حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رونق میلہ لگا رہنا چاہیے جتنی غربت اور دوسرے مسائل ہیں، رونق میلہ نہ ہو تو لوگوں کی سانسیں رک جائیں۔
ورلڈ کپ مقابلوں میں مراکشی فٹبال ٹیم کی ابتدائی کامیابیوں کی وجہ سے ہندو پاک میں جو ’’اُبال‘‘ آیا ہوا تھا وہ فرانس کے ہاتھوں مراکش کے بعد کو ہار جانے کے بعد ’’جھاگ‘‘ کی طرح بیٹھ گیا۔
البتہ پچھلے چند دنوں کے دوران سوشل میڈیا پر برادران ایمانی پاکی و ہندوستانی نے بہت زیادہ رونق لگائے رکھی ہے ۔ فرانسیسی مقبوضات اور تحریک آزادیوں کی تواریخ خوب پڑھائی سمجھائی گئی ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ مراکش اور فرانس کا فٹبال سیمی فائنل نہیں ’’معرکہ کفرواسلام‘‘ ہوگا۔ اس معرکہ کا جو نتیجہ نکلا ہے اس پر تو ہم فقیر راحموں کا تبصرہ بھی نہیں لکھ سکتے۔ لکھ دیں تو تھڑے باز مجاہدین جان کو آجائیں گے۔
قبل ازیں فٹبال ورلڈ کپ کے ابتدائی مرحلہ میں سعودی عرب اور ایران کی فتوحات پر بھی مسلمانی نے ’’جوش‘‘ مارا تھا سوشل میڈیا پر۔ ایک پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ورلڈ کپ فٹبال میچز میں 63سو کے قریب لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔
چند کھلاڑیوں کے قبول اسلام کے دعوے بھی ہوئے ایک کھیلاڑی میسی کی تصویر لگاکر کہا گیا کہ وہ قبول اسلام کے بعد اذان دے رہے ہیں اس کے قبول اسلام اور اذان دینے پر یورپ ’’ہل‘‘
کر رہ گیا۔
سستے نشے اور سستے ’’شونقوں‘‘ کا نتیجہ یہی نکلتا ہے۔ ایک جھوٹ نبھانے کے لئے سو جھوٹ بولو اور دو سو تیار رکھو۔ 63سو افراد کے قبول اسلام والی سوشل میڈیائی خبر لگانے والے کی وال پر فقیر راحموں نے کمنٹس کیا
’’اچھا یہ جو پہلے سوا ڈیڑھ ارب مسلمان ہیں انہوں نے کیا تیر مارلیا جو نو مسلم باقی کی کسر پوری کردیں گے۔ یہ بھی لکھا کسی دن وقت نکال کر صرف اتنا سوچ لیجئے کہ مسائل و مشکلات، غربت و جہالت دعائوں سے ختم ہوں گے یا عملی جدوجہد سے؟‘‘
بس جانتے ہیں پھر کیا ہوا ؟ وہی جو سوشل میڈیا پر ہوتا ہے۔ اہل ایمان نیزے بھالے سونت کر ٹوٹ پڑے فقیر راحموں پر خوب فتوے ٹھوکے بلکہ کئی ایک نے تو قادیانی اور مرتد بھی قرار دے دیا۔
منہ بسورے جب وہ اپنی داستان سوشل میڈیا گردی سنارہے تھے تو ہماری ہنسی چھوٹ گئی بس ” مُڑ نہ ” پوچھئے کیا ہوا۔ فقیر راحموں ڈن ہل کے پورے پانچ سگریٹ پھونکنے اور کافی کا ایک کپ سُڑکانے کے باوجود شدید غصہ میں تھا۔
وہ تو شکر ہے عین اسی وقت ہمارے ملتانی برادر عزیز شاکر حسین شاکر کی نئی تصنیف ’’علی منزل‘‘ بذریعہ ڈاک موصول ہوگئی ہم نے رشوت کے طور پر فقیر راحموں کو تھماتے ہوئے کہا یار فقیر ایسا کرو تم یہ کتاب پڑھو ہم ذرا روزی روٹی کے حصول کے لئے آج کے دن کی مزدوری کرلیں۔
موصوف نے کتاب فوراً جھپٹ لی اب نتھنے پھلائے صوفے پر بیٹھے اس کو پڑھ رہے ہیں۔ ابھی آرڈر لگایا ہے شاہ ذرا آواز دے کر چائے کا کہنا، ناشتے کے بعد چائے نہیں پی۔ عرض کیا وہ جو ابھی کافی سُڑکائی وہ؟ بولے وہ تو تمہارے لئے آئی تھی سو ہم نے پی مرلی۔
خیر چھوڑیئے ہم ورلڈ فٹبال کپ پر بات کررہے تھے۔ ہم نے اس کا ایک بھی میچ نہیں دیکھا۔ خبرناموں میں جھلکیاں دیکھتے ہیں اور سوشل میڈیا پر فیس بکی دوست ذوالفقار علی زلفی کے سنجیدہ تبصروں کے علاوہ معروف ” مسلم سوشل میڈیا گردی” سے حظ اٹھاتے ہیں۔
فرانس اور مراکش کے میچوں میں ویسے ہی حالات تھے ہندو پاک میں جیسے پاک بھارت کرکٹ میچوں کے دوران ہوتے ہیں۔ شکر ہے ہمیں کرکٹ بھی پسند نہیں۔ ہاکی اور بیڈمنٹن پسند ہیں۔ ہاکی کا حال پاکستانی سیاست جیسا ہے۔ بیڈمنٹن کا بھی پرسان حال کوئی نہیں۔
فقیر راحموں البتہ موج میلے کا سامان کرلیتا ہے۔ آجکل فٹبال میچز اس کا شغل ہیں ویسے بدھ کی دوپہر اس نے شیخوپورہ میں دوستوں کی محفل میں خوب رونق لگائے رکھی۔ وہ ایک الگ داستان ہے۔
فقیر راحموں پہلا بندہ ہے جو سسرالی شہر میں جاکر بھی چہکتا رہتا ہے
ورنہ بڑے بڑے دھانسو پھنے خان سسرالی شہر میں ایسے مودب ہوتے ہیں جیسے قبلہ اول کی زیارت کو پہنچے ہوں۔
چلیں فٹبال میچز اور ’’معرکوں‘‘ کی باتیں بہت ہوگئیں اب کچھ حالات حاضرہ کی دیکھ بھال کرلیتے ہیں یہ بھی بہت ضروری ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ ہفتہ 17 دسمبر کو خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلیاں توڑنے کی تاریخ کا اعلان کریں گے۔
بدھ کو انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’جنرل باجوہ نے پاکستان کے ساتھ وہ کیا جو کوئی دشمن بھی نہ کرے‘‘۔ پہلی بار ہم اورفقیر راحموں ان سے متفق ہیں۔ کڑوا سچ یہی ہے کہ جنرل باجوہ اینڈ کمپنی نے اس ملک کی بربادی میں بھرپور حصہ ڈالا پتہ نہیں کس جنم کا بدلہ لیا اس رجیم نے۔ فقیر راحموں نے امید ملت ایمانی بنی گالہ شریف قبلہ عمران خان کے تازے بیان پر خوب تبصرے کئے ہیں۔ جنرل باجوہ والی بات پر اس کا کہنا ہے کہ اگر کسی دن حکومت جرات کرکے شکریہ راحیل شریف، شجاع پاشا، ظہیر اسلام چودھری، فیض حمید اور قمر جاوید باجوہ پر حلف کی خلاف ورزی کا مقدمہ چلائے تو بہت لطف آئے گا۔
فقیر کے بقول چونکہ باجوہ نے اعتراف کیاہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ سیاست کاری کرتی رہی ہے یہ اعترافی بیان متقاضی ہے قانونی کارروائی کا پھر اب تو عمران خان نے بھی تصدیق کردی ہے کہ جنرل باجوہ نے پاکستان کے ساتھ وہ کیا جو کوئی دشمن بھی نہیں کرسکتا۔ اس بیان کے بعد مزید پوچھ گچھ اور تفتیش کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی۔
ویسے سچ یہ ہے کہ عمران خان کے اس بیان پر ’’باجوہ نے پاکستان کے ساتھ وہ کیا جو دشمن بھی نہ کرے‘‘ داد بنتی ہے اور بے شمار بنتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ کل کلاں اس سے ’’کلٹی‘‘ یوٹرن نہ مارلیں کیونکہ ان کا آج تک کا ریکارڈ یہی ہے کہ وہ کمال مہارت سے کلٹی مارتے ہیں اور فدائین بنی گالہ شریف دھمال ڈال رہے ہوتے ہیں اس پر ۔
نیوٹرل کو جانور قرار دیتے ہوئے وہ پچھلے آٹھ نو ماہ سے لوگوں کو یہی سمجھارہے تھے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے بھی نیوٹرل رہنے کی اجازت نہیں دی‘‘۔ مگر گزشتہ روز ارشاد فرمایا ’’میں کسی سے مدد نہیں مانگ رہا۔ چاہتا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل رہے‘‘۔ یہ بھی کہا کہ معیشت اس لئے تباہ ہورہی ہے کہ ہمارے ملک میں انصاف نہیں ہے۔
خدا لگتی کہوں یہ بھی سچ ہی ہے۔ انصاف طبقاتی نہ ہوتا تو خود انہیں بنا عدالت میں حاضر ہوئے ضمانتیں نہ مل رہی ہوتیں۔ دوسروں کو چور ڈاکو لٹیرا کہنے کا انہوں نے اتنا شور مچایا کہ اس شور میں ان کی اپنی چوریاں اہلخانہ دوستوں اور عزیزواقارب کی ڈکیتیاں چھپ گئی ہیں۔
ان کے فدائیان اب بھی انہیں ایماندار سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں خان، ان کی اہلیہ دیگر اہلخانہ، دوستوں اور وزیروں کے خلاف جو چوریوں اور ڈکیتیوں کے الزام لگ رہے ہیں وہ سفید جھوٹ ہیں۔
وہ متاثرین عمران خان تو اب بھی یہی کہتے ہیں کہ
"خان کے پاس خدا کا دیا ہوا سب کچھ ہے اس نے جمائمہ خان کی 16ہزار ارب پائونڈ کی دولت کو صرف ملک کے لئے لات ماری اسے کیا پڑی تھی ٹکے ٹکے کے لوگوں کی منتیں کرنے اور چند چند کروڑ کی چوریاں کرنے کی”
۔ فقیر راحموں کہتا ہے کہ شاہ یہ جمائمہ خان کے 16ہزار ارب پائونڈ والی بات ویسی ہی ہوائی ہے جیسی ہوائی 2018ء کے انتخابات کے دوران اڑائی گئی تھی کہ جمائمہ نے امریکہ اور آئی ایم ایف کو خبردار کیا ہے کہ وہ خان کے اقتدار میں آنے کے راستے میں رکاوٹ نہ بنیں اور یہ کہ اس نے پاکستان کے کل قرضے کا نصف ادا کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
آگے بڑھنے سے قبل عرض کردوں کہ فقیر راحموں کی باتوں سے ہمارا متفق ہونا ازبس ضروری نہیں۔ وہ من موجی آدمی ہے کبھی بھی کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ سکتا ہے البتہ اچھی بات یہ ہے کہ اپنی کہی باتوں سے یوٹرن نہیں لیتا۔
اچھا ویسے یہ کمال کی بات نہیں، فقیر راحموں اگر سیاستدان ہوتا تو یوٹرن لیتا کیونکہ قبلہ خان صاحب قبلہ کہتے ہیں اچھا لیڈر وہی ہے جو یوٹرن لے۔
خان نے گزشتہ روز یہ اعلان بھی کیا ہے کہ پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی ایوان میں جاکر اپنے استعفوں کا اعلان کریں گے۔ امید کی جانی چاہیے کہ اس کے بعد فیڈرل لاجز پر قابض انصافی اپنے گھروں کو چلے جائیں گے۔
البتہ صوبائی اسمبلیاں توڑے جانے کے معاملہ پر ہمارے ملتانی مخدوم، مخدوم شاہ محمود قریشی نے کچھ دیر قبل کہا ہے کہ ’’پرویزالٰہی سمیت کچھ اور دوست بھی اسمبلیاں توڑنے کے حق میں نہیں وہ کہتے ہیں یہ اقدام قبل از وقت ہوگا‘‘۔
فقیر راحموں نے اس پر بھی تبصرہ کیا ہے لیکن اسے ہم یہاں اس لئے نقل نہیں کررہے کہ دونوں ملتانیوں کی آپس میں لگتی پھبتی ہے۔
مکرر عرض ہے کہ حکومت تھوڑی سی ہمت کرے اور عمران خان کے باجوہ والے بیان پر کمیشن قائم کردے۔ ملک کا ایک سابق وزیراعظم سابق آرمی چیف پر سنگین الزام لگارہا ہے۔
فقیر راحموں نے پھر مداخلت کی اور کہا، یار شاہ، ہوش سے کام لو حکومت کو الٹے سیدھے مشورے نہ دو، یہی خان کل تک کہتا تھا کہ ’’باجوہ ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا جمہوریت پسند آرمی چیف ہے‘‘۔
عرض کیا تب جنرل قمر جاوید باجوہ نے اسے اقتدار دلانے کے لئے دستور کو روندتے ہوئے جو کارنامے سرانجام دیئے تھے وہ خان کے نزدیک ’’عینِ اسلامی ٹچ والی جمہوریت‘‘ تھے۔
چلیں باقی باتیں ا گلے کالم میں کریں گے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