نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دہشت گردی کی نئی لہر اور چند سوالات ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امن و امان کے حوالے سے غیرمحفوظ ہوتے خیبر پختونخوا کے بہت ساےر دوست اکثر یہ سوال پوچھتے ہیں کہ

’’جن پاکستانیوں کو امارات اسلامی افغانستان سے اسلام کی نشاط ثانیہ کی خوشبو آتی ہے وہ ایسی ہی خوشبوئوں سے پاکستان کو معطر کیوں نہیں ہونے دیتے؟‘‘

سوال نہ صرف درست ہے بلکہ جان کی امان رہے تو یہ سوال اصل میں ان تمام لوگوں کے منہ پر زور دار تھپڑ ہے جو اسلامی نشاط ثانیہ کے حوالے سے دوغلے پن کا شکار ہیں۔

اصولی طور پر تو افغان عوام جس طرح اسلامی نظام کے فیض و کرم کے موتیوں سے اپنے دامن بھر رہے ہیں ان کے ہم خیال پاکستانیوں کو چاہیے کہ اور کچھ نہیں تو پاک افغان بارڈر سے ہی موتیوں کی بوریاں بھر لائیں۔ خود بھی مستفید ہوں اور اردگرد کے لوگوں میں بھی تقسیم کریں۔

اس دوغلے پن کا معاملہ فقط ایک خاص فہم رکھنے والے لوگوں تک ہی محدود نہیں ریاست بھی ایسا ہی سوچتی رہی ہے۔

استاد مشتاق احمد کہتے ہیں ’’شاہ جی میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھوتھو‘‘۔ بات یہ کچھ غلط بھی نہیں۔

مثلاً پچھلے چند ماہ سے محفوظ اثاثوں نے خیبر پختونخوا میں پھر سے اپنی سرگرمیاں شروع کررکھی ہیں۔ ایک طرف اثاثوں کی سرگرمیوں کو رپورٹ کرنے والے صحافیوں کو حکام اور اثاثوں کے ترجمان دونوں دھمکاتے ہیں دوسری جانب روزانہ کی بنیاد پر ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ ‘‘دہشت گردوں کی موجودگی کی ٹھوس اطلاعات پر کی گئی کارروائی کے دوران متعدد دہشت گردوں کو مارگرایا گیا‘‘۔

گزشتہ روز ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل درابن کے گائوں ’’گرہ مستان‘‘ میں پولیس اور سکیورٹی فورسز کی مشترکہ کارروائی میں تین دہشت گرد مارے گئے۔ اسی دن پولیو مہم میں شریک رضاکاروں کے قافلے پر فائرنگ کی گئی اور ڈی پی او کے سکیورٹی سکواڈ پر بھی۔

کڑوا سچ یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں سب اچھا نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ جنگجوئوں کا دوبارہ متحرک ہونا پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت اور جنگجوئوں کے درمیان کسی معاہدہ کا حصہ ہے یا حالیہ سرگرمیوں میں ایک سابق بڑے صاحب کا بھی کچھ کردار ہے یہ سوفیصد درست نہ ہو لیکن گزشتہ چند ماہ کے واقعات صوبائی حکومت کا غیرذمہ دارانہ رویہ اور اس کے بعض ترجمانوں کی جانب سے مٹہ میں جنگجوئوں کی موجودگی (یہ کچھ عرصہ قبل کی بات ہے) پر یہ کہنا کہ جنگجو آ نہیں گئے بلکہ ایک کمانڈر اپنی بیمار ہمشیرہ کی عیادت کے لئے آیا تھا، والا موقف حیران کن ہے۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کالعدم ٹی ٹی پی، افغان طالبان کی فطری اور فکری حلیف ہے۔ افغانستان میں طالبان کے باردیگر اقتدار میں آنے کے بعد مولوی فقیر محمد اور مولوی نور ولی محسود سمیت لگ بھگ پانچ سوا پانچ ہزار پاکستانی جنگجو جیلوں سے رہا کئے گئے۔ ٹی ٹی پی کے یہ ارکان حامد کرزئی اور اشرف غنی کے ادوار میں سرحد پار کرکے افغان طالبان کے جہاد میں شرکت کیلئے افغانستان گئے تھے اور مختلف اوقات میں گرفتار ہوئے۔

کالعدم ٹی ٹی پی کے ایک سابق سربراہ ملا فضل اللہ سمیت متعدد اہم کمانڈر افغان سرزمین پر مارے گئے۔ مارے جانے والے ان جنگجوئوں کے حوالے سے اس وقت امریکیوں کا دعویٰ تھا کہ امریکہ اور افغان فورسز کی مشترکہ کارروائی میں یہ لوگ مارے گئے جبکہ کالعدم ٹی ٹی پی نے تواتر کے ساتھ ان ہلاکتوں کو دراندازی کا نتیجہ قرار دیا۔

سادہ لفظوں میں یہ کہ مارے جانے والوں کے خلاف اصل میں کارروائی پاکستان سے بھیجے گئے لوگوں نے کی ظاہراً ذمہ داری امریکہ اور افغان فورسز نے قبول کی۔

گزشتہ برس اکتوبر میں جب کابل مذاکرات (کالعدم ٹی ٹی پی سے) کا ڈول ڈالا گیا تھا تو ابتدا میں فقط تین چار شخصیات اس حوالے سے ایک پیج پر تھیں۔ وزیراعظم عمران خان، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، جنرل فیض حمید (پہلے آئی ایس آئی کے سربراہ اور بعدازاں پشاور کے کورکمانڈر بنائے گئے) اور صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان۔

نومبر 2021ء میں پہلی بار یہ انکشاف ہوا کہ پاکستان کابل میں کالعدم ٹی ٹی پی سے افغان حکومت کے توسط سے مذاکرات کررہا ہے ابتداء میں ایسے مذاکرات کی تردید کی ہلکی پھلکی ڈھولک بجوائی گئی پھر ایک روز وزیراعظم عمران خان نے نہ صرف مذاکرات کا اعتراف کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ ہماری حکومت کالعدم ٹی ٹی پی کو قومی دھارے میں لانا چاہتی ہے۔

سوال اٹھاکہ کیا وہ ٹی ٹی پی بھی قومی دھارے میں شمولیت کی خواہش مند ہے؟ ضمنی سوال یہ تھا کہ ٹی ٹی پی ایک باقاعدہ تنظیم نہیں بلکہ جنگجوئوں کے چھوٹے چھوٹے گروپوں کا الائنس ہے۔ اس لئے حکومت وضاحت کرے کہ مذاکرات کس دھڑے سے ہورہے ہیں۔

افسوس کہ ان سوالات کا جواب دینے کی بجائے سوال کرنے والوں سے رابطہ کرنے والوں نے سخت زبان برتی۔

اسی عرصہ میں ہم نے بھی ان سطور میں عرض کیا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کی سرگرمیاں افغان حکومت کے تعاون سے جاری ہیں۔

پاک افغان سرحد پر مختلف مقامات پر خاردار تاریں اتارنے کے عمل کی نگرانی خود ملحقہ افغان علاقوں کے سرکاری عمائدین کررہے ہیں۔ ابھی ہفتہ بھر قبل کرم ایجنسی میں پاک افغان سرحد پر باڑ اتارنے کے عمل میں جو مشینری استعمال کی گئی وہ افغان حکومت کی ملکیتی تھی۔

ثانیاً یہ کہ افغان طالبان خود کو نظریاتی طور پر کالعدم ٹی ٹی پی کا ہم خیال سمجھتے ہیں۔ ٹی ٹی پی 1973ء کے دستور اور جمہوریت کو کفر قرار دیتی ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات ہرگز نہیں۔

افغان حکومت کے متعدد ذمہ داران پچھلے چند ماہ کے دوران یہ کہہ چکے ہیں کہ ’’جس نظام اسلام کے نفاذ کے لئے ہم امریکہ کے خلاف 20سال جہاد کرتے رہے اس کے حامیوں اور خصوصاً اس جہاد میں شریک قوتوں کے خلاف کارروائی کیسے کی جاسکتی ہے‘‘۔

