نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ادب میں خاتون قلمکار کی ویلڈٹی ( validity ) ، اور بھگوڑا شوہر، اشفاق احمد اور بانو قدسیائی سوچ کی روشنی میں ||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

اکیسویں صدی میں پاکستانی ادیب اگر دنیا میں اپنے خیال کے سہارے کوئی مقام حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے قلم کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ بانو قدسیائی فرسودہ سوچ کے ساتھ گھسٹ گھسٹ کر چلنا ہے یا ہمیشہ باقی رہنے والے ادبی دھارے میں شامل ہونا ہے۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طنزیہ فقرے، استہزائیہ جملے، رکیک الزام، بے ہودہ مغلظات۔ چکنا گھڑا ہونے کا ایک فائدہ تو ہوا کہ سب پھسل کر غائب۔ جس نے بھی کچھ کہا یا لکھا، ہو کیئرز کہتے ہوئے اک بے نیازی کہ جواب جاہلاں خاموشی باشد۔

لیکن ایک فقرے نے گل محمد کو اپنی جگہ سے ہلنے پہ مجبور کر دیا اور اس کی اشد ضرورت یوں آن پڑی کہ ذات پہ اچھالا گیا کیچڑ تو ہمیشہ اعزاز لگے ہے ہمیں مگر اردو ادب کو ارزاں سمجھا جائے۔ یہ کیسے برداشت کریں ہم؟

ہمارے خیال میں اردو ادب اور ادیبوں کا موقف تو ایک ہی بات ہونی چاہیے لیکن تجربہ ہوا کچھ مختلف۔

انسانی حقیقتوں کا پردہ پرت در پرت چاک کرتے ہوئے ادب وہ کچھ دکھانے کی کوشش کرتا ہے جو کم نظر نہیں دیکھ پاتے۔ زندگی کا نرت بھاؤ، داؤ پیچ، انسان اور شیطان کے بیچ باریک لکیر کا سفر وہی سمجھ پاتے ہیں جو ادب کو انسانی سطح پر جاننے کی کوشش کریں۔

آفاقی ادب یہ سجھاتا ہے کہ مرد و عورت کے بیچ صنفی فرق کم عقلوں کا ذہنی فتور اور دماغی خلل ہے۔ لیکن اس وقت کیا کیجیے کہ ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا سمجھنے والے بونے ادیبوں کی رائے میں یہی بنیادی فرق بن جائے جس پہ مرد و عورت کو میزان پہ تولا جانے لگے علیحدہ علیحدہ۔ معاشرے کا اصرار ہے ایسی باتیں کتابوں میں رہنے دو، زندگی کا حصہ نہ بناؤ۔

مرد ادیب سر آنکھوں پہ مگر عورت ادیب اور اکیلی۔ نہ بابا نہ، یہ نہیں چلے گی۔ چل ہی نہیں سکتی۔ اس عورت کو ویلیڈیشن چاہیے، ورنہ اس کی بات ہم نہیں سنیں گے۔

ارے بھائی کیسی ویلیڈیشن؟

سنو، یہ دندناتی پھرتی عورت، عورت کے حقوق کا جھنڈا اٹھا کر ظالم کو اس کی اوقات یاد دلواتی عورت، کیوں اتر آئی ہے دنیا کے بازار میں؟ کیوں کرے ہے وہ ایسا؟

آہ ہا، بیچاری۔ شاید ذاتی زندگی میں دکھی ہے بہت۔ دھوکا دے گیا کوئی، اپنے زخم چاٹتے ہوئے مردوں پہ وار کرتی ہے۔ ذرا جھانکو تو اس کی ذاتی زندگی میں، گھر کے اندر کیا بیچتی ہے یہ عورت؟

سو چاہیے بیڈروم کے اندر کی ویلیڈیشن۔ اس عورت نے شوہر کے ساتھ نباہ کیا کہ نہیں؟ اسے سر کا تاج بنا کر رکھا کہ نہیں؟ شوہر کے بنا کٹی پتنگ بن گئی کیا؟ کیوں پڑھیں اس کا لکھا ہوا؟ کیوں سنیں اس کا کہا؟ مرد مار۔ شوہر مسکین کو بھگا چکی، اب جوتوں سمیت آنکھوں میں گھسنے کی کوشش میں ذاتی محرومیوں کی ماری ہوئی بے چاری عورت۔

