حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لگ بھگ پانچ دہائیاں ہوتی ہیں قلم مزدوری کا آغاز کیئے ۔ ان ماہ وسال کی باتیں اب یادوں کا حصہ ہیں، روشن یادیں۔ میں ہمیشہ ان سے رہنمائی لیتاہوں۔ ماضی شفیق بزرگ ہوتا ہے
دوسرے چند طالب علموں کی طرح مجھے اکل کھرے سرمد شہیدؒ اس لئے عزیز ہے کہ وہ کہتے ہیں
’’ہر گزری ساعت بہترین اُستاد ہے‘‘۔
آپ چاہیں تو ساعت بھر کیلئے سانس لے لیجئے۔ مجھے کوئی سنجیدہ موضوع یا مکتبِ ابوترابؑ اور تصوف کے مکتب سے موتی نہیں چُننے۔ عصری سیاست پر روز ہی لکھتے ہیں، سماج میں گھٹن اور نفسا نفسی بڑھے یا کم ہو ہم اور آپ سانس لیں گے اور لیتے بھی رہیں گے ، مجبوری جو ہوئی جینے کی ۔
ہم سے بے نوا زمین زادے سرحد کی دوسری اور کدھر اور کیسے جاسکتے ہیں ارادہ باندھنے میں امر مانع کوئی نہیں آجکل ہم بھی ارادہ تو باندھ ہی چکے یہ جانتے ہوئے بھی نتیجہ ہمارے اختیار میں نہیں ۔
ساڑھے آٹھ صدیوں سے ایک عشرہ کم ہوا، نسل درنسل اسی سرزمین پر رہتے ہوئے۔ ہاکڑا، ملتان، موہنجوداڑو، ہڑپہ اور گندھارا تہذیبوں کی جنم بھومی انڈس ویلی میں۔ کبھی یہ انڈس ویلی سندھ کہلاتی تھی۔ باہر کی دنیا ہند اور سندھ نام کی دو ریاستوں سے آگاہ تھی۔
وقت آگے بڑھتا رہا، پھر متحدہ ہندوستان ہوا، مغل ایمپائر بعد کی بات ہے اس سے قبل بھی مسلم سلاطین حکمران ہوئے۔ ان سلاطین کی مملکتوں کے کھنڈرات پر مغل ایمپائر قائم ہوئی اور صدیوں تک اس نے سفر کیا۔
زوال کی بہت ساری وجوہات ہیں سب سے اہم اورنگ زیب عالمگیر کے دور حکومت کے اقدامات ہیں۔ اورنگ زیب عالمگیر سے شروع ہوا زوال بہادر شاہ ظفر تک پہنچتے پہنچتے مکمل ہوا۔ برطانوی گوروں کی ایسٹ انڈیا کمپنی قابض ہوگئی
پھر ایک دن بر صغیر یا متحدہ ہندوستان تقسیم ہوگیا۔ بھارت اور پاکستان کے نام سے دو ملک معروض وجود میں آئے۔
یہ خونی بٹوارہ لاکھوں زندہ ا نسانوں کو نگل گیا ۔ اس کے لئے اُدھر والے ہمیں روتے ہیں اور ہماری کتابوں میں ” وہ ” مجرم خونی قاتل اور درندے ہیں لیکن کڑوا سچ یہی ہے کہ
دھول اُڑی، لہو خاک میں ملا، قبرستان وسیع ہوئے۔بٹوارے کے پس منظر اور بٹوارے پر سرحد کے دونوں اور پورا سچ لکھنے کی جرأت کسی میں ہوئی نہ ہو پائی اور نا ہی ہو سکے گی وجہ ؟ اسٹیبلشمنٹی ریاستوں کا مفاد پرستی پرمبنی بیانیہ ہے
بٹوارے سے بنے دونوں ملکوں میں سرکاری تاریخ پڑھتے کئی نسلیں پروان چڑھیں اور رخصت ہوئیں نفرت، حسد، عدم برداشت، انکار،سچ سے فرار دونوں طرف یہی سودے پچھتر برسوں سے فروخت ہو رہے ہیں۔
دروازے کھل رہے ہیں نفرتوں اور تعصبات کی دوکانوں کے، مال دھڑا دھڑفروخت ہورہا ہے۔
کہتے تو یہی ہیں کہ ہمارے جناح صاحب ملائیت زدہ معاشرے اور تھیوکریٹ ریاست کے قائل نہیں تھے۔ وہ سوشل ڈیمو کریٹ ریاست پر یقین رکھتے تھے۔
میرے سامنے ان کی 11اگست 1947 والی تقریر ہے۔ بہت سارے دوست ان کی اسلامی نظام اور تجربہ گاہ والی باتوں سے بھری تقاریر طالب علم کے سامنے رکھ کر منہ چڑھاتے ہیں۔ وہ بھی اپنی جگہ سچے ہیں بہر حال
بحثوں اور اُلجھنوں کے باوجود مجھے جمہوریت پسند اور سیکولر چہرے والے جناح اچھے لگتے ہیں۔
اسی لئے قرارداد مقاصد کی راہ پر مولوی حضرات کو لگانے والے مسلم لیگ کے خان بہادروں، نوابوں اور ملکان سے رتی برابر ہمدردی نہیں۔
میں جب یہ سب لکھ رہا ہوں تو میرے سامنے ایک دو نہیں کئی بلکہ درجنوں سوال رقص کررہے ہیں
میرا جی چاہا جواب تلاش کرنے کی بجائے سوالوں کے ساتھ رقص کروں سو میں نے ایسا ہی کیا سچ پوچھیں تو مجھے کتابوں کے علاوہ دوست موسیقی اور رقص پسند ہے میں رقصوں کی اقسام شمار نہیں کرتا بس رقص ہو اور رقاص دنیا جہاں سے بے نیاز ہوکر ناچتے رہیں
آپ کی آسانی کیلئے عرض کئے دیتا ہوں کہ یہ کالم لمحہ موجود سے فرار کی سچی نیت سے لکھ رہا ہوں اس لیے تاریخ کے اوراق پلٹ رہا ہوں تاریخ بڑی ظالم چیز ہے
فقیر راحموں کہتا ہے "تاریخ اصل میں شہر کے مرکزی چوک پر رکھا آئینہ ہے” ۔
پچھلی شب کچھ عزیزان تشریف لائے یہ عزیزان جب بھی آتے ہیں سوالات کی پوٹلیاں باندھ کے لاتے ہیں ایک طرح سے تو یہ اچھا ہے میں اپنے مطالعے اور یادداشت کا امتحان لے لیتا ہوں ویسے تو ہماری اور آپ کی زندگی بھی ہے تو سوالوں سے بھرا امتحانی پرچہ ہی ۔
خیر پچھلی شب آئے عزیزوں کے سوال کچھ انوکے اور قدرے نوکیلے تھے ان سوالوں کا جواب دیتے ہوئے تاریخ کے گلی کوچوں اور ” بازاروں ” کی خاک بہت چھانی خوشی یہ ہے کہ عزیزان گرامی کو سوالات کے جواب مل گئے ۔
کل کی بات ہے ایک صاحب منہ پھاڑ کے بولے تم جیسے لفافہ صحافی عمران خان کے انقلاب کا راستہ نہیں روک سکتے ۔ میرے ایک عزیز پیرشیرازی عمران خان کی اندھی محبت میں اکثر کہتے ہیں تم وسوسے پیدا کرتے ہو اس سادگی یا بنی گالیاتی فہم پہ کیا عرض کروں
عجیب بات ہے نہ ہم صحافی لوگ خود کو خدائی فوجدار سمجھتے ہیں۔ لوگوں کی ہمارے بارے میں مختلف آراء ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ صحافی تو بلیک میلر ہیں، ان سے ہر کوئی ڈرتا ہے اور ڈر کے مارے نذرانہ پیش کر دیتا ہے۔
دوہزار پندرہ سے دوہزار بیس کے اپریل تک جس میڈیا گروپ میں یہ قلم مزدور ( بطور ایڈیٹر ) ملازمت کرتا ہے اس کے معاملات قدرے مختلف اور مسائل سنگین تھے معاملات حل ہونے کے قریب پہنچے تو وہی ہوا جو عموماً ہوتا ہے دوست ہونے کا دعویٰ کرنے والے دوستوں کو بیچ کر پتلی گلی سے نکل گئے ۔
وہ تو شکر ہے کہ اس عرصے میں ’’مشرق‘‘ سے دیرینہ رشتے کی وجہ سے اس میں کالم کلامی چلتی رہتی ہے اور زندگی بھی چل رہی ہے۔
پھر ” بدلتازمانہ ” سے مسلک ہوگیا دونوں تعلق سلامت ہیں عزت و آبرو سے وقت بسر ہورہا ہے معاف کیجے دل کی بات کرتے رہنا چاہئے اس لئے صحافیوں کو خدائی فوجدار اور لفافہ کہنے سمجھنے والوں سے عرض ہے حضور! کیسی خدائی فوجداری، یہاں تو اپنے حق میں دوسطریں لکھتے ہوئے مزدوری سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں”۔
یہ بجا ہے کہ
عدم توازن دوسرے شعبوں کی طرح ہمارے شعبہ میں بھی ہے۔ تجربے اور اہلیت پر تین حرف ہیں ہونے بھی چاہیں ۔
لیجے کالم اختتام تک پہنچ چکا۔ اس عہد میں جینا بذات خود ایک سزا ہے۔ مایوس آدمی تھا نہ ہوں۔ اُمید پرست ہوں، اُمیدیں ابھی قائم ہیں
کل کی طرح آج بھی میرا ایمان اس بات پر ہے کہ موسم کوئی بھی اور کیسا بھی ہو ہمیشہ نہیں رہتا۔
بے قدری و بے نوائی کا یہ موسم بھی ایک دن تبدیل ہوگا۔ ہم نہ سہی ہماری آئندہ نسلیں جبر واستحصال سے ضرور نجات حاصل کرلیں گی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