رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شور سے ہم دور بھاگتے ہیں۔ فطری طور پر انسان پرسکون ماحول کی خواہش رکھتا ہے۔ جسے سکون‘ اطمینان اور قناعت کی دنیا مل جائے‘ اس سے بڑا خوش قسمت شاید ہی کوئی ہوگا۔ اگر کوئی ہو گا تواس کے توشہ خانے میں بھی اسی آسودگی کی دولت ہوگی۔ لیکن ہم میں سے بہت کم فطرت کے مناظر کو دل میں جگہ دیتے ہیں۔ پرندوں میں کوا اور مرغ پو پھٹنے اور صبحِ نو کی نوید سناتے ہیں۔ ہم کمبل اوڑھے ان کی آواز کے منتظر رہتے ہیں۔ یعنی مرغانِ سحر حضرتِ انسان کو بتاتے ہیں کہ جناب اب بستر چھوڑدیں۔ دیہات میں کبھی وہ زمانہ بھی تھا جب گھڑیوں کی بجائے سورج کے طلوع اور غروب سے نظم ہستی ترتیب دیا جاتا۔ ہم پرندوں کی آوازوں کے منتظررہتے۔ دبیز اندھیرے سے صبح پھوٹنے کا منظر انسان کو مبہوت کردیتا ہے۔ اپنی اپنی بولیاں بولنے والے پرندے پروں کو پھڑپھڑاتے‘ بادِ صبا کی موجوں سے اٹھکیلیاں کرتے فضا کو زندگی سے بھر دیتے ہیں۔ ان کی چہکار دن بھر کے منصوبوں کے خدوخال بیان کرتی معلوم ہوتی ہے۔ گویا داناپانی چگنے کہاں جانا ہے‘ کن دوستوں کے ساتھ رہنا ہے اور واپس کا سفر کب ہوگا؟ وہ پرندے جو اپنے کھیتوں میں ہیں اور قریب ہی درختوں پر بسیر ا کرتے ہیں‘ میں انہیں دیکھتا‘ لیکن چونکہ زیادہ تر وقت شہروں میں گزارنا پڑرہا ہے‘ یہاں انسانوں کی بے ہنگم اور بے ترتیب زندگی کی طرح پرندوں کو بھی مختلف سمتوں میں اُڑان بھرتے دیکھتاہوں۔ زیر آسماں محوِ پرواز‘ مگر منزلوں کا کچھ اتا پتا نہیں۔ شام ہوتے ہی دیہات ہوں یا شہر‘ پرندے واپس اپنے گھونسلوں میں آتے ہیں۔ آج کل اکثر ہماری طرح بے گھر ہیں۔ درختوں کی ٹہنیوں اور عمارتوں کی منڈیروں پر سرد راتیں گزارتے ہیں۔ تاریکی چھاتے ہی ماحول میں سکون اتر آتاہے۔ ہم انسان بھی ایسے ہی پرندے ہیں لیکن ہماری فضائیں فکر سے بوجھل رہتی ہیں۔ کبھی انسان بھی پرسکون تھا لیکن پھر جدید صنعتی دور نے سب کچھ بدل کررکھ دیا۔ اب زندگی گزارنے کے ڈھنگ‘ ذہنی تربیت اور خوش رہنے اور سلیقے سے جینے کے طریقے مغرب میں بتائے جاتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ سکون سے رہا جائے اور اپنے نصیبوں کے اطمینان کی خوشہ چینی کی جائے۔ ہر انسان آسودگی کا متمنی ہوتا ہے‘ مگر وہ آسودہ نہیں۔ وہ شور سے دور بھاگنے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔یہ بھی بے اختیار ی ہے۔ آزادی اسے کہتے ہیں کہ انسان اپنی خود مختاری کا سودا نہ کربیٹھے‘ کسی کے تابع نہ ہوجائے۔
معاشرے میں رہتے ہیں تو شور سے مفر ممکن نہیں۔ یہ ایسا طوفان ہے کہ اپنے قلعوں کی دیواریں جتنی بھی اُٹھا لیں‘ اس کی یلغار نہیں رکتی۔ ہم پاکستانیوں کی زندگی کو دو قسم کے شور نے اجیرن کررکھا ہے‘ ایک وہ جو آپ کو بے ترتیب ٹریفک اور شہروں کی تیز رفتار زندگی میں سنائی دیتا ہے۔ ہم تو پرانے زمانے کے لوگ ہیں اس لیے اس شور سے ابھی مانوس نہیں ہوسکے ہیں۔ ہماری کوشش یہ ہے کہ ادھر کا رخ ہی نہ کریں۔ صرف بہ امر مجبوری ادھر کا رخ کریں ا ور ان مقامات پر جائیں جہاں یہ نسبتاً کم ہو۔ دوسرا شور جو ہر نوعیت کی آلودگی کاباعث بنتا ہے‘ وہ سیاسی ہے۔ ہم عشروں سے اسی شور کے تھپیڑے کھا رہے ہیں۔ ہر آنے والا دور اس کی شدت میں اضافہ کررہا ہے۔ تمام قوم‘ سماجی‘ معاشی اور عوامی حلقے اس سے تنگ ہیں۔ اس نے عوام کو ذہنی تنائو‘ کشیدگی اوردبائو کا شکار کردیا ہے۔ جہاں بھی جائیں‘ سیاسی شور کی دبیز چادر ماحول پر چھائی ہوتی ہے۔ہر کوئی فکرمندی اور تشویش کی تصویر بنا دکھائی دیتا ہے۔ گزشتہ آٹھ ماہ سے اس میں مزید اضافہ ہو اہے۔ اب تو لگتا ہے کہ یہ سب حدود پار کرچکا ہے۔ اس دوران جو واقعات رونما ہوئے ہیں اور جو کچھ مخالفین پر بیتی‘ اس کے نفسیاتی اثرات اس معاشرے پر بہت دیر تک رہیں گے۔ ارشدشریف سے میری ایک ہی ملاقات تھی۔ لاہور کے ایک کالج میں انہوں نے بڑا طویل انٹرویو ریکارڈ کیا تھا‘ اپنے کسی پروگرام کے لیے۔ پھر قسمت نے ملاقات کا موقع نہ دیا۔ اُن پر تشدد اور ان کا قتل میرے دل سے محو نہیں ہورہا۔ ذاتی طور پراعظم سواتی صاحب کو جانتا ہوں‘ نہ کبھی ملا ہوں مگر جو کچھ ان کے ساتھ ہورہاہے‘ اس کی وجہ سے بھی دل پر بوجھ سا ہے۔ ان کی زبان اور لہجہ درشت تھا مگر وہ ہماری قابلِ احترام مقننہ کے سینیٹر ہیں۔ قانون ہے تو ضرور مگر اسے حرکت میں لائیں اور قانون کی حکمرانی کے بھی اقدامات کریں مگر یہ کیا کہ ان کے خلاف ملک کے کونے کونے میں مقدمات قائم کردیں۔ اور جو اُنہوں نے ساری دنیا کو اپنے ساتھ کیے گئے سلوک کے بارے میں بتایا‘ اس سے آپ کے خیال میں دنیا میں کیاہماری رسوائی کم ہوئی ہے ؟ عمران خان پر حملے کی بات ہم کیا کریں ؟ شکر ہے وہ زندہ ہیں۔ مگر مارچ میں ایک نوجوان صحافی خاتون رپورٹنگ کی گہما گہمی میں اپنی زندگی گنوا بیٹھی۔ عمران خان پر حملے میں گرفتار مبینہ ملزم کی گولی سے ایک نوجوان بھی جاں بحق ہوا۔ لانگ مارچ ہوا۔ لوگ اکٹھے ہوئے‘ تقرریں ہوئیں اور ایک نئے اعلان کے ساتھ کہ ”ہم اسمبلیاں توڑدیں گے‘‘سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔
جس طرح پرندوں اور انسانوں کی زندگی سکون اور ترتیب سے فطری طور پر عبارت ہے‘ سیاست کا مقصد بھی بالکل ایسا ہی ہے۔ معاشرے میں تنازعات کا پرامن حل تلاش کرنے کا ایسانظام پیدا کیا جائے کہ کسی کو شور کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ جرائم‘ جھگڑے‘ لڑائیاں اور سیاسی کشمکش ویسے تو ہر معاشرے میں ہے مگر جہاں ناانصافی ہو‘ کرپشن معاشرتی چلن بن جائے‘ قانون کی حکمرانی محض غریب اور پسماندہ لوگوں کے لیے رہ جائے جبکہ طاقتور اپنی سیاست اور اقتدار کے زور پر دولت کے انبار لگاتے چلے جائیں‘ وہاں صرف شور کے جھکڑ چلتے ہیں۔
ہماری زندگیاں تو ان سیاسی طوفانوں کی نذر ہوچکیں۔ گردو پیش کی آلودگی سیاست کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا‘ سیاست کا مقصد سماج میں سکون لانا ہوتا ہے۔ یہ معاملات طے کرنا پڑتے ہیں کہ قانونی طور پر جائز اقتدار کیا ہے‘ یہ کس کے پاس ہوگا اور کتنی دیر تک رہے گا‘ معاشرے میں وسائل کی تقسیم کیسے ہوگی‘ انصاف کیسے قائم ہوگااور مفادات کے ٹکرائو کا حل کیسے نکالا جائے گا۔ سیاست ان مسائل کا حل رکھتی ہے۔ لیکن اگر نیت خراب ہو‘ نظام بگڑا ہو توبہترین آئینی ڈھانچہ بھی مسائل کا تدارک نہیں کرسکتا۔ تاہم میں اس مفروضے سے اتفاق کرتا ہوں کہ سیاست اپنی راستہ خود بنا لیتی ہے۔ یہ بات ہمارے دانشور اکثر کہا کرتے ہیں مگر اس کا مقصد من مانی کرنا نہیں بلکہ ایک دوسرے کی بات سن کر مذاکرات کرنے‘ مل کر چلنے اور سیاسی تنازعات کوحل کرنے کی غرض سے موزوں راستہ تلاش کرنا ضروری ہے۔
دنیا ہماری حالت دیکھ کر پریشان ہے۔ ہمارے سیاسی پہلوانوں نے ملک کو ایک کل وقتی اکھاڑے میں تبدیل کررکھا ہے۔ ہر روز ایک نیا دنگل ہوتاہے۔ کہنا یہ ہے کہ بس کریں‘ بہت ہوچکا۔ قوم کو سکون کا سانس لینے دیں۔انتخابات کی تاریخ‘ شفافیت اور اس کے لیے درکار اصلاحات کو ئی اتنا پیچیدہ مسائل تو نہیں کہ سیاسی مذاکرات کی بساط نہ بچھائی جاسکے‘ لیکن یہ قدم بھی اپنی تاریخ کے تناظر میں موجودہ سیاسی کھلاڑیوں کے کردار‘ ظاہر اور پوشیدہ منصوبوں کی روشنی میں خواب لگتا ہے۔ تدبیر محوِ حیرت ہے کہ آخراس قوم کی تقدیر میں کیا ہے ؟ لیکن اس شور میں تدبیر کسے سوجھتی ہے ؟
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