زہر میں بجھے طنزیہ فقرے، عورت کو اس کی اوقات یاد کروانے کی کوشش یا محفل کو زعفران زار بنانے کا ایک گھٹیا حربہ۔

سن کر ہنسی آئی اور اس قدر آئی کہ کچھ بھی قابو میں نہ رہا۔ بے اختیار سوچا ارے یہ سب ادیب، دانشور حضرات جو اپنی بیگمات کے بغیر دن رات چہلیں کرتے نظر آتے ہیں، کون پوچھتا ہے ان سے کہ صاحب زوجہ محترمہ کو کہاں چھوڑ آئے؟ کون فقرہ کسے گا کہ کس کس نے بیوی کو بھگا دیا اور وہ اب بچوں کے ساتھ قیام کرتی ہیں؟ کس کس نے بیوی کو قبر میں اتار دیا؟

شرارت سوجھی تو بھگوڑے شوہر کی رونمائی کروا دی ہر خاص و عام کو۔ جس پہ ایک خاصے کا کمنٹ پڑھنے کو ملا، ایک ادیبہ اور دانشورہ کے قلم سے جس کا لب لباب تھا یہ فقرہ۔

”اس تصویر کی بہت شدید ضرورت تھی، ادبی دنیا میں آپ کی تحریروں کی ویلیڈٹی بڑھ گئی“
لکھا تو اور بھی بہت کچھ تھا مگر لفظ ویلیڈٹی پہ انتہا درجے کا زور۔

ایں۔ یعنی اگر شوہر نام دار کا سایہ ہمارے سر پہ ہمہ وقت موجود نہ ہو تو ہمارے کہے ہوئے تمام الفاظ بیکار، ہمارے خیالات کچرا، ہماری کتابیں بوگس اور ہم خود۔ ہم خود نفسیاتی عناد کے مارے ہوئے۔ ڈائجسٹی افسانہ نگار احمد اقبال ہمارے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں کچھ یوں۔

” زہر آپ کے اندر ہے اور کسی تلخ عمر گزشتہ کی احساس محرومی کا رد عمل۔ شاید ہر آباد گھر دیکھ کر آپ کے اندر کا اژدہا ایسے ہی پھنکارتا ہو گا“

یعنی خاتون قلمکار اگر ادب میں کچھ سوال اٹھائے جس کا جواب ادیبوں اور ان کے چاہنے والوں سے نہ بن پڑے تو جوتا اٹھائیے اور خاتون کے بیڈ روم میں جھانک کر قیافے ملاتے ہوئے اس کی ذات ریزہ ریزہ کر ڈالیے۔

یہ ہے اردو ادب میں خواتین کا مقام جس کے مطابق شوہر کے سائے سے محروم عورت ادبی دنیا میں ویلڈ ہی نہیں۔ ہاں اگر شوہر کی بغل میں دبک کر بیوی محفل میں موجود ہو۔ قطع نظر اس بات کے کہ گھر میں کچھ ہی دیر پہلے بیوی کی تواضع تھپڑوں، گھونسوں اور گالیوں سے ہوئی ہو اور طبعیت صاف کروانے کے کچھ ہی دیر بعد سب کے سامنے شوہر کی انگلی تھامے بیٹھی ہو تو واہ واہ کیا کہنے۔ ادبی مقام مسلم، دنیا کی نظر میں ادیبہ باوقار، باعث تعظیم، معزز اور اس کی کہی ہوئی ہر بات سر آنکھوں پہ۔

یہ ہے اردو ادب کی مسوجنی!

اور یہ ہے اردو ادب میں مرد حضرات کیEntitlements، اور یہ ہے کچھ کٹھ پتلی عورتوں کو مداری مردوں سے انعام لینے کی چاہ جس سے ایک باغی لکھاری کی حیثیت متعین کی جاتی ہے۔

یہ وہ راہ ہے جسے مہان ادیب اشفاق احمد نے اپنی بیگم بانو قدسیہ کے ذریعے معاشرے کو سمجھایا۔ دیکھیے قریبی دوست ممتاز مفتی کیا لکھتے ہیں؟

” بانو نے کئی بار اپنے وجود کا اظہار کرنا چاہا۔ جب بھی وہ ادبی بات کرتی تو اشفاق کا رویہ کچھ ایسا ہوتا کہ بی بی آلو چھیلو، خان زادوں کے پوتڑے دھوؤ، میرے سلیپر ڈھونڈ کر پاؤں تلے رکھو۔ ادب کی بات چھوڑو۔ بانو کو بات سمجھ میں آ گئی کہ اس جاگیردار کے سامنے دال نہیں گلے گی“

(مفتیانے، صفحہ نمبر 260 ) ۔

اور پھر وہ ان کے بتائے ہوئے روپ میں ایسا ڈھلیں کہ ہر پڑھی لکھی خود مختار عورت مرد کے سہارے کے بغیر انہیں آوارہ نظر آنے لگی۔

” یہ تمام عورتیں لڑکیاں کسی نہ کسی طرح مردوں کے نارمل نیوکلئیس سے کٹی ہوئی تھیں۔ ہو سکتا ہے ان میں بیشتر عورتوں کو مردوں کا قرب زیادہ ملتا ہو لیکن معاشرے کے رسمی طریقے کے مطابق وہ کیرئیر گرلز تھیں۔ ایسی مینڈکیاں جن کو ہلکا ہلکا زکام ہو چکا تھا۔ وہ علانیہ سگریٹ پیتی تھیں۔ کماؤ سپوت کی طرح گھروں میں پیسے بھیجتی تھیں۔ ان کے بھائی، چچا، ماموں نہ جانے کون تھے؟ کہاں تھے؟ اور اگر تھے تو کس حد تک ان کی زندگیوں پر اثر انداز ہو سکتے تھے؟

یہ سب تو چھپکلی کی کٹی ہوئی دم کی طرح پھڑک رہی تھیں۔ تڑپ رہی تھیں اور اپنے اصلی رسمی نیوکلئیس کی تلاش میں تھیں ”

(راجہ گدھ۔ صفحہ نمبر 134 )

کیسا محسوس کرتی ہوں گی بانو قدسیہ کی پروفیشنل ماں جنہوں نے شوہر کے سہارے یعنی بانو قدسیہ کے باپ کے بغیر تن تنہا انہیں گورنمنٹ کالج تک پہنچایا، محبت کی شادی کرنے میں کوئی روڑا نہیں اٹکایا، جبکہ اشفاق احمد مرد ہو کر گھر والوں کو راضی نہ کر سکے۔ ماں کی غیر مشروط سپورٹ رکھنے والی بانو قدسیہ اشفاق احمد کو اپنی وفاداری کا ثبوت دینے میں اس قدر دیوانی ہوئیں کہ اپنی ماں جیسی کیریر گرلز کو چھپکلی اور زکام شدہ مینڈکیاں کہہ بیٹھیں۔ ماں کے رشتے داروں کی غیر موجودگی پہ وار کر گئیں اور عورت کے سگریٹ پینے کو دبے لفظوں میں بد کر داری کا تمغہ دینے پہ تل گئیں۔ البتہ یہ بھول گئیں کہ سگریٹ پینے والے مردوں کو کیا کہا جائے گا؟

ناول نگار ناول کی صورت میں ایک دنیا تخلیق کرتا ہے جس میں اپنے کرداروں کے ذریعے اپنی آئیڈیالوجی کو دنیا تک پہنچاتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھ نہیں آئی کہ حرام حلال کا فلسفہ بیان کرتے کرتے ان کا نزلہ بار بار کیریر گرلز پر کیوں گرا؟

کیا یہ اشفاق احمد کی تخلیق کردہ ناآسودہ دنیا تھی جو انہیں کرب میں مبتلا رکھتی تھی؟

کچھ بھی ہوا ہو، بانو قدسیہ ایک مرد سے محبت کے نتیجے میں ایک ایسے مقام تک جا پہنچیں جہاں زہر میں بجھی ان کی تحریریں بے شمار عورتوں کا رستہ کھوٹا کر گئیں۔

یہی تو وہ راہ ہے جس پہ چلتی عورتوں کو دیکھ کر بانو قدسیائی سوچ کہہ اٹھتی ہے۔

ادبی دنیا میں شوہر کی بغل میں دبکی لپٹی لپٹائی عورت ویلڈ ہوئی۔ اس کی سوچ اور الفاظ معتبر ٹھہرے۔ شوہر کے بغیر تو چھپکلی اور زکام شدہ مینڈکی ہی رہے گی نا۔

اکیسویں صدی میں پاکستانی ادیب اگر دنیا میں اپنے خیال کے سہارے کوئی مقام حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے قلم کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ بانو قدسیائی فرسودہ سوچ کے ساتھ گھسٹ گھسٹ کر چلنا ہے یا ہمیشہ باقی رہنے والے ادبی دھارے میں شامل ہونا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author