جون 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آپ کہاں دیکھ رہے تھے؟||یاسر جواد

تو کیا کیا جا سکتا ہے؟ پراسٹیٹیوشن اور تماش بینی غلط چیز ہے! ٹھیک ہے نہیں کرنی چاہیے۔ یہ دو دھاری فیصلہ ہے۔ مغرب میں کچرا مینجمنٹ کی جاتی ہے۔ اور اچھے لوگ یہ کام زیادہ کرتے ہیں۔ وہ پلاسٹک، کھانے پینے کی بچی ہوئی اشیا، کاغذ وغیرہ کو الگ الگ پیک کر کے پھینکتے ہیں۔ حتیٰ کہ بھی باورچی خانے کا اور واش روم کا پانی الگ الگ گٹر میں جاتا ہے۔ ہماری طرح کے وضو کا پانی اور موئے زیر ناف مونڈنے کا پانی اور کچن کا پانی ایک جگہ پر ہی جائے۔

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُس کا چہرہ دیکھیں! ایک ندامت، گرنے سے چوٹ کا احساس، شرمندگی بھی، بے جا بے پردگی پر ندامت بھی، تھوڑا غصہ بھی خود پر۔ رونے اور ہنسنے کی ملی جُلی کیفیت۔
ہر بڑی اور چھوٹی تہذیب میں ایسا ہوتا ہے، اور گھٹیا تہذیب میں کسی پروٹیکشن یا حقوق کے بغیر ہوتا ہے۔ آپ کو ہنسی آئی ہے تو اور بات ہے، لیکن اگر دکھ محسوس ہوا ہے تو غالباً آپ اس طرح سے ’عورت‘ کے استعمال کو روکنے کی خواہش کریں گے۔ آپ کسی ایسے طریقے کی خواہش کریں گے کہ یہ نہ ہو۔ لیکن ایسا ہونا رک نہیں سکتا۔
ارسطو کے لیے عورت اور غلام انسان نہیں تھے۔ انیسویں صدی تک عورت مغرب میں بھی انسان نہیں بلکہ یہی کچھ تھی جو یہاں دکھائی دے رہی ہے۔ وہ وکٹوریائی اور جین آسٹن کی عورتیں یاد ہوں گی جو کورسیٹ کس کر چھاتیوں کو ٹرے کی طرح سجائے پھرتی تھیں۔
تو کیا کیا جا سکتا ہے؟ پراسٹیٹیوشن اور تماش بینی غلط چیز ہے! ٹھیک ہے نہیں کرنی چاہیے۔ یہ دو دھاری فیصلہ ہے۔ مغرب میں کچرا مینجمنٹ کی جاتی ہے۔ اور اچھے لوگ یہ کام زیادہ کرتے ہیں۔ وہ پلاسٹک، کھانے پینے کی بچی ہوئی اشیا، کاغذ وغیرہ کو الگ الگ پیک کر کے پھینکتے ہیں۔ حتیٰ کہ بھی باورچی خانے کا اور واش روم کا پانی الگ الگ گٹر میں جاتا ہے۔ ہماری طرح کے وضو کا پانی اور موئے زیر ناف مونڈنے کا پانی اور کچن کا پانی ایک جگہ پر ہی جائے۔
پراسٹی ٹیوشن انسانی تہذیب کے ساتھ لازم و ملزوم رہی ہے۔ سیانے معاشرے اِسے منضبط کرتے رہتے ہیں۔ یہاں ہمارے معاشرے میں کیا ہو سکتا ہے؟ اگر آپ کے یا میرے پاس چار پیسے ہیں، تو کیا آپ ایک ناچنے والی یا جسم پر پلنے والی مجبور، نشے کی ماری، ذلت کی خوگر عورت کو ایک اچھی شام نہیں دے سکتے؟ اُس کے ساتھ بطور انسان چند گھنٹے شرفِ انسانیت کے تحت نہیں گزار سکتے؟ مجھے تو اِس کے علاوہ کوئی حل نظر نہیں آتا۔ اگر آپ اورہم قحبگی اور زندہ ناچ و گانے کو حرام قرار دے کر بیٹھ جائیں گے تو ان بے چاریوں کے پاس ایسے ہی فربہ مولوی نہیں رہ جائیں گے؟

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: