دینے والوں کی چاندی تھی دن رات۔ 24 گھنٹے کا کرایہ ساتھ میں تین تین گھنٹے کی 4 فلمیں۔
سامنے پورا محلہ، ہر گھر سے دو تین نمائندے۔ تیسری چوتھی فلم تک آنکھوں سے پانی بہنا شروع ہو چکا ہوتا۔ نیند سے سب جھوم رہے ہوتے، فلموں کی کہانی گڈ مڈ ہو چکی ہوتی، امیتابھ بچن اور راجیش کھنہ جڑواں بھائی دکھنے لگتے، زینت امان اور جیا بچن میں کوئی فرق نظر نہ آتا۔ آخری فلم جمائیاں لے لے کر فاسٹ فارورڈ کر کے دیکھی جاتی۔ اٹھنے پر کوئی تیار نہ ہوتا کہ بھاڑے کے پیسے کیوں ضائع جائیں بھلا۔ 4 فلمیں ختم ہونے پر ہی سب گھروں کو روانہ ہوتے جہاں ہر کسی کے ماں باپ کسی نہ کسی طریقے سے فلموں کا نشہ اتارنے کے لیے بے تاب ہوتے۔ ہم ان محفلوں میں صف اول کے امیدوار ہوتے تو کیسے بھولیں یارانہ، مستانہ، شعلے اور نہ جانے کیا کچھ۔
کوئی ان ڈائیلاگز کو گھسا پٹا سمجھے یا کچھ بھی لیکن اصل میں انہی کے سہارے سوئی کے ناکے سے نکلنا ممکن ہوتا ہے۔
ایسا ہی ایک دن تھا جب لہک لہک کر کوئی پرانا گیت گاتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے چاقو کے کرتب دکھا کر جونئیرز کو متاثر کرنے کی کوشش میں تھے جب کسی نے مخاطب کیا۔
’ہیلو! آپ تبوک میں ہوتی تھیں نا؟‘
ارے یہ کون جو ہم سے تبوک کی شناسائی نکال رہا ہے۔ آہ تبوک کی ٹھنڈی شامیں اور مست ہوائیں۔ تبوک میں گزارے جانے والے دن در دل پر دستک دینے لگے۔
’جی ہاں، میں تبوک میں تھی کبھی کسی اور جنم میں۔ ایک باریک سی رگ کاٹتے اور خون روکتے ہوئے جواب دیا‘ ۔
نظر اٹھا کر دیکھنا ممکن نہیں تھا کہ مریضہ کا پیٹ کھلا پڑا تھا۔ مختلف پرتوں کو ڈھیروں اوزاروں سے پکڑتے ہوئے خراماں خراماں ہم اس طرف چلے جا رہے تھے جہاں ننھا مسافر بے تابی سے ہمارا منتظر تھا۔
سو آنکھیں اٹھائے بنا، کسی شرمیلی بہو کی مانند سوال کیا، ’آپ کیسے جانتے ہیں اور آپ وہاں کہاں تھے؟‘
عربی لہجے میں انگریزی بولتے ہوئے جواب ملا، ’مجھے علم ہے کہ آپ وہاں ملٹری اسپتال میں تھیں، اصل میں میری بیوی بھی وہیں فارماسسٹ تھی۔ میں سول اسپتال میں کام کرتا تھا‘ ۔
’اوہ اچھا۔ پھر یہاں کیسے؟‘
’جیسے آپ یہاں‘ ، وہ ہنس دیے۔
ملٹری اسپتال تو بڑے افسران کا اسپتال تھا، میڈیکل سپرنٹنڈنٹ بھی جرنیل۔ بڑے بڑے فوجی افسران کی جی حضوری کرنے والے ہم بے چارے غیر ملکی ڈاکٹر۔
’ویسے تبوک بہت اچھی جگہ تھی، بہت پرسکون، روح تک میں اتر جانے والی فضا۔‘
’جی مجھے بھی بہت پسند تھا تبوک۔‘
اسی گپ شپ میں فوراً ٹانکے لگے اور مریضہ کا پیٹ بند۔ سوچا دیکھوں کون ہیں یہ حضرت جو غائبانہ طور پر تبوک سے ہماری خبر رکھے بیٹھے ہیں۔
پچاس کے پیٹے میں کھچڑی بالوں، داڑھی، مائل فربہی جسم، سانولی رنگت، طویل قامت مصری ڈاکٹر ابو اوعد سے 12 برس پہلے یہ ہماری پہلی ملاقات تھی۔
آپریشن تھیٹر کی پسندیدہ جگہ چائے والا کمرہ جہاں چائے اور کافی سے اٹھنے والی خوشبو ڈاکٹروں اور نرسوں کے لیے وہی کام کرتی ہے جو چچا غالب کا پسندیدہ مشروب کرتا تھا۔ سمجھ جاؤ نا اشارہ۔ چائے کافی کا دور چلتا ہے، آپریشن کے درمیان ملنے والے وقفے میں حال چال، گپ شپ، ہنسی مذاق، تھکاوٹ دور کرنے کا مجرب نسخہ۔
کس کا بڑا بچہ کس یونیورسٹی میں؟ چھوٹے کے لیے کون سا اسکول بہتر؟ کس بچے کی منگنی کس سے طے پائی؟ کس ڈاکٹر کی شادی کب متوقع؟ تنخواہ بڑھی کہ نہیں؟ بونس ملنے کی کوئی امید؟ عید پر کتنی چھٹیاں ملیں گی؟ کس مارکیٹ میں کس دکان پر سیل چل رہی ہے؟ کس ائر لائن کا ٹکٹ آج کل سستا ہے؟ نوکری میں سب اچھا ہے نا؟ دبئی والوں نے ڈاکٹر اور نرسوں کی تنخواہ کیا مقرر کی ہے؟ نیشنلٹی ملنے کی کوئی امید؟
موا چائے کا کمرہ نہ ہوا، چوپال ہو گئی یا پھر کسی گلی کے نکڑ پر چائے خانہ جہاں لنگر گپ چلتی ہے۔ اس دن آپریشن کے بعد ڈاکٹر ابو اوعد جب چوپال میں پہنچے اور ہر کسی کو اپنا چائے کا سامان نکالتے دیکھ کر بولے، ’سوری میرے پاس تو چینی پتی نہیں ہے‘ ۔
’ارے آپ نے ابھی تک پاکستانی مہمان نوازی کا مزا نہیں چکھا کیا؟‘
’لیکن میں مہمان کب ہوں؟‘
’چلیے آج کے دن یہ فرض کرلیتے ہیں اور یہ رہی آپ کی چائے‘ ۔ چائے کا کپ ان کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے ہم نے کہا۔
آپریشن تھیٹر میں سرجن اور اینستھٹسٹ ایک میان میں دو تلواریں ہیں، یعنی دوستی بھی خوب اور دشمنی بھی زوروں پر۔ بے ہوشی میں اگر مریض آپریشن کے دوران پرسکون نہ ہو تو سرجن کیسے کاٹے پیٹ، چاقو چلاؤ تو مریض ہلے، پیٹ اس قدر اکڑا ہوا کہ اندر جھانکا نہ جائے۔ سرجن کو اوقات ایسے ہی یاد دلواتا ہے انیستھٹسٹ۔
’مریض ٹائٹ ہے بہت، ریلیکس کرو‘ ، سرجن چلا اٹھتا ہے۔
اینستھٹسٹ تنک مزاج ہو اور گھر سے لڑ کر آیا ہو تو جواب ملے، ’میں نے ساری دوا دے دی‘ ۔
’کچھ نہیں ہوا، اور دیں‘ ۔
’اجی آپ دو منٹ انتظار کریں ابھی ہو جائے گا پیٹ ریلیکس۔‘
’افوہ آپ ایک اور ڈوز کیوں نہیں دے دیتے؟‘
’انیستھیٹسٹ میں ہوں یا آپ‘ ؟
ابو اوعد کے ساتھ کچھ ایسا ہی رشتہ بنا۔ دوستی کے موڈ میں ہوتے تو ہر موضوع پر بات۔ پاکستان اور مصر کی سیاست، بچیوں کی پڑھائی، دیار غیر میں کٹتی زندگی، ہمارا مصر کے بازاروں میں گھومنے کا شوق اور نہ جانے کیا کیا۔ لیکن دشمنی پر آتے تو خوب دانتا کل کل۔ ہماری شکایت، ’مریض ہل رہی ہے مسلسل، صحیح سے ریلیکس کریں‘ ۔
وہ کہتے، ’میں تو فل ڈوز دے چکا‘ ۔
ہمارے 12 برس طویل ساتھ کا اختتام بھی ایک ایسی ہی چپقلش پر ہوا۔
کئی مہینوں سے ہم کورونا سے جنگ لڑ رہے تھے اور ہماری جنگ مقامی لوگوں کی نسبت انتہائی بھاری تھی۔ وطن سے دور، بچوں سے جدائی، کورونا کی تنہائی اور موت کا سایہ۔
وہ صبح اداس تھی یا ہم سب، یا شاید کائنات۔ کورونا سے کون بچے، کون زندگی کی جنگ ہارے، کوئی نہیں جانتا تھا۔
کورونا کی مریضہ میز پر اکڑوں بیٹھی تھی، ابو اوعد کمر میں بے ہوشی کا ٹیکہ لگا رہے تھے۔ ’پوزیشن ٹھیک نہیں، سر جھکاؤ، بی بی کمر باہر کو نکالو، ہلو مت‘ ۔
نہ جانے کیا بات تھی کہ سوئی اندر جاتی مگر مطلوبہ ہدف تک نہ پہنچ پاتی۔ کورونا کا خاص لباس پہن کر سب ہی جھنجھلاہٹ کا شکار تھے۔ ناک اور منہ پر ماسک، اس کے آگے شیلڈ، آنکھوں پر ایک اپنی نظر والی عینک اور اس پر ایک اور حفاظتی عینک، زپ بند ڈانگری سر سے پاؤں تک۔ سانس رک رک کر آئے، نظر میں دھندلاہٹ، خوف کی کپکپی، تھکاوٹ، بے یقینی، انتظار، اور ٹیکہ کہ لگ ہی نہیں رہا۔ پھر ہوا نا صبر کا پیمانہ لبریز۔ ’ڈاکٹر ابو اوعد، کمر میں نہیں لگ رہا تو مکمل بے ہوشی دے دیجیے‘ ۔
’کووڈ کی مریضہ کے منہ میں بے ہوشی کی ٹیوب ڈالیں گے تو وائرس اور پھیلے گا۔‘
’خیر وہ تو اب بھی پھیل رہا ہے سانس لے رہی ہے وہ اور باہر نکال بھی رہی ہے بنا ماسک ہمارے آس پاس۔‘
’مت دخل دیں میرے کام میں‘ ، وہ غرائے۔
خاموش ہونا پڑا، کیا کرتے۔ خیر ہو گئی بے ہوشی بھی اور آپریشن بھی۔
ہم سب چپ تھے آج شاید موت کا خوف سب کی رگوں میں سرایت کر رہا تھا۔ کچھ دیر بعد آئے، ’معذرت میرا لہجہ کچھ نامناسب تھا۔ اصل میں صبح صبح انگلینڈ سے بیٹی کا فون آ گیا۔ گھر سے دوری، سفر کی پابندی، وبا، خوف، نا امیدی، ان کہی مایوسی، سب کچھ تو تھا اس فون میں۔ وہ روئی اور میں بھی۔ نہ جانے ملیں گے کبھی کہ نہیں؟‘
وہ گھڑی نہ جانے انتظار میں تھی کہ یہ الفاظ نکلیں ان کے منہ سے اور وہ انہیں لکھ لے اپنی کتاب میں۔ ان کہی کا خوف دھارے الفاظ ناچنے لگے، گانے لگے، نہ جانے، نہ جانے، کوئی نہ جانے؟
دو دن میں ہی خبر اڑ گئی کہ ابو اوعد پکڑے گئے۔ کورونا تاک میں تھا، وہی مریض جس کو بے ہوش کرنے میں دیر لگی۔ وہ مہلت تھی جو زندگی موت سے مانگتی تھی اور موت دانت نکوسے ہنستی تھی۔ سو اس دن کی اس گھڑی نے مہر لگا دی۔ نہ جانے کب ملیں گے، نہ جانے، نہ جانے، کوئی نہ جانے۔ چلو کچھ نہیں قرنطینہ 14 دن، بخار ہوا بھی تو لوٹ پوٹ کر اٹھ بیٹھیں گے۔
لیکن کورونا کو بھینٹ لینا تھی۔ ابو اوعد نے ڈاکٹروں کی طرف سے چڑھا دی بھینٹ۔ پہلی بھینٹ، وہ جو مریضوں کو وینٹ پر ڈالتے تھے، خود آئی سی یو جا پہنچے اور پھر کبھی واپس نہیں آئے۔
بیوی کو ملا تابوت اور ساتھ میں حکم کہ کھولنا بھی نہیں اور اتارو زمین کے اندر جلد سے جلد۔ تالا بندی، سرحدیں بند، دیس جا نہیں سکتے سو پردیس بنا مدفن۔ اکیلا تابوت، ساتھ میں 4 لوگ، ایک اللہ کے ہاں حاضری کی نوید کی ساتھ، کچھ زمین میں حوالے کرنے کو تیار، بیوی کے ہاتھ میں فون اور آنکھ میں آنسو، ترکی میں بیٹھی چھوٹی بیٹی، انگلینڈ میں بڑی نے فون کی اسکرین پر باپ کو مٹی کے حوالے ہوتے دیکھا۔
بیٹی کا وہم حقیقت بن گیا اور اس دن آپریشن تھیٹر میں ابو اوعد کی سانس میں ملا کورونا اپنے ہونے کا خراج لے کر ہی ٹلا۔
بشکریہ ڈان اردو۔
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر