حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر مجاہد مرزا سئیں کا شکوہ درست ہے کہ ’’سرائیکی وسیب کی نئی نسل سئیں جسٹس (ر) شفیع محمدی کی شخصیت اور جدوجہد سے واقف ہی نہیں اس لئے کوئی نہیں جانتا کہ جس شخص (جسٹس شفیع محمدی) کا سانحہ ارتحال ہوا ہے وہ سرائیکی قومی جدوجہد کے بانیان میں سے ایک تھا‘‘۔
جسٹس شفیع محمدی کے سانحہ ارتحال کی خبر ہمارے دوست نذیر لغاری نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی۔ پھر ڈاکٹر صاحب کا شکوہ پڑھا۔ اس شکوے میں جو درد پنہاں ہے اسے وہی لوگ محسوس کرسکتے ہیں جو جسٹس شفیع محمدی مرحوم سے واقف ہیں یا کم از کم کراچی کی سرائیکی عوامی سنگت کے پلیٹ فارم سے جو نصف صدی سے کچھ اوپر کا سفر طے کرکے بھی وسیب زادوں کی توانا آواز بنا ہوا ہے۔
یہ سطور لکھتے ہوئے سعید خاور کی تعزیتی پوسٹ اور ڈاکٹر عباس برمانی کی جسٹس شفیع محمدی مرحوم کے حوالے سے مختصر تحریر پڑھنے کو ملی۔ بات وہی ڈاکٹر مجاہد مرزا والی ہی درست ہے کہ ’’ سرائیکی وسیب کی آج کی نسل کو کیا معلوم جسٹس (ر) شفیع محمدی کون تھے‘‘۔
جسٹس (ر) شفیع محمدی کے سانحہ ارتحال کو اگر سرائیکی وسیب کا ناقابل تلافی نقصان قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ جسٹس شفیع محمدی کا ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل علی پور سے آبائی تعلق تھا گزشتہ چند دنوں سے علالت کے باعث ملتان کے نشتر ہسپتال میں زیرعلاج تھے۔ نشتر میں ہی خالق حقیقی سے ملاقات کے لئے روانہ ہوگئے۔
انہوں نے ابتدائی تعلیم علی پور سے ہی حاصل کی اور ہزاروں دوسرے سرائیکیوں کی طرح خوابوں کی پوٹلی اٹھائے روشنیوں کے شہر کراچی روانہ ہوگئے۔ کراچی نے ہمیشہ خوابوں کی تعبیر پانے کے لئے پرعزم جدوجہد کا جذبہ رکھنے والوں کا کھلی بانہوں سے استقبال کیا۔ اپنے دروازے کسی پر بند نہیں کئے۔
نوجوان شفیع محمدی 1960ء کی دہائی میں کراچی پہنچے۔ محنت و مشقت کے ساتھ حصول تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ سندھ مسلم لاء کالج سے قانون کی تعلیم حاصل کی اور وکالت کی دنیا میں صلاحیت آزمانے کے لئے پرعزم ہوئے۔
1960ء کی دہائی کے دوسرے نوجوانوں کی طرح شفیع محمدی بھی ذوالفقار علی بھٹو سے متاثر ہوئے نہ صرف متاثر ہوئے بلکہ بھٹو اور پیپلزپارٹی کے ہی ہوکر رہ گئے۔
علی پور سے کراچی پہنچ کر تعلیم مکمل کرنے، وکالت میں نام کمانے اور پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے معروف ہونے کے باوجود انہوں نے جنم بھومی، مادری زبان اور سرائیکی قومی شناخت کو ہمیشہ مقدم سمجھا۔
1970ء کی دہائی کے اوائل میں انہوں نے مشتاق فریدی، نذیر لغاری اور کراچی میں مقیم دوسرے سرائیکی نوجوانوں کے ساتھ مل کر سرائیکی عوامی سنگت کی بنیاد رکھی۔ یہ کراچی میں محنت مزدوری کرنے، تعلیم حاصل کرنے اور مختلف دفاتر میں خدمات سرانجام دینے والے سرائیکیوں کی پہلی ثقافتی و ادبی تنظیم تھی۔
تنظیم کیا تھی یہ کراچی میں مقیم سرائیکیوں کا خاندان تھا ایسا خاندان جس پر کراچی میں بسنے والے سرائیکیوں نے ہمیشہ فخر کیا۔ ادبی ثقافتی قومیتی حوالوں سے تقریبات کے انعقاد کے ساتھ سرائیکی عوامی سنگت بہت جلد ایک ایسا پلیٹ فارم بن گیا جہاں کراچی میں مقیم سرائیکی روزگار اور نجی معاملات تک پر کسی تحفظ کے بغیر گفتگو کر لیا کرتے تھے۔
کسی کا کوئی بھی مسئلہ ہو، شفیع محمدی، مشتاق فریدی، نذیر لغاری، انجم لشاری مرحوم اور دوسرے سنگتی اس مسئلہ کو سلجھانے کے لئے پیش پیش رہتے۔
محترمہ بینظیر بھٹو 1986ء میں جلاوطنی ختم کرکے واپسی لوٹیں تو انہوں نے قانون دان شفیع محمدی کو پیپلزپارٹی سندھ کا جنرل سیکرٹری مقرر کیا۔
سندھ پیپلزپارٹی کے جنرل سیکرٹری کے طور پر ان کی نامزدگی اس لئے اہمیت کی حامل تھی کہ محترمہ بینظیر بھٹو کو پارٹی اجلاس میں سندھ کے عہدیداران کی جو لسٹ دی گئی اس میں مصطفی جتوئی صدر تھے اور ایک دوسرے ’’بڑے صاحب‘‘ (اس وقت نام ذہن میں نہیں آرہا) جنرل سیکرٹری ۔
لیکن محترمہ نے اپنے قلم سے اس فہرست میں جنرل سیکرٹری کے طور پر شفیع محمدی ایڈووکیٹ کا نام لکھا اور اجلاس سے منظوری لی۔ یوں ایک سفید پوش سیاسی کارکن سندھ پیپلزپارٹی کا جنرل سیکرٹری منتخب ہوگیا۔
جنرل ضیاء الحق کے عہد ستم میں شفیع محمدی ایڈووکیٹ کی بطور قانون دان شہرت سندھ کے شہروں اور گوٹھوں تک پَر لگاکر پہنچی۔ اس شہرت کی وجہ سیاسی قیدیوں کے لئے بلامعاوضہ قانونی مشاورت کے ساتھ ساتھ سندھ بھر کی جیلوں میں بند سفید پوش سیاسی کارکنوں کے لئے قائم پیپلز ورکرز ریلیف کمیٹی کا قیام عمل میں لانا تھا ۔
یہ کمیٹی سیاسی قیدیوں کی دیکھ بھال اور ضروریات کے ساتھ سینکڑوں سفید پوش سیاسی کارکنوں کے خاندانوں کی خاموشی سے مدد بھی کرتی رہی۔ سندھ پیپلزپارٹی کا جنرل سیکرٹری بنائے جانے کی بنیادی وجہ بھی یہی تھی۔
حالانکہ مرحوم غلام مصطفی جتوئی ترجیح ایک اور جاگیردار تھے۔
1988ء میں پیپلزپارٹی برسراقتدار آئی تو انہیں سندھ ہائیکورٹ کا جج بنایا گیا۔ سندھ ہائیکورٹ سمیت دوسرے صوبوں کی ہائیکورٹس میں اس دور میں پیپلزپارٹی نے جو ججز بنائے اس پر بڑے کاروباری وکلاء کے چیمبرز ان کے خلاف ہوگئے کیونکہ پیپلز پارٹی کے اس اقدام سے ان کا کاروبار متاثر ہوا تھا ۔
لمبی عدالتی جنگ کے بعد پیپلزپارٹی کے بنائے ججز عدالتوں سے رخصت کردیئے گئے بعدازاں شفیع محمدی وفاقی شرعی عدالت کے جج بنادیئے گئے۔
جسٹس (ر) شفیع محمدی نے ’’عدلیہ کے فرعون‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی تحریر کی اس کتاب پر اشاعت کے چند دن بعد ہی پابندی لگادی گئی۔ اپنی کتاب میں انہوں نے پاکستانی نظام عدل اور ان کاروباری وکلاء چیمبرز کا خوب پوسٹ مارٹم کیا جو ہائیکورٹوں کے جج بنوانے کے حوالے سے چاروں صوبوں میں شہرت رکھتے ہیں۔
’’عدلیہ کے فرعون‘‘ نامی کتاب پر پابندی لگوانے میں بھی یہی لوگ پیش پیش تھے۔ جسٹس شفیع محمدی محترمہ بینظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے برسوں میں ان کے معاون خصوصی بھی رہے۔
سادہ اطوار زمین زادے کا مطالعہ بہت وسیع تھا اور حلقہ احباب بھی۔ سندھ کے سیاسی کارکنوں کی قانونی مدد کرتے ہوئے انہوں نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ مدد کے لئے آنے والے سیاسی کارکن کا تعلق کس جماعت سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سندھ کے مختلف الخیال سیاسی کارکنوں میں ہمیشہ احترام کے حقدار ہوئے۔
کراچی میں سرائیکی وسیب کے لوگوں کو ادبی و ثقافتی اور اگلے مرحلہ پر قومیتی شناخت کے حوالے سے منظم کرنے میں ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
جسٹس (ر) شفیع محمدی سرائیکی وسیب کے ان جفاکش زمین زادوں میں سے تھے جنہوں نے اپنی دنیا آپ بنائی اور بسائی۔ انہوں نے کراچی میں مقیم سرائیکیوں کی اپنی بساط سے بڑھ کر ہمیشہ مدد کی۔
وہ اپنی ذات میں ایک تحریک تھے۔ پرجوش پرعزم اور عصری شعور کی دولت سے مالامال۔ 1970ء میں اپنے قیام کراچی کے برسوں میں ہماری بھی ان سے یاد اللہ رہی۔ متعدد بار نذیر لغاری اور دوسرے دوستوں کے ہمراہ ان سے ملاقات ہوئی۔ فخری صاحب کے گھر پر بھی ایک دو بار ان سے محفل جمی۔
اپنی سیاسی ذمہ داریوں، وکالت اور سرائیکی وسیب زادوں کی رہنمائی کے معاملات میں انہوں نے ہمیشہ توازن رکھا۔ ان سے ملنے والے ہر شخص کا دعویٰ یہی رہا کہ شفیع محمدی صاحب نے بطور خاص مجھ پر توجہ دی۔ دوست نواز اور مہمان دار بھی تھے۔ اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود انہوں نے جنم بھومی سرائیکی وسیب کی قومی شناخت کی بحالی کی جدوجہد میں پوری توانائی کے ساتھ ہمیشہ شرکت کی۔
ان کے سانحہ ارتحال سے سرائیکی وسیب اپنے لائق افتخار فرزند سے محروم ہوگیا۔ سرائیکی قومی جدوجہد کا ایک باب بند ہوگیا۔ زمین سے جڑے ایک سیاسی کارکن نے دنیا سرائے سے پڑائو اٹھالیا اس سیاسی کارکن نے جس کے نام کا 1980ء کی دہائی کے سندھ میں طوطی بولتا تھا۔
مشتاق فریدی، نذیر لغاری اور سعید خاور کو چاہیے کہ وہ شفیع محمدی کی سیاسی عوامی اور سماجی خدمات اور سرائیکی قومی تحریک میں ان کے فعال کردار پر مشترکہ طور پر ایک کتاب ضرور لکھیں تاکہ سرائیکی وسیب کی نئی نسل اور آئندہ نسلوں کو علم ہوا کہ جبروستم اور حبس سے بھرے ماحول میں سرمدی نغمہ کیسے الاپا جاتا ہے۔
جسٹس (ر) شفیع محمدی شاہ لطیف بھٹائیؒ اور خواجہ غلام فریدؒ کے عاشق صادق تھے۔ دونوں بزرگ شعراء کے سینکڑوں اشعار انہیں ازبر تھے۔ ان کا سانحہ ارتحال بلاشبہ سرائیکی وسیب کا اجتماعی نقصان ہے۔ وسیب اپنے اس فرزند سے محروم ہو گیا جو اپنی جنم بھومی سرائیکی وسیب کا سچا اور اُجلا عاشق تھا۔ سرائیکی وسیب کی دھرتی سے اٹھے اس زمین زادے نے عملی زندگی کی جدوجہد میں بے پناہ مشکلات دیکھیں لیکن حوصلہ ہارنے کی بجائے مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
جس جواں مردی کے ساتھ انہوں نے تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے عہد ستم میں ذاتی مشکلات کی پروا نہ کرتے ہوئے سیاسی کارکنوں کی دامے درمے سخنے مدد کی وہ اس ملک کی سیاسی تاریخ کا روشن اور قابل تقلید باب ہے۔ حق تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے،
’’اِک مرد آزاد تھا اجل جسے لے گئی‘‘۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