دسمبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

برطانوی محاصرہِ ملتان: بالآخر قلعہ کُہنہ ملتان کے پاؤں اُکھڑ گئے (7)||امجد نذیر

امجد نذیر سرائیکی وسیب کے قدیم شہر ملتان سے تعلق رکھتے ہیں ،مصنف سماجی اور ترقیاتی تجزیہ کار ہیں ـ وہ اسلام آباد کے ادارہ برائے تحقیق و ترقی (ادراک) سے وابستہ ہیں

امجد نذیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(مآخذات : جاہن جونز کولے، مرزا ابن حنیف، احمد رضوان اور دوسرے ذرائع )

تعارف : ریاست ملتان کی قدامت، دریائے سندھ اور چناب کی عطا کردہ خوشحالی اور اہم ترین محل وقوع کیوجہ ریاست ملتان کے ایک نہیں کئی محاصرے ھوئے اور ھوئے ھونگے، کچھ معلوم اور کچھ نا معلوم ۔ مثلاً 325 قبل مسیح میں مقدونیہ کے سکندر کا محاصرہ، 1296 میں علاوالدین خلجی کا محاصرہ مگر تاریخ میں جسقدر جُزیاتی تفصیل برطانوی محا صرے کی موجود ھے کِسی اور محاصرے یا حملے کی موجود نہیں ھے ۔ کسی بھی ڈرامائی بیانیے میں واقعات، کردار اور تنازعات ڈرامائی ایکشن کی جان ھوتے ھیں، اور 1848 میں کئیے گئے برطانوی محاصرے میں یہ تمام خوبیاں موجود ہیں اِسی لئے برطانوی محاصرہ شاید واحد محاصرہ ھے جسے اپنی مکمل ڈرامائی خوبیوں سمیت دوبارہ بیان کیا جا سکتا ھے ۔ اور زیر نظر تحریر اسی نوعیت کی ایک کوشش ہے ـ

ساتواں  درشن

زیر ِنظر تحریر اِسی نوعیت کی ایک کوشش ہے۔ یہاں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ راقم الحروف نے جاہن جوہنز کولے اور اپنی یاداشتیں لکھنے والے دوسرے فوجی افسران کے ‘پروٹاگونسٹ’ اور ‘اینٹاگونسٹ’ کو اَدل بَدل کر ڈالا ہے تاکہ ملتان دھرتی کا دفاع کرنے والوں کو تاریخ میں اُن کا درست ترین مقام دِلوایا جا سکے۔

یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ رنجیت سنگھ کی ملتان پر لشکر کشی کے تسلسل اور 1838 میں اس کی موت کے بعد اپنے باپ سانول مَل کے برعکس متزلزل اور سمجھوتہ فہم کردار کے حامل مُولراج کی سیاسی حیثیت سرائیکی اور ملتانی مورخین کے نزدیک کسی حد تک متنازعہ بلکہ ناپسندیدہ رہی ہے۔

راقم الحروف نے زیر نظر تحریر جو تحقیق، ترجمہ اور تخلیق کا مرکب ہے، عروُس البلاد ملتان کی محبت اور اہمیت کے پیش نظر لِکھی ہے تاکہ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی عسکری یلغار کیساتھ ساتھ تقریباً پونے دو سو سال پہلے کے ملتان کی شکل وشباہت کو تحریری پردہِ سیمیں پر دِکھایا جا سکے۔ اس پورے منظر میں مُولراج کی جو بھی حیثیت بنتی ہے اور ملتان کے مقامی باشندوں، مزاحمت کاروں، اور خالصہ دربار کی جو بھی تصویر اُبھرتی ہے اُس کا فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

البتہ ایک بات واضح رہے کہ 1848 تک تاجِ برطانیہ نے براہ راست برصغیر پاک وہند کی باگ ڈور نہیں سنبھالی تھی اور ملتان پر چڑھائی کرنے والے کچھ فوجی افسران ایسٹ انڈیا کمپنی ہی کے ملازم تھے اور زیادہ تر اُجرت پر بھرتی کئے گئے مقامی اور بیرونی دستے تھے۔ جبکہ خالصہ دستوں کو خالصہ دربار لاہور سے پروانہ جنگ کیساتھ ساتھ اس فریب سے شامل کیا گیا تھا کہ پنجاب فتح کرنے کے بعد کمپنی بہادر پنجاب کی فرمانروائی دوبارا اُن کے سپرد کر دے گی۔ مگر تاریخ نے ثابت کیا کہ اور بہت سی عیاریوں اور دوست کُش سازشوں کی طرح یہ بھی ایک گھناونی سازش ہی تھی کیونکہ ملتان کا قلعہ انیسویں صدی کے مضبوط ترین قلعوں میں سے ایک تھا۔ ناصرف یہ بلکہ انیسویں صدی کے وسط تک، رنجیت سنگھ کی نواب مظفر خان کو شکست دے کر ملتان کو اپنی راجدھانی میں شامل کرنے کے باوجود بھی، صوبہ ملتان نے اپنی آزادانہ حیثیت برقرار رکھی ہوئی تھی۔ درج بالا پس منظر کے سبب بھی ملتان ایسٹ انڈیا کمپنی کا خالصہ دربار اور مقامی دستوں کو ساتھ ملائے بغیر فتح کرنا ناممکن تھا۔

