دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دو صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا پروگرام ملتوی ؟ ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فیصل واوڈا نااہلی کیس کے مختصر فیصلے پر ’’دھمال‘‘ ہی ڈالی جاسکتی ہے کسی غیراعلانیہ ملاقات اور ’’ضرورتوں‘‘ کا ذکر کسی بھی طور درست نہیں ہوگا بالکل اسی طرح جیسے پنجاب کے جوڈیشل وزیراعلیٰ چودھری پرویزالٰہی کی اسلام آباد میں ہوئی حالیہ دو ملاقاتوں کا ذکر غیرضروری ہے۔

ویسے بھی دو ملاقاتوں میں سے پہلی کے میزبان نے پونے دو گھنٹے کی ملاقات کے بعد چودھری صاحب کو اپنی گاڑی میں بٹھایا اور دوسری ملاقات کے لئے لے گئے۔

ان دونوں ملاقاتوں کے حوالے سے اسلام آباد کے ’’خبری‘‘ تحقیقاتی اور مارلن منرو برانڈ صحافی بھی چپ ہیں اور فاطمہ ٹاور والے و والیاں بھی ، پھر ہم فقیر راحموں کی اطلاعات اور تقریر کو حرف آخر کیوں سمجھ لیں۔

فقیر راحموں ان تحقیقاتی صحافیوں سے بڑا اور رابطے باز تو ہرگز نہیں ہم بھی اسے چونسٹھ برسوں سے جانتے ہیں۔

دیکھئے ملاقاتیں ضرور ہوتی ہیں خاص کر پاکستان ایسے ملکوں میں جہاں ہر شخص ’’اِک ملاقات ضروری ہے‘‘ الاپنے میں راحت محسوس کرتا ہے۔

چودھری پرویزالٰہی تو ویسے بھی ڈیرے دار سیاستدان ہیں۔ ملاقاتی کو انکار کرتے ہیں نہ ملاقات کی دعوت کو انکار یہی ان کی کامیابی کا راز ہے۔

اب جو باتیں انہوں نے گزشتہ سے پیوستہ شب ایک ٹی وی انٹرویو میں کہی ہیں ان باتوں کا حالیہ دو ملاقاتوں سے کتنا تعلق ہے، تعلق واجبی ہے یا گہرا یہ تو چودھری صاحب ہی بتاسکتے ہیں۔ فقیر راحموں دعویٰ کررہاہے کہ ان ساری باتوں کا تعلق ملاقاتوں سے بہت گہرا ہے۔

ہم نے پھر اسلام آبادی کے خبری تحقیقاتی اور مارلن منرو برانڈ صحافیوں کے سوشل میڈیا اکائونٹس کی خاک چھانی وہاں خاموشی تھی۔

اس لئے دو ٹوک لفظوں میں پیر سید فقیر راحموں بخاری ڈن ہل والی سرکار سے کہہ دیا آپ کی خبروں پر کیسے یقین کرلیں۔ پیر سائیں ناراض ہوئے صوفے پر منہ پھلائے دراز ہوگئے۔

کچھ دیر بعد بولے شاہ تجھے کبھی غلط مخبری کی؟ ہم نے چونسٹھ برسوں کےتعلق سے بھرے ماہ و سال کی راکھ کریدی یادیں تازہ کیں ’’پھلم‘‘ بھی چلاکر دیکھی، بات اس کی درست نکلی کہ حضرت نے کبھی غلط بیانی نہیں کی خبر اور مخبری دونوں درست ثابت ہوئے۔

اب سوال یہ ہے کہ جب صاحب لوگوں کا بات سے تعلق واسطہ ہی نہیں رہا تو پھر چودھری کے انٹرویو اور ملاقاتوں کا آپس میں کیا تعلق ؟

ویسے ہمارے ایک اسلام آبادی صحافی دوست عون شیرازی نے تین دن قبل برملا لکھا تھا کہ چودھری پرویزالٰہی نے عمران خان سے کہا ہے کہ

’’میں آپ کے حکم پر ایک منٹ میں اسمبلی توڑدوں گا لیکن اس کے بعد میں آپ اور پی ٹی آئی کے دوسرے بعض رہنمائوں کو گرفتاری سے نہیں بچاسکوں گا‘‘۔

انصافی مجاہدین نے عون شیرازی کے بڑے لتے لئے کچھ حاسدوں نے بھی اپنی بھڑاس نکالی۔ اس پھڈے کے دوران ہم نے فقیر راحموں سے پوچھا تو جواب ملا بات درست ہے البتہ صرف چودھری نے ہی نہیں بلکہ محمود خان (وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا) نے بھی عمران خان سے یہی کہا ہے کہ بالفرض اگر اسمبلیاں توڑ دی جاتی ہیں دونوں صوبوں میں اپوزیشن سے نگران حکومتوں پر اتفاق رائے نہیں ہوتا تو قانونی طور پر الیکشن کمیشن نگران حکومتیں نامزد کرے گا۔

