نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’’اپن تو ایسا ہی ہے‘‘۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابتدا میں دو تین باتیں عرض کئے دیتا ہوں تاکہ سند رہیں اور بوقت ضرورت کام آئیں۔

اولاً یہ کہ میں (تحریر نویس) درویش خدا مست بالکل بھی نہیں ہوں۔ قسمت (مقدر وغیرہ) سے زیادہ جدوجہد پر یقین کامل رکھتا ہوں۔ زندگی یہی ہے جو آپ آزاد منش انسان کے طور پر اپنی مرضی سے بسر کریں۔ بہت ساری باتیں کرنے سے بہتر ہے کہ زندگی اپنی کہی باتوں کے حساب پر پورا اترے۔

مجھے ’’بیڈ ٹی‘‘ بستر پر چائے پینے کی عادت ہے۔ تنہا ہوتا ہوں تو الیکٹرک کیتھلی میں پانی گرم کرکے خشک دودھ، ٹی بیگ اور چینی نصف چمچ ڈال کر چائے کا کپ بناتا پیتا ہوں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب میں گزری کل کے حساب کا دفتر کھول لیتا ہوں۔

بھلے برے کا حساب کرتا ہوں۔ حساب بہت ضروری ہے سارا پھڈا حساب کا ہی تو ہے۔ مذہبی متھ کے مطابق کاندھوں پر بیٹھے دو فرشتے پل پل کا حساب لکھتے ہیں۔

اپنا کیا لکھیں گے یہاں سودا نقدونقد ہے۔ طمع اور جمع سے دامن بچاکر یہاں تک آن پہنچا ہوں۔ باقی سفر کتنا ہے، یہی طے ہوگا یا کوئی نیا سفر؟ سادہ سا جواب ہے صبح مجھے سفر اچھے لگتے ہیں۔

لکیروں مقدر اور علم نجوم یہ سب کیا ہے کچھ ہے کہ نہیں اس پر بحث میں الجھنے سے گریز کرتاہوں۔ آپا اماں مرحومہ کہتی تھیں ’’میرے لعل کے پائوں میں تِل ہے سات سمندر پار کا سفر کرے گا‘‘۔ مجھے اپنے ہونے کی طرح یقین ہے آپا اماںؒ کی بات غلط نہیں ہوسکتی چند سانس باقی بھی ہوئے تو یہ سفر ضرور ہوگا۔

موسم محسوس کرتا ہوں، اناج کھاتا ہوں سبزیوں اور فروٹ میں سے کچھ سبزیاں اور فروٹ اچھے نہیں لگتے پتہ نہیں کیوں۔

ہاں میرا جگرم برانڈ دوست ارشاد امین کہتا ہے کہ ’’جن لوگوں کی زندگی کا بڑا حصہ تنہائی میں گزرے دو وقت کی روٹی ہوٹلوں سے کھاتے رہیں وہ گھروں میں پلے بڑھے لوگوں کے مقابلہ میں کھانے پینے میں پسندوناپسند کچھ زیادہ رکھتے ہیں‘‘۔

رندِ خرابات تھا نہ ہوں لیکن رندوں سے سنگت خوب رہی نبھی اور نبھ رہی ہے اپنے رند دوستوں کی محفل میں کوک پینا اچھا لگتا ہے اور اس سے زیادہ اچھا یہ کے ان کی لمبی لمبی تجربوں بھری تقاریر سننے کی بجائے بس اپنی کہتے رہو۔

میں ہمیشہ ا یسا ہی کرتا ہوں تاکہ اپنے دل کی باتیں کرتا رہوں۔ دوست ہمیشہ اچھے ملے مجھے ان پر فخر رہا اور ہے بھی مشکل پڑے تو دوستوں کو آواز دیتا ہوں۔ دوست ہوتے ہی اس لئے ہیں اور کون سا ان کی عیدالاضحی پر قربانی کرنا ہوتی ہے۔

کمرشل ازم کا شکار نہیں ہوا اس لئے جو مال ہاتھوں ہاتھ بک رہا ہو اس کا خوانچہ کبھی نہیں لگایا۔ حب الوطنی حب البرتنی اور دینداری کے مرض کبھی نہیں پالے۔ فائدہ بھی کوئی نہیں۔

میرا ماننا ہے کہ عقیدہ ہو یا نظریہ، اوڑھنے کے لئے نہیں بلکہ یہ عمل کے لئے ہوتے ہیں۔ سو مجھ سے جتنا عمل ہوتا ہے کرتا ہوں۔ اب مستیڑ تو بالکل نہیں ہوں برسوں یہ کام کرکے بھی دیکھ لیا پھر ایک بات سمجھ میں آگئی کہ یہ جو چار اور آباد لوگ ہیں ان میں سے کسی ایک کے چہرے سے مسکان تمہیں دیکھ کر ماند پڑجائے تو ساری مستیڑی دھری کی دھری رہ جائے گی اس لئے انسانوں سے پیار کرتا ہوں۔ مذہب عقیدے نسل اور رنگ کے تعصب کا شکار ہوئے بغیر ۔

اسی لئے کبھی ارجن داس کے گھر کھانا کھانے سے کراہت ہوئی نہ لنگر نیاز کھانے سے انکار کیا۔

ضرورتیں بھی زیادہ نہیں پالیں۔ ایک پیکٹ ڈن ہل پیتا ہوں تین چار اخبار روزانہ خرید کر پڑھتا ہوں نیٹ پر دستیاب اخبارات و جرائد میں سے کچھ مفتے میں بھی پڑھ لیتا ہوں ۔ ویسے یہ مفتا تو ہرگز نہ ہوا نیٹ کی ماہانہ فیس دیتا ہوں۔

کتابیں بہت شوق سے پڑھتا ہوں کبھی توفیق سے زیادہ خرید لیتا تھا اب توفیق سے کم خریدتا ہوں کم اس لئے کہ اب میرے کچھ دوست کتابیں بھجوادیتے ہیں پڑھنے کے لئے۔ مطالعہ میں دوستوں اور پڑھنے والوں کو شریک کرتا ہوں میری دانست میں یہ ان کا حق ہے۔

ایک زمانہ تھا جب ہر ماہ نیا جوڑا واجب سمجھ کر خریدتا تھا اُن دنوں پبلک ٹرانسپورٹ میں 2سیٹیں لے کر سفر کرنا معمول تھا۔ اس دوسری عادت کی وجہ سے بہت باتیں سننا پڑیں۔

ایک بار تو ایک ’’بالکے‘‘ نے (میرے نہیں کسی کے) اس عادت پر کالم لکھ مارا اپنی جانب سے طعنہ دیا کہ مغرور ہوں اس لئے دو سیٹیں لے کر سفر کرتا ہوں ۔

خیر اس کی وجہ اصل میں یہ تھی کہ مطالعہ کے شوق کی وجہ سے اضافی اخراجات برداشت کرتا تھا تاکہ آرام سے پڑھ سکوں۔ اب سفر کبھی کبھار کرتا ہوں پھر پبلک ٹرانسپورٹ میں اتنی سہولتیں آگئی ہیں کہ آپ سنگل نشست لے سکتے ہیں آرام سے سفر کریں پڑھیں یا فلمیں دیکھیں۔

میری ترجیح پڑھنا ہے اس لئے کتاب ساتھ رکھتا ہوں۔

ثانیاً یہ کہ 2006ء میں جب خاتون دوئم کے ہمراہ امریکہ کے لئے فیملی امیگریشن ملی تو میں ان کے ساتھ نہیں گیا، کیوں؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ تب اپنے ملک اور وسیب میں جی بس کر بالادست قوتوں اور جبرواستحصال کے خلاف لڑنا اور اسٹیبلشمنٹ مخالف قوتوں کے ساتھ کھڑا رہنے کا شوق جنون کی حد تک تھا۔

اس فیصلے کے نتائج تلخ رہے رشتوں میں بک جھک ہوئی، مشکلات بھی آئیں لیکن فیصلہ ذاتی تھا اس لئے شکوہ کیا نہ خود کو کوسا۔

میں جو لکھتا ہوں درست سمجھ کر لکھتا ہوں۔ پڑھنے والے یا میرے دوست میری فہم اور لکھت سے اختلاف کرسکتے ہیں۔ آراء کا اختلاف انسانی شعور کے ارتقا کا حُسن ہے ۔

قلم مزدوری کی نصف صدی میں جو بویا وہ کاٹا اس لئے کبھی شکوہ کیا نہ احسان جتایا۔ شکوہ اور احسان کیسا یہ راستہ خود منتخب کیا تھا ہاں اس پر ثابت قدمی سے چلتے رہنے پر میں اپنے والدینؒ اور آپا اماںؒ کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے تربیت میں کج نہیں رہنے دیا۔

اساتذہ بہت اچھے بلکہ بہت ہی زیادہ اچھے ملے اپنے زندہ و مرحوم اساتذہ کے لئے احترام ہی احترام ہے۔ دعائیں ہی دعائیں۔ مشکل دنوں میں بساط سے بڑھ کر دوستی نبھالنے والے دوستوں کا آخری سانس تک شکر گزار رہوں گا۔

میرے پاس فہم و فکر کے حوالے سے جو کچھ ہے یہ سب میرا اپنا ہے یہی مجھے پسند بھی ہے۔ لکیر کا فقیر بنے رہنے یا قدیم خاندانی فہم سے چمٹے رہنے سے بہتر ہے آدمی تحقیق و جستجو کرے تاکہ یہ اطمینان تو ہو کہ ہم جو بھی ہیں اپنی مرضی سے ہیں۔

زندہ انسان کو جستجو کرتے رہنا چاہئے اور پڑھتے بھی۔ میری آزاد خیالی کی حد یہ ہے کہ میں بدہضمی کا شکار نہیں ہوتا عقیدے سے بس اتنی جڑت رکھتا ہوں کہ وہ مجھے بوجھ نہ لگے اور نہ ہی دوست مجھے بوجھ سمجھنے لگیں۔

خواہشیں بڑھائیں نہیں بلکہ حالات کے پیش نظر محدود رکھیں اس لئے اب تک کا سفر اچھا کٹ گیا۔ جو نہیں مل پایا اس کا ملال اس لئے نہیں ہوا کہ پانے کے لئے اس کے پیچھے سرپٹ بھاگنے سے گریز کیا

شکر ہے کہ سفید پوش والدینؒ اور آپا اماںؒ کے لختِ جگرنے ان کے لئے پشیمانی کا سامان نہیں کیا۔ میرے بہت سارے صحافی دوست مجھے احمق سمجھتے ہیں کہ میں نے پریس کلبوں کے ذریعے بسنے والی صحافی کالونی میں کبھی پلاٹ نہیں لیا۔

سردار مہتاب عباسی جب خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ تھے انہوں نے ایک پلاٹ کا لیٹر دیا شکر یہ کہ خط کے ہمراہ انہیں واپس بھجوادیا تب دوستوں نے سمجھایا بھی لیکن سمجھ نہیں پایا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس محترم دوست کا احسان اٹھایا نہ کبھی پریس کلب میں شور مچایا کہ

’’اپن دھانسو دھار سینئر صحافی ہے اپنا پلاٹ کدھر ہے ڑے ‘‘۔

سچ کہوں مجھ پر ریاست کی خیرات اور فرد کی زکوٓۃ نہیں لگتی۔ لگتی ہوتی تو جب 1989ء میں محترمہ بینظیر بھٹو جنرل ضیاء الحق کے عہد ستم میں جبرواستحصال کا شکار بننے والے صحافیوں میں سے ہم بعض کو پلاٹ عنایت کررہی تھیں تو لے لیتا۔

یہ سوال ہمیشہ میرے پیش نظر رہا کہ ہم جن محکوم و مجبور طبقات کی آواز ہونے کے دعویدار ہیں ان کے دکھ اور مصائب یا بے گھری ختم ہوئے کیا؟

استاد مکرم اکرم شیخ سمیت بہت سارے دوست میری اس انوکھی فہم کے ایک حصے پر مجھ سے نالاں بھی رہتے ہیں اور شاکی بھی۔

مجھے ان کی آراء کا احترام ہے۔ کبھی ایک گھر بنایا تھا بہن بھائیوں اور چند دوستوں نے مدد کی تھی اس کے لئے ۔ پھر ایک ضمانت گلے کی ہڈی بن گئی۔ یہ ہڈی نکلوانا ضروری تھا اس لئے وہ گھر تعمیر کی لاگت سے کم پر بیچا اور ہاتھ جھاڑ لئے۔

مجھے یاد ہے کہ اس گھر کی فروخت پر ایک شخص نے ( جو کبھی دوست ہوتا تھا ) حقارت بھرے انداز میں طعنہ بھی دیا تھا۔ ہمیں کون سا طعنوں یا نمودونمائش کی پروا رہی جو دل پر لیتے۔

جو دن بیت گئے ان پر سینڑ پاک بتول سلام اللہ علیہا۔ ان کے بلند مرتبہ بابا جان آقائے صادق محمد مصطفی کریمؐ اور اپنے مہربان دوستوں کا شکر گزار ہوں۔

استاد محترم سید عالی رضویؒ فرمایا کرتے تھے

’’شکر گزاری ایسی نعمت ہے جو مہربانیوں کا دروازہ کھلا رکھتی ہے‘‘۔

نصف صدی سے مزدوری کررہا ہوں یہی اوڑھنا بچھونا ہے ذریعہ رزق اور بھرم بھی۔

ہاں یہ دلچسپ بات ہے کہ میں جب کسی اخبار کا ایڈیٹر ہوتا ہوں تو شناسائوں کا ہجوم ہوتا ہے بیکاری یعنی منصب کے بغیر زندگی میں وہ ہجوم چھٹ جاتا ہے۔

دوست ہر حال میں ساتھ دیتے ہیں ان کے لئے دست دعا بلند کرتا رہتا ہوں۔ یقین کیجئے کبھی اپنی کم مائیگی کا احساس نہیں ہوا۔ یہ دکھ بھی نہیں پال پایا کہ دوسروں کی طرح دنیا کیوں نہیں حاصل کی۔

حاجی نمازی پرہیز گار بالکل بھی نہیں ہوں۔ عبادت کا سودا سر میں سمایا نہ محرومی کی دیمک لگی۔

ایک سادہ اطوار سفید پوش اور رزق حلال سے اولاد کی تربیت کرنے والے والدینؒ اور آپا اماںؒ کا حق ادا کرنا مجھ پر واجب ہے بس۔

باقی سب آنکھوں کا فریب ہے۔

معاف کیجئے گا تڑکوں شڑکوں والا کالم نہیں لکھ سکا جو دل میں آیا لکھ دیا فقیر راحموں کے بقول

’’اپن تو ایسا ہی ہے ڑے ساتھ دو اور برداشت کرو‘‘۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author