برطانوی افواج نے حفاظتی بندات سے باہر آکر زیادہ ایڈوانس مقامات پر اپنی پوزیشن سمبھال لی۔ اُن میں سے کُچھ دائیں، کُچھ بائیں اور کُچھ نہر کے دامن میں مغربی کنارے کے عین نیچے اندھیرے کی اوٹ لے کر ریت اور مٹی میں چھپ گئے۔ کمانداروں نے چھوٹے چھوٹے دستے بنا کر ہر ایک کی قیادت ایک جری جوان کے سپُرد کردی۔ اِسی اَثنا میں میجر ایڈورڈز لیفٹینینٹ برنی کی مدد کو دوڑا جبکہ کارٹلینڈ اور جنرل لیک کو موجودہ صورت حال میں یہی مناسب لگا کہ جہاں جہاں اُن کے باقی ماندہ سپاہی موجود تھے اُن کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اُنہوں نے کچھ اور سپاہیوں کو خندقوں میں اتارا تاکہ جس قدر ممکن ہو اپنا دفاع کر سکیں۔ مگر یہ ساری صورتِ حال اب بھی اُن کے لئے اِطیمنان بخش نہیں تھی۔ شک وشبے کی لہریں فشارِ خون بڑھا رہی تھیں۔ نفسانفسی اور آپا دھاپی میں کسی کو کسی پر اعتماد باقی نہیں رہا تھا اور دوست دشمن کا فرق مٹنے لگا تھا۔

برطانوی افسران ملتانی پٹھانوں، مقامی سکھوں اور گردونواح سے اکھٹے کئے گئے اُجرتی سپاہیوں کو مشکُوک نظروں سے دیکھنے لگے تھے۔ جاڑا نہائی یخ بستہ اندھیری رات ختم ہونے کو ہی نہیں آ رہی تھی۔ بے قراری اور انتظار نے اُن کی رات بہت طویل کر دی تھی کیونکہ صبح 8 بجے انہوں نے حملہ کرنے کا سوچ رکھا تھا۔ صبح جب دھیرے دھیرے کانپتا ٹھٹھرتا ہوا سورج لباسِ اُفق سے باہر نکلا تو ساتھ ہی ہوشیار ملتانی سپاہ نے ایک نئی جگہ سے یلغار کر دی اور پہلے ہَلے کے اندر ہی اِتحادی افواج کے اجرتی سپاہیوں میں سے کچھ کو ہلاک اور کچھ کو زخمی کر دیا۔ یہ دیکھ کر باقی دستے اپنی پوزیشن چھوڑ کر بَگچُھٹ بھاگ کھڑے ہوئے۔ اِس بھگدڑ میں کیا سپاہی کیا کماندار کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ بَنی بنائی بازی اُلٹ کیسے گئی۔ ابھی وہ ورطہِ حیرت میں ہی تھے کہ اُنہوں نے مورچوں سے آگے بڑھ کر گوروں کے کیمپوں پر یُورش کر دی اور اُن کے دائیں بازو والے دستے کے پرخچے اڑا کر دکھ دیے۔ بوکھلائے ہوئے دشمن نے آرٹلری کے آدمیوں کو جوابی فائر کھولنے کیلئے کہا۔ گھات لگائے ہوئی ملتانی سپاہ نے ندی کے خشک پاٹ میں مزید پیش رفت جاری رکھی، ایسے جیسے کچے راستوں پر بیل گاڑیاں دوڑ رہی ہوں، اور پھر مناسب ترین مقام سے پہلے سے دگنی قوت کیساتھ دشمن پر دوبارا حملہ کر دیا۔

میجر ایڈورڈز نے کچھ مزید تازہ دم سپاہی اپنی مدد کیلئے بلوائے اور گذشتہ رات کی شکست خوردگی سے گھبرا کر اب کی بار میجر کارٹلینڈ کو پیشگی اِطلاع بھیجی کہ اُس کے کیمپ پر ناگہانی لشکر کَشی ہوئی ہے اور یہ کہ جوابی کارروائی کیلئے اُن کا اپنے ٹروُپس کو ندی میں اُتارنا ازحد ضروری ہے۔ دراصل اس کو خطرہ تھا کہ کہیں پہلے کی طرح اوپر ٹھہرے ہوئے فوجی دوبارہ اپنے ہی فوجیوں کا شکار کرنا نہ شروع کر دیں۔ ملتانی دستوں نے بغیر کسی وقفے کے لگاتار یلغار جاری رکھی اور دشمن کے ٹروُپس کو سنبھلنے میں مشکل ہو رہی تھی پھر بھی کارٹلینڈ نے اپنی بٹالین کو آگے بڑھنے کیلئے حکم دیا اور ساتھ ہی ساتھ اِس طرح آگے بڑھنے کیلئے کہا کہ کسی کو ان پر اچانک وفاداری تبدیل کر جانے کا شبہ باقی نہ رہے۔

اپنی مایوسیوں کو امید کا سہارا دیتے ہوئے اُس نے تسلی رکھی کہ مسٹر کوئن کی سرکردگی میں وہ قدرے ہمت اور جرأت کا مظاہرہ کریں گے جو کہ پہلے سے ہی ایک خطرناک چوکی پر موجود تھا۔ کوئن نے خشک ندی کے پاٹ میں پائوں رکھا ہی تھا کہ دفاع کاروں کی بندوق سے نکلا ہوا ایک خالی رائونڈ شاٹ اُس کی چھاتی میں آلگا۔ مگر بعد کی اطلاعات سے پتہ یہی چلا کہ سخت جان کوئن، معمولی زخمی ہونے کی وجہ سے ناصرف بچ نکلا، بلکہ اگلے مورچوں پر آگے بڑھ بڑھ کر اپنے فوجیوں کا دفاع بھی کرتا رہا۔ اس جواب الجواب کارروائی میں بالاخر وہ مقام آگیا جہاں ملتانی دستوں نے مسلسل آگے بڑھتے ہوئے دشمن کو ندی کے دوسرے کنارے جا لیا۔ گتھم گھتا حالتِ زار، نزدیک سے فائرنگ، سنگین بازی حتیٰ کہ ہاتھا پائی مار کٹائی بھی ہوئی۔ عین اُس وقت جب قریب تھا کہ دشمن نیست ونابود ہو جائے۔ لیفٹینینٹ کارٹلینڈ کا اضافی دستہ اپنے شکست خوردہ دستوں سے آن ملا اور جنگ کا توازن بگڑنے لگا۔ اس سے پہلے کہ ملتانی دستوں کا نقصان ایک خاص حد سے بڑھتا، انہوں نے پیچھے ہٹنے میں ہی عافیت جانی۔ کوئی آدھے گھنٹے میں گھمسان کی لڑائی گھٹنے لگی۔ دشمن بھی اپنے سابقہ مورچوں پر ہٹنے لگے جبکہ ملتان کی افواج واپس اپنے محاذ پر آکر نئی حکمت عملی پر غور کرنے لگی۔

کوئی آدھ پونے گھنٹے میں جب خاک اور دھواں چَھٹنے لگے تو اِتحادی افواج کو برگیڈیر مَرکھم کی کمان میں ایک اور دستہ مدد کو آتا ہوا دکھائی دیا۔ تھوڑی ہی دیر میں ندی کراس کرکے مشرقی کنارے اُس نے ذرا طویل راستہ اختیار کیا اور پھر کُھلے میدان کسی بھی خطرے سے آزاد ہو کر اُس کا دستہ مقامِ حرب کی جانب رواں دواں ہوا۔ ابھی وہ چند سو گز ہی چلے ہونگے کہ گُھڑ سوار جنرل ویہلر نے دوڑ کر اُنہیں چوکنا ہونے کوکہا۔ اُن کو معلوم نہیں تھا کہ ملتانی لشکری مسلسل اُن کی حرکات وسکنات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ جنرل مَرکھم کے دستوں کا ہدف پر آنا ہی تھا کہ بغیر کسی تاخیر کے اُنہوں نے دَھنا دَھن گولے داغنا شروع کر دیے۔ ذہنی طور پر نسبتا” ریلیکس برطانوی اتحادی دستے دو بار اپنی پناہ گاہوں کی طرف لپکے اور جوابی کارروائی کے لئے اپنی بندوقیں سیدھی کیں۔ اُونچائی پر ایستادہ ہونے کی وجہ سے اب وہ جوابی کارروائی کرنے کیلئے نسبتا” بہتر پوزیشن میں تھے۔ اِسی لئے بہت جلد ناصرف واپسی فائر کرنے لگے بلکہ مزاحمت کاروں کی محدود تعداد اور محدود اسلحے کا اندازہ کرتے ہوئے سنگینیں تان کر آگے بھی بڑھنے لگے اور جلد ہی دفاع کاروں کے محدود دستے منتشر ہونے لگے ناصرف یہ بلکہ اُن کی پانچ میں سے چار توپیں بھی دشمن کے ہاتھ لگ گئی۔

مگر پلٹ کر وار کرنے کے لئے ایک جواں سال سپاہی نے تاک کر مرکھم پر ایسا نشانہ باندھا کہ وہ گھوڑے سمیت پٹخنیاں کھاتا ہوا کئی فٹ دور جا گرا۔ خیال تھا کہ دونوں ملکِ عدم کو سُدھار گئے ہیں مگر بعد میں معلوم پڑا کہ مِٹی میں بھبھوُت بنا تربیت یافتہ گورا کسی طرح کلا بازیاں کھا کر اپنے آپ کو گھوڑے کی اوٹ میں گرانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ جس سے وہ زخمی ہو گیا تھا مگر بچ گیا تھا کیونکہ باقی کے نشانے لحیم شہیم گھوڑے کے پیٹ میں پیوست ہو گئے تھے۔ ایسے جیسے کوئی کپاس کی دُھنائی کر رہا ہو۔ یہ محض اِتفاق تھا یا نشانچی کی حکمتِ عملی کہ ملتانی سپاہیوں کی واپس فائرنگ سے جنرل ویہلر اور اس کا گھوڑا دونوں شدید زخمی ہوگئے۔ گھوڑا تو موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا لیکن مرکھم کے برعکس ویہلر کو جانبر ہونے میں کئی دن لگے۔

تاہم اِس محاذ پر ہر دو جانب توازن کم و بیش برابر ہی رہا اور دونوں افواج کا اچھا خاصہ نقصان ہوا اور اگر تعداد اور اسلحے کے عدم توازن کی بُنیاد پر دیکھا جائے تو ملتانی سپاہ نے وہ کر دکھایا جو بڑی بڑی افواج نہیں کر سکتیں۔ لیکن مجموعی طور پر برطانوی جنرل، میجر اور بریگیڈر خوش اور مطمئن تھے کہ وہ کامیابی سے ہمکنار ہو رہے ہیں۔ آج کے روز برطانوی اتحادیوں کے تین جبکہ ملتانی افواج کے تقریباً پندرہ افراد جان سے گئے تھے۔ البتہ گذشتہ پورے ہفتے کا اگر جائزہ لیا جائے تو کمپنی اِتحادیوں کا بھی بھاری بھرکم نقصان ہوا تھا۔ اُن کے تقریباً 76 فوجی مارے گئے تھے اور 316 جوان بُری طرح زخمی ہو گئے تھے۔ سات دن کی مسلسل یلغار کے بعد پھر بھی وہ تسلی میں تھے کہ اِس وقت خطرہ ٹل گیا ہے۔ مُلتان کی عسکری کوئی منظم اور مرکزی کمان نہ ہونے کی وجہ سے کافی نقصان اٹھا چکے تھے اور اُنہیں افسوس تھا کہ ہفتہ بھر کی اس شاندار کارکردگی کے باوجود انجام کوئی زیادہ تسلی بخش نہیں تھا۔ پانچ توپوں اور کچھ بندوقوں کے دشمن کے ہاتھ چڑھ جانے کی وجہ سے اُن کے پہلے سے ہی کم اسلحے میں مزید تخفیف ہو گئی تھی جبکہ اُدھر برطانوی فوجی افسر اور جوان اپنے جانی نقصان کی پرواہ کئے بغیر (شاید اِس لئے بھی کہ مارے جانے والے زور یا لالچ پر بھرتی کئے گئے مقامی افراد ہی تھے) ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے۔ تاہم اُنہیں ویہلر اور مرکھم کے گھوڑے کے مارے جانے کا بہت رنج تھا اور یہ دکھ کہ ویہلر ابھی تک زخموں کی چبھن سے کراہ رہا تھا۔

بہرحال اِسی صورتِ حال میں سورج کنڈ کی لڑائی اختتام پذیر ہوئی۔ مگر ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ کُن نہیں تھی۔ ابھی ہر دو جانب ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش اور خواہش باقی تھی اور یہ محض ماندگی کا وقفہ تھا۔ مُلتان کی تھکی ماندی افواج قلعے کی طرف لوٹ گئیں۔ مگر اُنہوں نے ہمت اور حوصلہ نہیں ہارا اور شہر کے گردونواح سے مزید رضاکار اور مزید سپاہی ڈھونڈنے میں جُت گئے۔ کچھ نئے بند بنائے، کچھ خندقیں کھودیں اور قلعے کے کمزور حصوں کی مرمت بھی جاری رکھی۔ مولراج نے اب ایک طرح سے اپنے آپ کو قلعے میں محصور کر لیا۔ لیکن اس نے قلعے کے اردگرد اور نواحی آبادی میں اپنے محافظ اور جاسوس اس طرح مقرر کئے کہ انگریزی افواج اور اُس کے بھیجے ہوئے ٹوہ باز قلعے یا اُس کے ذاتی ٹھکانوں بارے زیادہ معلومات نہ حاصل کر سکیں۔ جو کوئی ایسا کرنے کی کوشش کرتا موت اُس کا مُقدر ٹھہرتی۔ تاہم اپنے اپنے پڑائو پر اب بھی دونوں فریق نئی محاذ آرائیوں کی تیاری میں مصروف تھے۔

لہو گرم رکھنے کیلئے سپاہیوں نے قعے کے اندر گُھڑ دوڑ، رسہ کشی، تیر اندازی، نشانہ بازی اور کلہاڑا اندازی جاری رکھی۔ اُنہیں معلوم تھا کہ خالصہ اتحادیوں اور گوروں کا اگلا حدف قلعہ کہنہ ملتان ہے کیونکہ صدیوں سے ایستادہ یہ کوہ قامت، دیوتا صفت قلعہ سکندر مقدونی سے لے کر رنجیت سنگھ تک سب کو اپنی استقامت اور مقاوۤمت کے سامنے ڈھیر کرتا رہا ہے۔ شاید اِسی نکتہَ نظر سے اِتحادی افواج کے اِنجینئر قلعے کے کمزور ترین مقامات کا اپنے تئیں جائزہ لیتے رہے تھے۔ اور ساتھ ہی ساتھ قلعے پر چڑھائی کرنے کیلئے گردونواح میں چھوٹے بڑے مورچے اور مِٹی کی ڈھالیں بھی کھڑی کر رہے تھے۔ ہر چند کہ موسم جاڑے کا تھا لیکن دن کو سورج کی تمازت بہت تقویت دینے لگی تھی۔ جو گورے افسران کی صحت کیلئے خاص طور پر بہت موافق تھی۔ وہ اب بھی بمبئی ٹروپس کے پہنچنے کا انتظار کر رہے تھے تاکہ ان کی قوت اور استقامت میں اضافہ ہو سکے اور وہ قلعہ پر ایک بھرپور حملہ کرسکیں۔

15 دسمبر کو وہ بدقسمت دن بھی آن پہنچا جب بمبئی سے روانہ نئے اسلحے سے لیس اور مکمل تربیت یافتہ ایک اور فوجی دستے نےاُنہیں جوائن کر لیا۔ اب صرف اور صرف قلعہ ہی ان کا حدف تھا۔ جس کا ملتانی سپاہیوں کو بخوبی اندازہ تھا۔

آخری مزاحمت اور قلعہ کی پسپائی: اسلحہ، آدمی اور مورچے سب تیار کرنے کے بعد اب کمپنی اتحادی اور خالصہ افواج ایک بدمست ہاتھی کی طرح قلعے پر دھاوا بولنے کے لئے بے چین تھیں۔ باہر آکر بے جگری سے توپ وتفنگ کا سامنا کرنے کی بجائے مولراج اپنے قلعہ بند محل میں محصور ہوگیا۔ تاہم سپاہیوں نے فرش پھاڑ کر خندقیں نکالیں، مورچے مضبوط کئے اور گولہ باری کے متوقع مقامات پر مزاحم بندوقیں، توپیں اور توپچیاں نصب کیں جبکہ اور پھر قلعہ کے اندر، باہر، النگ کے اُوپر اور بُرجیوں کی اوٹ میں اپنے رگ وپے میں دوڑتی ہوئی توانائیوں کو آزمانے کیلنے مُستعد ہوگئے۔ سورج کنڈ کی حرب وضرب میں دشمن کے بچ رہنے اور اُنہیں مزید کمک اور اسلحہ دستیاب ہو جانے کے بعد اب قلعے کی بقا اور دفاع اُن کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ تھا۔

دوسری طرف جنرل وہش جنگلی بھیڑیے کی طرح، اپنے تئیں، ملتان کو روندنے کیلئے زیادہ سے زیادہ آدمی اور اسلحہ ناصرف اکھٹا کر رہا تھا بلکہ تمدن سے ماورا اپنی وحشت انگیزی اور مخصوص سفاکیت کا مظاہرہ کرنے کیلئے بے قرار بھی تھا۔ کمپنی بہادر کا سرخ پھریرا گرم خون کی طرح اُس کی آنکھوں کی فصیل پر لہرا رہا تھا۔

25 اور 26 دسمبر کی شب اُس نے اِتحادی افواج کو قلعے کے شمال مشرقی حصے میں پڑاؤ ڈالنے کا حکم دیا۔ وقت کا جدید اسلحہ اپنی کمر پر سجائے اور مورچوں میں انبار لگائے، دشمن اب ہرطرح کی سفاکی اور ہولناکی پھیلانے کے لئے تیار تھا۔ مگر ملتان کے تل وطنی جانثار بھی قلعے کے باہر اِدھر اُدھر خندقوں اور مورچوں میں گھات لگائے بیٹھے تھے۔ 27 دسمبر 1848 کو کمپنی بہادر کی اِتحادی افواج نے قلعے کی طرف پیش رفت شروع کر دی اور راستے میں چرند، پرند، شجر اور مستقر جو کچھ بھی نظر آیا سب نیست ونابود کر دیا۔ یہ کوئی کھیل تھا یا بربریت مزاجی، کچھ خبر نہیں۔

جب وہ سیلِ روّاں کی طرح آگے بڑھے تو بہت سے عام سے شہری بھی اُن کی قاتل رفتار تلے روندے گئے۔ خالصہ اور اِتحادیوں نے اپنی راہ میں آنے والے گاؤں کے گاؤں اُجاڑ دیے۔ زرخیز زمینوں کو برباد کر ڈالا اور کپاس کی کھڑی فصلوں کو نذرِ آتش کر ڈالا۔ ایسے گاؤں ایسی بستیاں بھی بہت تھیں جن کو خبر تک نہیں تھی کہ یہ گورے کون ہیں؟ کیا چاہتے ہیں؟ کیوں ہر ذی روح کو ہلاک کرنے کے درپے ہیں؟ وہ تو کپاس اور گنے کی کٹائی یا پھر گیہوں کی بوائی میں مصروف تھے۔ اُنہیں تو خبر ہی نہیں تھی کہ کون کس کے خلاف نبرد آزما ہے اور کیوں؟ مگر نوآبادیاتی ہوس کاری میں دشمن اپنے ہوش وہواس کھو بیٹھا تھا۔ کیا مندر، کیا مسجد، کیا معبد کیا دربار، کیا باغیچے، کیا کھیت کھلیان جو بھی راستے میں آیا سب کچھ اَدھ مُوا کرتے ہوئے وہ آگے بڑھتے گئے۔ یہاں تک کہ قلعے کے مغربی نواح میں پہنچ گئے۔ اس مقام پر جہاں سے ملتان کی ضعیف اور بوڑھی ندی (موج دریا) بہتی تھی۔ اب کہیں کہیں سے اُنہیں دیوقامت قلعے کے ہاتھ پاؤں دکھائی دینے لگے تھے۔ وہاں سے انہوں نے تھوڑا سا شمال مغرب کی طرف مارچ کیا اور مُتعین فاصلے سے کچھ گولیاں قلعے کی چھاتی میں پیوست کرنے کی کوشش کی۔ وہاں سے شمال مغرب کی سمت وہ کچھ اور آگے بڑھے اور پھر یکبارگی دھاوا بولنے کیلئے ایک محفوظ مقام پر مورچے بنانا، خندقیں کھودنا اور کچھ زمین ہموار کرنا شروع کردی تاکہ وہاں اپنی آگ اُگلتی توپیں ںصب کر سکیں۔ اگلے دو سے تین روز میں وہ قلعے کے اندر اور باہر ہولناکیاں وقوع کرنے کیلئے تیار تھے۔

کثیر تعداد عسکریوں اور خُونخوار اسلحے میں گِھرے دفاع کاروں کے پاس اب قلعہ بند ہو کر مزاحمت اور دفاع کی آخری سبیل کرنے کے علاوہ اب کوئی چارہ نہیں تھا۔ دستہ سالاروں نے قلعہ کے اندر رہنے والے عام شہریوں کو محتاط رہنے کی اطلاع دی۔ زمیں بوس جنگ کی ممکنہ طوالت کے باعث مَنوں ٹنوں گیہوں زخیرہ کروایا۔ برجیوں پر بچی کھچی، جُزوی درست اور جُزوی خراب توپیں ایستادہ کروائیں اور جو کچھ گولا بارود سابقہ جھڑپون سے پس انداز کیا تھا، اُسے منظم اور مُستعد رکھنا شروع کر دیا۔ دلی دروازہ، بوہڑ دروازہ، حرم دروازہ اور دولت دروازہ کی مین میخیں درست کروائیں، چُولیں اور قبضے مرمت کروائے، اور جہاں تک بن پڑا آہن گروں کی دکانوں میں بہت آگ بھڑکائی، بہت لوہا پگھلایا اور سپاہیوں کی بہت پیٹھ ٹھونکی۔ بوڑھا دیوتا ابھی تک اپنے پراعتماد قدموں پر ٹھہرا ہوا تھا۔

دشمن نے ہر ایسی جگہ سنبھال لی اور ہر ایسے مقام پر چوکس ہو گیا جہاں سے قلعے پر یا تو مؤثر چڑھائی کی جا سکے یا پھر ملتان کے جانباز سپاہیوں کا وار روکا جا سکے۔ حرم گیٹ سے مشرق کی سمت میں پختہ اینٹیں بنانے والا ایک پُرانا بٹھہ یا مندیارا تھا جس کے اِرتفاع میں برطانوی بدقماشوں نے اپنی پائوڈر گنیں کھڑی کر دیں۔ قلعے کے اردگرد اونچے نیچے مقات اور نواحی گھروں کی چھتوں پر اپنے پیادے اس طرح جما دیے کہ وہ آپس میں براہ راست یا اِشاروں کے ذریعے پیغام رسانی کر سکیں جبکہ گُھڑ سواروں کو عقبی باغات کے اندر اور دائیں بائیں مرتب کر کے ہوشیار کر دیا گیا۔ جہاں بڑے بڑے ٹیلے تھے ان کی اوٹ میں توپیں نصب کیں اور میزائل داغنے والی مشینیں تاک میں ٹھہرا دیں۔ یعنی اب نام نہاد مہذب گوروں کی حشر سامانی اپنے افسران کے ایک اشارے کی منتظر تھی۔ اُدھر قلعے کی بُرجیوں پر مقامی جرنیلوں اور جری جوانوں نے پرانی طرز کی اکا دکا توپیں رکھ لیں۔ ممکنہ حد تک کافی سپاہی بھی النگ اور بُرجیوں پر متمکن کئے اور کئیوں کو چھوٹی بڑی بندوقیں تھما کر دشمن کا نشانہ باندھنے کے لئے درست ترین نشانوں پر گاڑ دیا  قلعے کے اندر رہنے والی آبادی، جو اب تک بڑی حد تک محفوظ اور کم واقف تھے، ایسے ششدر اور سراسیمہ ہو گئی، جیسے صور پھونکنے کی منتظر ہو۔

دشمن نے حسبِ منصوبہ پہلے شمال مغرب میں شاہ شمس سبزواری کے دربار کے نزدیک پہنچ کر اپنی اولین پیش قدمی میں ہی قلعے پر گولے برسانا شروع کر دیے۔ اُدھر دوسری پلٹون نے حرم گیٹ پر کچھ اِبتدائی وار کئے تاکہ ملتانی مزاحمت کاروں کی توجہ منتشر کی جا سکے اور پھر آگے بڑھ کر کچھ اور گولے داغے مگر قد آدم قلعے کی دیوار سے ابھی وہ تھوڑی دور تھے۔ گِردا گرد میں بنگال ٹروپس نے قلعے کے دائیں جانب مورچے سنبھالےاور بمبئی کے دستوں نے مرکزی پوزییشن سنبھالیں جبکہ باقی ماندہ اِتحادی دستے اینٹوں کے بٹھوں اور باغات سے مقامی آبادی کو دہشت گردی کے ذریعے بے دخل کرکے مورچہ بندی کرنے لگے۔ اور پھر پورے شہر کو مکمل اپنے حصار میں لینے کیلئے گُھڑ سوار دستے شمال مغربی علاقے میں چکر لگانے لگے۔ لیکن دربار کی سمت میں ابھی وہ بڑے حملے کیلئے تیار ہو ہی رہے تھے کہ یکایک گولیوں کی بوچھاڑ نے اُنہیں ہڑبڑا کر رکھ دیا۔ ابھی وہ واپسی فائرنگ کی پوزیشن بنانے ہی لگے تھے کہ گھات لگائے ہوئے ملتانی نشانہ بازوں نے ھلہ فائرنگ کی ایک اور بوچھاڑ کھول دی اور آن کی آن میں غائب ہوگئے۔ چوکنا ہونے کی وجہ سے کم ہی سہی مگر دشمن نے چھ سات اور سپاہی گنوا دیے جن میں ایک دو افسران بھی شامل تھے۔

29 دسمبر تک غیر ملکی جارحیت پسندوں اور خالصہ اتحادیوں نے قلعے سے تقریباً سو گز کے فاصلے پر آگ اگلنے والی اپنی دو غضبناک توپیں نصب کر لیں۔ ایک عظیم الشان دلی گیٹ کے سامنے اور دوسری قلعے کے مضبوط ترین برج، یعنی خونی بُرج کے سامنے۔ مزید برآں انہوں نے اپنی خندقوں کے اندر دور مارک کرنے والی بڑی بندوقیں بھی قلعہ رخ گاڑ دیں۔

جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ قلعے پر چاک وچوبند ملتانی دستوں نے سفاک در اندازوں کو یہ سب کُچھ اتنی آسانی سے نہیں کرنے دیا اور شب وروز گولیوں کی برسات جاری رکھی تاکہ ان کی پیش رفت کو روکا، اور حرب آور بندوبست کو برباد کیا جا سکے۔ یہاں تک کہ جو اتحادی سپاہی خندقوں کے اندر نشانہ باندھنے کے منتظر تھے انہیں سر نکال کر جوابی فائر کرنے کیلئے دس بار سوچنا پڑتا تھا۔ اگر ایک سر بھی کہیں دکھائی پرتا تو درجن بھر گولیاں زناٹے بھرتی ہوئی یا تو اُس کے قریب سے گزر جاتیں یا پھر پکے ہوئے تربوز کی طرح اُن کی کھوپڑی قانچ قانچ بکھیر دیتیں۔ بند اور ٹِیلے، جن کے عقب میں دشمن موقع کی تلاش میں تھا، جہاں کہیں بھی کوئی چھید، کوئی راہ دکھائی دیتی وہاں وہاں سپاہیوں نے نشانہ باندھ کر مسکیٹری کے دہانے کھول دیے یہاں تک کہ ایک درخت جو محض اِتفاق سے قلعے کی دیوار اور برطانوی خندقوں کے درمیاں ٹھہرا تھا گولیوں کے پے در پے جھماکوں سے چھلنی ہو گیا۔

یوں معلوم پڑتا تھا جیسے کسی نے دست وپائے شجر پر مہندی کے پرنٹ بنا دیے ہوں یا کوئی بتِ زخم دیدہ اہنی میت پر آنسو بہا رہا ہو۔ ریت اور مِٹی کی بوریوں میں، جن کے پشتے قاتلوں نے اپنے تحفظ کیلئے باندھے تھے، جاں گُداز سُوراخ تھے جن سے ریت گرم خون کی طرح دَھل دَھل بہنے لگی تھی اور بیسیوں گولیاں بے نشانہ اِدھر اُدھر بکھر گئی تھیں جن کے بدن سخت ڈھالوں سے ٹکرا ٹکرا کر اپنا چہرا گنوا بیٹھے تھے۔

                            

***

اے وی پڑھو:

تریجھا (سرائیکی افسانہ)۔۔۔امجد نذیر

چِتکَبرا ( نَنڈھی کتھا )۔۔۔امجد نذیر

گاندھی جی اتیں ٹیگور دا فکری موازنہ ۔۔۔امجد نذیر

گامݨ ماشکی (لُنڈی کتھا) ۔۔۔امجد نذیر

سرائیکی وسیع تر ایکے اتیں ڈائنامکس دی اڄوکی بحث ۔۔۔امجد نذیر

امجد نذیر کی دیگر تحریریں پڑھیے

About The Author