آپ درجنوں بار الیکشن کمیشن پر سیاسی حملوں کے ساتھ ذاتی حملے بھی کرچکے۔ نگران دور میں اگر وفاق دونوں صوبائی حکومتوں کو آپ کی گرفتاری کی ہدایت کرے تو وہ کیسے انکار کریں گی۔

فقیر راحموں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ عنقریب عمران خان، اسد قیصر، قاسم سوری، مراد سعید، اسد عمر، فواد چودھری اور بابر اعوان کے خلاف دستوری قواعدوضوابط کی خلاف ورزی کے ساتھ دو تین اور مقدمات بھی درج کرانے کی تیاریاں جاری ہیں۔

اعظم تارڑ جب وزیر قانون تھے تو ان کی نگرانی میں یہ کام ہورہا تھا ان کے مستعفی ہونے کی وجہ سے سلسلہ رک گیا اب انہوں نے استعفیٰ مسترد ہونے پر دوبارہ چارج لے لیا ہے اس لئے سابقہ ادھورے کام کو مکمل کیا جائے گا۔

ادھر دونوں صوبائی اسمبلیاں ٹوٹیں ادھر مقدمات درج اور لیڈران جیل میں۔ اس طرح کی باتیں چونکہ ہم تک بھی اڑتی اڑتی پہنچی تھیں اس لئے عین ممکن ہے کہ محمود خان اور پرویزالٰہی نے خان صاحب کو سمجھایا ہو کہ ابھی آپ کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں ’’ٹانگ کے زخم‘‘ بھی نہیں بھرے ایسے میں اگر دشمنوں نے جیل ویل مبں ڈال دیا تو مشکل پیش آسکتی ہے۔

خان صاحب چونکہ گھر کے سیانے ہیں اس لئے سمجھ گئے کہ نہ صرف بھاری بھرکم پروٹوکول ختم ہوجائے گا بلکہ مسائل بھی پیدا ہوں گے اس لئے انہوں نے انتخابات کے لئے مذاکرات کا پتہ کھیلا۔

اب چودھری پرویزالٰہی نے آگے بڑھ کر ان کے لئے محفوظ راستہ نکالا تاکہ یوٹرن کا الزام نہ لگے خان صاحب پر۔ چودھری صاحب کہتے ہیں کہ پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ارکان اسمبلی نے کہا

’’خان صاحب ہمارا الیکشن تو آپ نے لڑنا ہے ابھی گولیوں کے زخموں کی وجہ سے آپ چار مہینے تک کھڑے بھی نہیں ہوسکتے اس لئے فی الحال اسمبلی توڑ پروگرام ملتوی کردیں‘‘۔

ٹی وی انٹرویو میں چودھری صاحب نے اور باتیں بھی کی ہیں۔ عمران خان سے اپنی ملاقات میں انہوں نے سوشل میڈیا پر انصافی مجاہدین کی طرف سے مونس الٰہی کو دی گئی گالیوں کے ثبوت بھی خان کے سامنے رکھے۔

خیر یہ شکوے والی بات تو نہیں تھی۔ مونس الٰہی نے بھی رجیم چینج کے بیانیے پر خودکش حملہ ہی کردیا کچھ سوچے سمجھے بغیر۔ خود چودھری پرویزالٰہی نے بھی گزشتہ روز کے اپنے انٹرویو میں صاحبزادے کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے، رشک قمر کے حوالے سے مزید تفصیلات بیان کیں جس سے ایک بات تو واضح ہوئی کہ یہ سیاست سے کنارہ کشی والی بات سفید جھوٹ تھا۔ ویسا ہی جیسا یہ کہ ’’ہم نے 2018ء کے الیکشن میں کوئی مداخلت نہیں کی تھی‘‘۔

فقیر راحموں کہتا ہے شاہ جی اسٹیبلشمنٹ اس ملک کی نہیں بلکہ یہ ملک اسٹیبلمنٹ کا ہے۔ اس لئے خیالی پلائو وغیرہ پکانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ خیر ہمیں کیا ہم کون سا پہلے اس ملک کو جمہوری ملک سمجھتے ہیں اللہ کے فضل و کرم اور اساتذہ کی تربیت کی بدولت ہمیشہ سکیورٹی اسٹیٹ ہی سمجھا۔

مستقبل میں بھی دونوں یعنی ’’ان کے اور ہمارے‘‘ سدھرنے کے امکانات دور تک دیکھائی نہیں دے رہے۔

اب یہ نہ کہہ دیجئے گا کہ آجکل دھند ہے زیادہ دور تک نہیں دیکھا جاسکتا۔ موٹروے پر ایک حالیہ پھڈے میں اگر سیالکوٹ کی انسداد دہشت گرد کی عدالت کے معزز جج صاحب دھند میں چار کلومیٹر تک صاف دیکھ لیتے ہیں تو بوڑھاپے کے باوجود دو اڑھائی کلومیٹر تک تو ہم بھی دیکھ ہی لیں گے ویسے بھی ہماری دور کی نظر نزدیک کی نظر سے بہتر ہے۔

خیر اللہ کے فضل و کرم سے دو صوبائی اسمبلیاں تو اب مارچ تک ٹوٹ نہیں رہیں۔ مارچ کے بعد اپریل میں رمضان المبارک کی آمد آمد ہے پھر عید ہے۔

خان صاحب کے پرجوش حامیوں میں ہمارے ’’انقلابی‘‘ عزیزواقارب اور برادری والے بھی شامل ہیں امید ہے کہ وہ علی زیدی اور زلفی بخاری کے توسط سے خان صاحب کو آگاہ کریں گے کہ ’’ہم دو عیدوں کے درمیان خوشی نہیں کرتے‘‘۔

پھر بڑی عید کے بیس دن بعد محرم الحرام شروع ہوجائے گا۔ یہاں ایک بار پھر چودھری پرویزالٰہی کی اس بات پر غور کیجئے ’’انتخابات اکتوبر میں ہوں یا اس کے بعد فائدہ تو تحریک انصاف کو ہی ہونا ہے‘‘۔

امید ہے کہ آپ اس ارشاد کی من پسند تشریح کرنے کی بجائے وہی بات سمجھنے کی کوشش کریں گے جو چودھری صاحب کہنا اور سمجھانا چاہ رہے ہیں۔

سچ پوچھیں تو ہم آج کا کالم خیبر پتخونخوا اور پاک افغان سرحد پر بڑھتی ہوئی جنگجوانا شدت پسندی پر لکھنا چاہتے تھے۔ افغان امور پر برسوں سے گہری نظر رکھنے والے برادر عزیز عقیل یوسفزئی نے کچھ تازہ بہ تازہ معلومات فراہم کی تھیں۔

چلیں اس پر کل بات کرلیں گے۔ کل یا پرسوں تک جنگجوئوں نے کون سا سدھر جانا ہے۔

یہاں جنگجوئوں سے مراد صرف کالعدم ٹی ٹی پی ہی نہیں داعش خراسان بھی ہے جس نے ’’دولت اسلامیہ خراسان‘‘ کا نقشہ جاری کرنے کے ساتھ اپنے عزائم و اہداف کے حوالے سے ایک ویڈیو بھی جاری کی ہے۔

ہم بار دیگر دو اسمبلیاں ٹوٹنے یا نہ ٹوٹنے پر ہی بات کرتے ہیں۔ چودھری صاحب نے بتایا ہے کہ عمران خان کو کہہ رہے ہیں کہ وفاقی حکومت کے ساتھ یبٹھیں، اب تو بیٹھانے والے بھی آگئے ہیں۔

یہ بھی کہا کہ جنرل فیض حمید نے میری کچھ باتیں مان لی ہوتیں تو حالات کچھ اور ہوتے۔ فوری طور پر اسمبلی توڑنے کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔

فقیر راحموں البتہ چودھری کی اس بات پر بہت ناراض ہے کہ اس نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہا ہے کہ ’’عثمان بزدار نے چار سال ضائع کئے‘‘۔ خیر یہ ق لیگ اور پی ٹی آئی کی گھرلیو باتیں ہیں۔

فقیر راحموں کو بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ چودھری جی نے یہ بھی کہا کہ میں نے عمران خان سے کہا تھا کہ آئین پڑھیں اس میں لکھا ہے کہ ججز اور آرمی افسروں پر ایف آئی آر درج نہیں ہوسکتی۔

یہ کہ کپتان کی سابقہ ناتجربہ کار ٹیم نے پنجاب کا بیڑا غرق کردیا۔

ادھر عمران خان کی طبیعت اچانک ناساز ہوئی انہوں نے سیاسی مصروفیات عارضی طور پر ترک کرتے ہوئے شوکت خانم ہسپتال سے کچھ ٹیسٹ وغیرہ کروائے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author