اس موقف کا سادہ ترجمہ تو یہی ہے کہ دوحہ معاہدہ میں افغان سرزمین کو عالمی امن اور پڑوسیوں کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی شرط اب موجودہ افغان حکومت کے لئے اہمیت نہیں رکھتی، کیوں؟ اس کا جواب بہت آسان ہے۔

وہ یہ کہ افغان طالبان کے کئی رہنما کہہ چکے ہیں کہ اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے جدوجہد کرنے والی اتحادی تنظیموں کی مدد ہمارا شرعی فرض ہے۔ تو کیا کالعدم ٹی ٹی پی خیبر سے اٹک تک جس امارات اسلامی کے قیام کا عزم رکھتی ہے افغان حکومت اس میں ان کی پشت بان ہے؟

فقط یہ تحریر نویس ہی نہیں بلکہ افغان امور کے پاکستانی تجزیہ نگاروں کی اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ صورتحال ویسی نہیں جیسی بتائی جارہی ہے۔

افغان حکومت مکمل طور پر کالعدم ٹی ٹی پی کی ہمنوا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت ٹی ٹی پی کے افغان سرزمین پر موجود محفوظ مراکز اور دراندازی میں افغان طالبان کی اعانت ہے۔

حال ہی میں کالعدم ٹی ٹی پی نے اے این پی کے متعدد رہنمائوں کو دھمکی آمیز خط لکھے ہیں۔ اے این پی کے سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین پہلے ہی ٹی ٹی پی کی ناپسندیدہ ترین شخصیت قرار دیئے جاچکے۔

خیبر پختونخوا حکومت کا طرزعمل غیرذمہ دارانہ ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی نے اپنی کارروائیوں کا دائرہ ملک بھر میں پھیلانے کا اعلان کیا ہے۔

بھتہ خوری کی شکایات میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ ان حالات میں ہم کہاں کھڑے ہیں کیا محض احتجاجی مراسلوں اور بیاناتا یا پھر اِکادُکا کارروائیوں سے اصلاح احوال ممکن ہے؟

ہماری رائے میں دو اہم کام کرنا ہوں گے اولاً بارڈر مینجمنٹ کو مزید بہتر بنانے کے ساتھ جن علاقوں سے خاردار تاریں اتاری گئی ہیں وہاں باڑ دوبارہ لگائی جائے۔ جنگجوئوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جائے۔

یہ سطور لکھ رہا تھا کہ خبر موصول ہوئی کہ افغان وزیر خارجہ نے پاکستانی وزیر خارجہ کی اس پیشکش کو مسترد کردیا ہے کہ دونوں ملک مل کر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کریں۔ مشترکہ کارروائی سے انکار کی صاف سیدھی وجہ یہ ہے کہ افغان حکومت کالعدم ٹی ٹی پی کی معاون و ہم خیال ہی نہیں بلکہ وہ گزشتہ سال بھر سے بضد ہے کہ ٹی ٹی پی کے 6 مطالبات ان میں ایک مطالبہ پورا بھی ہوا قیدیوں کی رہائی کا، دوسرے مطالبے ہلاک شدہ جنگجوئوں کے خاندانوں کے لئے معاوضے والے معاملے پر مختلف آراء ہیں۔

اہم ترین مطالبہ سابق قبائلی علاقوں کا انضمام منسوخ کرکے ان علاقوں میں ٹی ٹی پی کی عملداری کو قبول کرنا اور سکیورٹی فورسز کو واپس بلانے کے ساتھ پاک افغان سرحد پر آزادانہ آمدورفت کو قبول کرنا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان مطالبات کو تسلیم کرنے کی سوچ رکھتے ہیں یا اپنی سرزمین پر قانون کی حاکمیت کے لئے پرعزم ہیں؟ اس سوال کے جواب سے ہی صورتحال کو مزید بہتر انداز میں سمجھنے میں مدد ملے گی۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author