نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عروس البلاد ۔ کراچی ۔۔۔ || آفتاب احمد گورائیہ

پاکستان پیپلزپارٹی کے قیام کو پچاس سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد بہت کچھ بدل چُکا ہے۰ قیادت تیسری نسل کو منتقل ہو چکی جبکہ جیالوں کی بھی تیسری نسل پارٹی کے ساتھ وابستہ ہو چُکی ہے، اگر کچھ نہیں بدلا تو پارٹی کا نظریہ نہیں بدلا اور نہ ہی پارٹی کی مظلوم اور پِسے ہوئے کمزور طبقے کی حمایت میں کوئی فرق آیا ہے

آفتاب احمد گورائیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ کراچی کو روشنیوں کا شہر اور عروس البلاد یعنی خوبصورت شہر بھی کہا جاتا ہے۔ صوبہ سندھ کا دارالحکومت اور پاکستان کی واحد بندرگاہ ہونے کی وجہ سے بھی کراچی کی اپنی اہمیت ہے۔ کراچی میں پاکستان کے کونے کونے سے لوگ اپنی روزی روٹی تلاش کرنے آتے ہیں۔ کراچی میں پاکستان کے ہر رنگ اور نسل کا بندہ نظر آتا ہے۔ تقسیم کے وقت ہجرت کر کے آنے والوں کی ایک بڑی بھاری تعداد نے بھی کراچی میں موجود وسائل اور روزگار کے وافر ذرائع ہونے کی بنا پر کراچی کو ہی اپنا نیا مسکن بنایا۔

آمر ضیاالحق نے اپنے دور میں سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنے کے لئے اور اپنے ناجائز اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے کراچی کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کا کام شروع کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تقسیم اتنی گہری ہو گئی کہ اس لسانی تقسیم نے شہر کا امن و امان تباہ کر کے رکھ دیا اور کئی دہائیوں تک کراچی شہر دہشت گردی، قتل، اغوا اور بھتہ خوری سمیت ہر قسم کے جرائم کی آماجگاہ بنا رہا۔ کراچی جسے روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا یہاں سے لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے اور کاروباری حضرات اپنا کاروبار یہاں سے بیرون ملک یا دوسرے شہروں میں منتقل کرنے لگے۔ کہنے کو اس ساری بدامنی اور لاقانونیت کا الزام سیاسی جماعتوں پر ہی آیا لیکن اصل ذمہ داری بہرحال ان پوشیدہ ہاتھوں اور مقتدر قوتوں کی ہی تھی جو طاقت کا اصل مرکز تھے۔ ان مقتدر قوتوں نے کراچی کا اقتدار اور اصل طاقت کبھی عوامی نمائیندوں کو منتقل ہونے ہی نہیں دی اور اپنے پسندیدہ کنگز پارٹی ٹائپ سیاستدانوں کی ذریعے اصل سیاسی قوتوں کے ہاتھ باندھے رکھے۔

پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کراچی کی دو بڑی سٹیک ہولڈر جماعتیں ہیں جو کئی دفعہ اتحادی حکومتوں میں بھی رہ چکی ہیں۔ آج بھی کراچی میں اگر کسی جماعت کا حقیقی ووٹ بینک موجود ہے تو وہ انہی دو جماعتوں کا ہے۔ تحریک انصاف کی کراچی میں حیثیت ایک مہمان اداکار سے زیادہ کی نہیں ہے۔ تحریک انصاف کی کراچی میں موجودگی اگر دیکھا جائے تو ایم کیو ایم کے دو گروپوں کی باہمی چپقلش اور سلیکٹرز کی نظر عنایت کا نتیجہ ہے۔ مہاجر ووٹ آج بھی ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے ساتھ ہی کھڑا ہے اور ایم کیو ایم لندن آج بھی کراچی میں بسنے والے مہاجروں کی نمائیندہ جماعت ہے جس کا ضمنی انتخابات کے نتائج سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ایم کیو ایم بہادر آباد کچھ نشستیں جیتنے کے باوجود اکثریتی مہاجر ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ایم کیو ایم لندن کے بائیکاٹ کی وجہ سے جنرل اور ضمنی الیکشنز میں کراچی کے مہاجر اکثریت والے علاقوں میں ووٹرز کا ٹرن آوٹ انتہائی کم رہا ہے جس کا فائدہ تحریک انصاف کو ملا اور ایم کیو ایم کی نشستیں تحریک انصاف کو مل گئیں یا آر ٹی ایس کے ذریعے دلا دی گئیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایم کیو ایم لندن کو بھی آن بورڈ لیا جائے کیونکہ ان کا جرم تحریک انصاف اور اسکے لیڈر عمران خان سے بڑا نہیں ہے۔ عمران خان اقتدار سے نکلنے کے بعد مسلسل وہی باتیں کر رہے ہیں جو الطاف حسین کرتے رہے ہیں اس لئے اگر عمران خان اور ان کی جماعت کو سیاست کی اجازت ہے تو پھر ایم کیو ایم لندن کو بھی لیول پلئینگ فیلڈ ضرور ملنی چاہئیے۔ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم دونوں جماعتیں ایک حقیقت ہیں اور ان دونوں جماعتوں کو بھی اس چیز کا احساس کرنا چاہئیے کہ اگر ایک دوسرے کے ووٹ کا احترام نہیں کریں گے تو پھر تحریک انصاف جیسے گھس بیٹھیے ہی فائدہ اٹھائیں گے۔

کراچی میں اس وقت جماعت اسلامی کی حیثیت ایک پریشر گروپ سے زیادہ کی نہیں ہے اور یہ بات حال ہی میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں بالکل واضح ہو چکی ہے۔ یاد رہے جماعت اسلامی ان ضمنی انتخابات میں صرف چند سو ووٹ ہی حاصل کر سکی لیکن بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی خود کو ایک بڑے سٹیک ہولڈر کی طرح پیش کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی کو کراچی میں جب بھی مئیرشپ کا موقع ملا وہ آمرانہ دور میں مقتدرہ کی حمایت کے باعث تھا۔ مقتدرہ والے بظاہر تو نیوٹرل ہو چکے ہیں لیکن کراچی کی حد تک ان کا کردار ابھی بھی واضح نہیں اور عام تاثر یہی ہے کہ کراچی آئیندہ بھی مقتدرہ کی پسندیدہ جماعت کو ہی دیا جائے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مقتدرہ اگر واقعی نیوٹرل ہو چکی ہے تو اس کا اطلاق کراچی میں بھی ضرور کیا جائے تاکہ کراچی کےعوام کو بھی حقیقی طور پر اپنے نمائیندے منتخب کرنے کا موقع مل سکے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کو کبھی کراچی کی مئیرشپ نہیں مل سکی لیکن صوبائی حکومت پیپلزپارٹی کی ہونے کی وجہ سے کراچی کے بلدیاتی مسائل کا سارا ملبہ ہمیشہ پیپلزپارٹی پر ہی گرتا رہا جبکہ کراچی کے بلدیاتی وسائل پر قابض اور مئیرشپ کے ذمہ داران سارا ملبہ پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت پر ڈال کر خود کو ان مسائل سے بری الذمہ قرار دیتے رہے۔ جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے ادوار میں ہونے والی چائینہ کٹنگ اور بغیر کسی ٹاون پلاننگ کے تحت ہونے والی ناجائز تعمیرات نے نہ صرف کراچی شہر کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا بلکہ نکاسی آب جیسے نہ حل ہونے والے مسائل کے پہاڑ بھی کھڑے کر دئیے۔ یہی وجہ ہے کہ ذرا سی بارش ہو تو کراچی شہر ندی نالوں اور تالاب کا سا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ جو لوگ سالہا سال سے بلدیاتی اداروں کی نمائیندگی کر رہے تھے اور یہ مسائل حل کرنا جن کی ذمہ داری تھی وہی ان مسائل پر پیپلزپارٹی کو موردِ الزام ٹھہراتے نظر آتے ہیں۔

اگست دو ہزار اکیس میں بلدیاتی اداروں کی مدت ختم ہونے کے بعد پہلی دفعہ پیپلزپارٹی نے اپنے ایک قابل ترین رکن مرتضی وہاب صدیقی کو کراچی شہر کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا۔ مرتضی وہاب کی ماضی میں مختلف وزارتوں کے انچارج وزیر کی حیثیت سے بےمثال کارکردگی کے پیش نظر کراچی کے عوام نے مرتضی وہاب سے بہت بڑی بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔ مرتضی وہاب نے بطور ایڈمنسٹریٹر کراچی سوا سال کے عرصے میں دن رات انتھک محنت اور جانفشانی سے کام کر کے وہ ساری توقعات پوری کرنے کی کوشش کی جو ان کی تقرری کے وقت کراچی کے عوام نے ان سے وابستہ کی تھیں۔ رواں سال کراچی میں ریکارڈ بارشیں ہوئیں لیکن کراچی میں فلیش فلڈنگ کے ماضی جیسے حالات پیدا نہ ہوئے اور خبر کے متلاشی میڈیا کو ہیڈ لائن نہ مل سکی۔ بارش کےدوران، بارش ختم ہو جانے کے بعد اور بارش کا پانی نکل جانے تک مرتضی وہاب اپنی ٹیم کے ساتھ سڑکوں پر نظر آئے۔ بارش کے پانی کی تیز رفتار نکاسی دیکھ کراچی کی عوام اور پیپلزپارٹی کے ناقدین بھی تعریف کئے بنا نہ رہ سکے۔ مستقبل میں بھی ایسی صورتحال سے نمٹنے کی لئے ٹھوس منصوبہ بندی کی گئی ہے اور ایسے اقدامات اٹھائے گئے ہیں کہ بارش کی صورت میں عوام کے لئے کوئی مشکل صورتحال پیدا نہ ہو۔

سوا سال کے قلیل عرصے میں مرتضی وہاب نے کراچی کے انفراسٹرکچر پر بھی بھرپور توجہ دی، بانوے کلومیٹر طویل سڑکوں کی کارپیٹنگ اور مرمت کا کام مکمل کیا گیا، نو انڈر پاس اور پلوں کی مرمت اور بحالی کا کام کیا گیا۔ کئی علاقوں میں جہاں سیوریج لائینز پرانی ہو چکی تھیں انہیں تبدیل کیا گیا۔ مرتضی وہاب کے دور میں ماحولیات پر بہت زیادہ توجہ دی گئی، کراچی میں پچاس کے قریب نئے پارک قائم کئے گئے جبکہ پچیس کے قریب پرانے پارکوں کی تزئین و آرائش اور بحالی کا کام کیا گیا جبکہ بلدیہ کراچی کے زیراہتمام پانچ فلاور شوز کا اہتمام کیا گیا۔ دو لاکھ سے زیادہ نئے درخت لگائے گئے جبکہ اربن فارسٹ پراجیکٹ کے زیراہتمام تقریباً بیس ایکڑ جگہ پر بحیرہ عرب کے ساتھ کلفٹن اربن فارسٹ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ انڈسٹریل ایریاز میں آٹھ نئے فائر بریگیڈ سنٹرز کا قیام عمل میں لایا گیا۔ شہریوں کی ذہنی آسودگی اور تفریح کے لیے کھیلوں کی سہولیات پر بھی توجہ دی گئی۔ اس سلسلے میں بلدیہ کراچی کے زیراہتمام سمندر میں واٹر سپورٹس کا آغاز کیا گیا، منوڑہ کے ساحل کے ساتھ عوام کے لیے واکنگ ٹریک بنائے گئے، کشمیر روڈ پر سپورٹس کمپلیکس کی تزئین نو کر کے اسے بحال کیا گیا۔ بطور ایڈمنسٹریٹر کراچی سوا سال کے قلیل عرصے میں مرتضی وہاب کے کئے گئے کاموں کی ایک طویل فہرست ہے جن کا ایک مختصر تحریر میں احاطہ کرنا ممکن نہیں۔

اپنی بہترین کارکردگی سے مرتضی وہاب نے نئے ایڈمنسٹریٹر اور مستقبل کے مئیر کراچی کے لئے بہت اونچا سٹینڈرڈ سیٹ کر دیا ہے جسے پورا کرنا ان کے لئے ایک چیلنج سے کم نہیں ہو گا۔ اس سٹینڈرڈ کو حاصل کرنے کے لئے مرتضی وہاب جیسی ہی اہلیت، عزم اور انتھک محنت درکار ہے۔ اب یہ کراچی کے عوام پر منحصر ہے کہ اس بہترین کارکردگی کے تسلسل کے لئے آنے والے بلدیاتی انتخابات میں وہ پیپلزپارٹی کو ووٹ دیتے ہیں تاکہ مرتضی وہاب اپنا کام وہیں سے شروع کر سکیں جہاں انہوں نے چھوڑا ہے یا ان جماعتوں کو ووٹ دیتے ہیں جو پچھلی کئی دہائیوں سے کراچی کے بلدیاتی اداروں کا انتظام سنبھالے ہوئے ہیں لیکن عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکے۔ یہ سوال ہے کراچی کے عوام کے مستقبل کا اور فیصلہ بھی کراچی کے عوام کو ہی کرنا ہے۔ امید ہے کراچی کے عوام بھی اپنے ووٹ کے ذریعے ٹھیک فیصلہ کریں گے اور پوشیدہ ہاتھ بھی اپنی مداخلت سے باز رہیں گے۔

۰

۰

Twitter: @GorayaAftab

پی ڈی ایم کا ملتان جلسہ ۔۔۔آفتاب احمد گورائیہ

تحریک کا فیصلہ کُن مرحلہ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

چار سالہ پارلیمانی مدت، ایک سوچ ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

آفتاب احمد گورائیہ کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author