یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتوار کی شام حلقۂ ارباب ذوق لاہور میں ترجمہ اور عصری ضروریات کے موضوع پر ایک نشست تھی۔ عمار اقبال نے ایک مضمون پڑھنا تھا لیکن فلائٹ کی مسائل کی وجہ سے وہ پہنچ نہ سکے اور میدان صرف میرے لیے خالی تھا۔
حاضرین کی تعداد ساٹھ سے اوپر تھی۔ سو میں نے اپنی گفتگو میں تراجم کے تہذیبی کردار کا جائزہ پیش کیا جس کے کچھ نکات ذیل میں درج ہیں:
دنیا میں ترجمے کا عمل صرف تحریر تک ہی موجود نہیں، بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں پایا جاتا ہے۔
تہذیب کا آغاز لکھنے سے ہوا۔ یعنی ہم تہذیب کی تاریخ تبھی سے جانتے ہیں۔
ہمارے تہوار، عقائد، میلے، ادب سبھی ایک اعتبار سے ترجمہ ہیں۔ یہ شب رات، عید وغیرہ نے بھی تو زبانوں کو ڈھالا اور تہذیبوں میں ڈھلیں۔ یہ سب بھی تراجم ہیں۔
جو تہذیبیں نہیں لکھ سکتی تھیں وہ معدوم ہو گئیں۔ بلکہ ہم جن تہذیبوں کے متعلق جانتے ہیں وہ تراجم کا نتیجہ ہیں۔
یسوع مسیح کی صلیب پر آرامی، یونانی اور لاطینی میں تحریر کندہ کی گئی: یہ یہودیوں کا بادشاہ ہے۔
یہ جالینوس اور بقراط، گوتم بدھ، مہاویر، سلیمان اور ایوب کے قصے ہم تک کیسے پہنچے؟ یہ الف لیلہ کیسے ہندوستان سے گئی؟
ابن رُشد کو یونانی زبان نہیں آتی تھی، اور اُسے ارسطو کے شامی تراجم کے عربی تراجم پر انحصار کرنا پڑا، لیکن یورپ نے ارسطو کو اُسی کے توسط سے جانا۔ الیگزینڈر پوپ کو یونانی واجبی سی آتی تھی، اور اُس نے ہومر کا انگلش ترجمہ کیا۔ لہٰذا کوئی بھی ترجمہ بے کار نہیں جاتا۔
سولھویں صدی تک یونانی اور لاطینی زبان ہی علم کی ترجمانی کرتی تھی۔ سترھویں صدی کے آغاز میں بائبل کے تراجم کا موازنہ کر کے حتمی ترجمہ تیار کرنے کا کام لندن میں شروع ہوا اور نئی دنیا نے جنم لیا۔
اردو میں والیس ٹرپ کا My Uncle Podgers امتیاز علی تاج نے ترجمہ کیا اور چچا چھکن نے تصویر ٹانگی کے نام سے اپنی تحریر کے طور پر چھپوایا۔ 1950ء کی دہائی کے وسط میں مکتبہ فرینکلن نے ایک خاص ایجنڈے کے تحت کچھ اہم کتب کے تراجم کروائے اور یہ سلسلہ بیس سال تک جاری رہا۔
1958ء میں رئیس احمد جعفری نے جرجی زیدان کی ایک تحریر کا ترجمہ کیا تو اُس کے آغاز میں ایک فخریہ اعترافِ جرم بھی شامل ہے: ’’میں نے لغویتیں دور کر دیں، پلاٹ وہی رکھا اور غلطیاں دور کر دیں۔‘‘ رئیس صاحب والی حرکت تاریخ جریر الطبری، داس کیپیٹل اور مقدمہ تاریخ ابن خلدون کے ساتھ بھی کثرت سے فرمائی گئی ہے۔
کوئی ڈیڑھ گھنٹہ گفتگو میں حاضرین کو کئی باتیں بُری بھی لگی ہوں گی، اور وہی اِس اجلاس کا حاصل ہیں۔
محترمہ فرح رضوی صاحبہ نے نہ مجھے کوئی تنبیہ کی، نہ کسی حساسیت کی یاد دہانی کروائی، نہ ٹوکا، نہ روکا۔ اسی طرح حاضرین بھی بہت نیک تھے۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر